اسلامک کانفرنس کے جسد خاکی کو زندہ کرنے کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
21اگست 1969 ء میں مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کے واقعہ پر اسرائیل کی ایک سابقہ خاتون وزیراعظم گولڈا میئر نے کہا تھا کہ میری زندگی کا سب سے برا اور خوشگوار دن وہ تھا جب میں نے مسجد اقصیٰ کو آگ میں جلتے دیکھا تھا۔ ’’جب اس سے وجہ پوچھی گئی تھی تو اس نے کہا تھا کہ برا دن اس لئے تھا کہ جس دن میں نے مسجد اقصیٰ جلتے دیکھی تھی تو میں ساری رات سو نہ سکی تھی کہ کہیں صبح عالم اسلام ہم پر حملہ نہ کر دے کیونکہ اگر ایسا ہو گیا تو پھر اسرائیل کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا اور خوشگوار اس لئے کہ ساری رات گزر گئی، اگلے دن کا سورج نکلا اور میں نے مسجد اقصیٰ کے جلانے پر مسلمانوں کا رد عمل دیکھا کہ مسلم حکمرانوں میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ سب اسرائیل پر حملہ کرتے بلکہ وہ لوگ تو خود اپنی عوام کو جنگ سے ڈرانے اور روکنے میں پیش پیش نظر آ رہے تھے.
1972 ء میں او آئی سی کو باقاعدہ تنظیم کی شکل دی گئی اور یہ طے پایا کہ اس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہر سال ہو گا جبکہ سربراہی اجلاس ہر 3سال بعد ہوا کرے گا۔ 57مسلم ممالک کی اس عالمی سربراہی کانفرنس کے اجلاسوں کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو پاکستان میں 1974ء میں منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس ابھی تک کی واحد کانفرنس ہے جس میں دنیا کے سب سے زیادہ ممالک نے شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس کو کامیاب کرانے میں بھی سعودی عرب کے سربراہ شاہ فیصل نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، یہی وہ کانفرنس تھی جس میں ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل، معمر قذافی اور یاسر عرفات عالمی لیڈر بن کر ابھرے تھے۔ پاکستان میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں پہلی دفعہ فلسطین کو علیحدہ مملکت کا اسٹیٹس دیا گیا تھا، جس کے بعد اسی بنیاد پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے فلسطین لیڈران کو خطاب کرنے کا موقع ملا۔ 1974ء میں لاہور میں منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس میں مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی، فلسطین سے یاسر عرفات، سعودی عرب سے شاہ فیصل، یوگنڈا سے عیدی امین، تیونس سے بومدین، لیبیا سے کرