پی ٹی آئی کو نفی کر کے قومی حکمت عملی نہیں بنائی جا سکتی
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
لاہور:
ایکسپریس میڈیا گروپ کے گروپ ایڈیٹر ایازخان نے کہا ہے نواز شریف کیلیے مریم نواز نکلی تھیں تاہم ن لیگ کیلیے اتنی مشکلات نہیں تھیں جتنی آج پی ٹی آئی کیلیے ہیں۔
انھوں نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’’ایکسپرٹس ‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کا کوئی بندہ بات کرتا ہے تو گرفتارکرلیا جاتا ہے، اسلام آباد کانفرنس میں علی امین گنڈا پور کوجاناچاہیے تھا، عمران خان سے منگل کو وکلا نے ملاقات کرنا ہوتی ہے جمعرات کو فیملی نے ملنا ہوتا ہے پھر آج علیمہ خان اور دیگر بہنیں وہاں کیا کررہی تھیں؟
بیوروچیف اسلام آباد عامر الیاس رانا نے کہا کہ عمران خان ہرطرف کھیلتے ہیں، وہ جیل میں ان کاسوشل میڈیا پارٹی کو بھی کاٹ رہا ہے، پروپیگنڈا ہوا ٹرمپ کا فون آئے گا ا س کے لوگ ائیں گے پھر پاکستانیوں کاوفد آئے گا، علیمہ خان کی یہ بات درست ہے کہ وہ عمران خان کو خاموش کرانا چاہتے ہیں مگر وہ نہیں ہورہے، پی ٹی آئی میں جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔
بیوروچیف فیصل حسین نے کہا کہ پی ٹی آئی میں بہت گروپ بن گئے ہیں مگر اس سے عمران خان یا جماعت کے ووٹ بنک کو نقصان نہیں پہنچے گا، قیدی نمبر804 سیاسی طورپربہت طاقتورہوچکا اسے ان لوگوں کی ضرورت نہیں رہی، اسلام آباد کانفرنس میں پی ٹی آئی کا نہ ہونا ملک کیلیے صحیح نہیں، بلوچستان،کے پی کے اور نہروں کے معاملے پر قومی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے ، پی ٹی آئی کو نفی کرکے قومی حکمت عملی نہیں بنائی جاسکتی۔
تجزیہ کار خالد قیوم نے کہا ہے اڈیالہ جیل کے باہر پی ٹی آئی کے احتجاج کا اثر آیا ہے جو آگے جاکر بڑھ سکتا ہے، یہاں روزانہ کی بنیاد پر سیاست تبدیل ہوتی ہے، اسی لاہور میں جو پیپلزپارٹی کا گڑھ ہوتا تھا مشرف دور میں احتجاج کی کال پر پریس کلب کے باہر تیس، پینتیس لوگ اکٹھے ہوئے تھے، کلثوم نواز ، بنظیراور نصرت بھٹو بھی اکیلی نکلی تھیں،عمران خان کی فوری رہائی ممکن نہیں لگتی۔ایم کیوایم کراچی میں شراکت داری چاہتی ہے۔
بیوروچیف لاہور محمد الیاس نے کہا کہ عمران خان باہر آنے کیلیے سمجھوتہ نہیں کررہے کیونکہ انھیں پتہ ہے پارٹی کی مقبولیت اسی وجہ سے قائم ہے، وہ چاہتے ہیں باہر آکر جلسے ،جلوس کریں اور اپنی جماعت چلائیں، وہ اسٹیبلشمینٹ سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جس سے فائدہ ہو اور وہ باہر آئیں مگرشرائط ماننے کو تیار نہیں، ایم کیوایم اپنے ووٹ بینک کیلیے احتجاج کررہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل
کراچی (اسٹاف رپورٹر)سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے کہا ہے کہ حال ہی میں کچھ لوگ ہماری سیاسی کوششوں کو ’مائنس فارمولے‘ کے طور پر پیش کر رہے ہیں، جیسے یہ عمران خان کو کمزور کرنے یا پھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر قبضہ کرنے کی سازش ہو، واضح رہے کہ پی ٹی آئی عمران خان کے بغیر ممکن ہی نہیں، وہ اس کے بانی، چہرہ اور قوت ہیں۔سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ محمود مولوی، فواد چوہدری اور میں نے جو کاوش کی ہے یہ کسی سازش کا حصہ نہیں بلکہ ایک شعوری کوشش ہے کہ جس کے تحت پاکستانی سیاست کو ٹکراؤ سے نکال کر مفاہمت کی طرف واپس لایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ مزاحمت اور مسلسل احتجاج کی سیاست نے پی ٹی آئی کے لیے صرف گرتی ہوئی سیاسی گنجائش، گرفتاریوں اور تھکن کے سوا کچھ نہیں چھوڑا، اب وقت آگیا ہے کہ ہم رک کر سوچیں، جائزہ لیں اور دوبارہ تعمیر کریں۔ہم نے ذاتی طور پر پی ٹی آئی کے کئی اہم رہنماؤں سے مشاورت کی، تقریبا سب نے تسلیم کیا کہ محاذ آرائی ناکام ہو چکی ہے اور مفاہمت ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔مزید لکھا کہ جب ہم نے کوٹ لکھپت جیل میں چوہدری اعجاز سے اور پی کے ایل آئی ہسپتال میں شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی، تو دونوں نے عمران خان کے ساتھ اپنی پختہ وابستگی برقرار رکھتے ہوئے اس بات سے اتفاق کیا کہ یہ جمود ختم ہونا چاہیے، ان کا مطالبہ سیاسی سانس لینے کی معمول کی گنجائش تھا، سرنڈر نہیں۔
بدقسمتی سے رابطوں کی کمی، خوف اور سوشل میڈیا کی مسلسل گرمی نے پی ٹی آئی کے اندر کسی مکالمے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔سابق گورنر کا کہنا تھا کہ دوسری طرف بیرونِ ملک بیٹھے کچھ خودساختہ اینکرز نے دشمنی اور انتشار کو ہوا دے کر اسے ذاتی مفاد کا کاروبار بنا لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بڑھتی ہوئی سفارتی ساکھ نے پاکستان کے بارے میں دنیا کے تاثر کو بدل دیا، یہ توقع کہ غیر ملکی طاقتیں خود بخود عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوں گی، پوری نہیں ہوئی۔یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ اگر کوئی پی ٹی آئی رہنما سمجھتا ہے کہ تصادم اور احتجاج ہی درست راستہ ہے، تو وہ آگے بڑھے اور ہم میں سے ان لوگوں کو قائل کرے جو اس سے اختلاف رکھتے ہیں، بحث و مباحثہ خوش آئند ہے مگر اندھی محاذ آرائی مستقل سیاسی حکمتِ عملی نہیں بن سکتی۔
ہماری کوشش آزاد، مخلص اور صرف ضمیر کی آواز پر مبنی ہے، ہم چاہتے ہیں معمول کی سیاست بحال ہو، ادارے اپنا کردار ادا کریں اور سیاسی درجہ حرارت نیچے آئے۔اگر مفاہمت کو غداری سمجھا جاتا ہے، تو ٹھیک ہے، ہم دل سے پی ٹی آئی کی بقا اور پاکستان کے استحکام کے لیے سوچ رہے ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رہنما فواد چوہدری نے بھی یکم نومبر کو کہا تھا کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں سب سے اہم یہ ہے کہ سیاسی درجہ حرارت نیچے لایا جائے اور وہ اس وقت تک کم نہیں ہو سکتا جب تک دونوں سائیڈ یہ فیصلہ نہ کریں کہ انہوں نے ایک قدم پیچھے ہٹنا اور ایک نے قدم بڑھانا ہے۔
سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر جاری بیان میں میں سابق پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ حکومت کو ایک قدم بڑھانا اور پی ٹی آئی نے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہے، تاکہ ان دونوں کو جگہ مل سکے، پاکستان نے جو موجودہ بین الاقوامی کامیابیاں حاصل کیں، سیاسی درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا فائدہ حاصل نہیں ہو سکا۔لہذا جب تک یہ درجہ حرارت کم نہیں ہوتا، اُس وقت تک پاکستان میں معاشی ترقی اور سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔اس سے قبل 31 اکتوبر کو فواد چوہدری، عمران اسمٰعیل اور محمود مولوی نے پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سے لاہور میں اہم ملاقات کی تھی۔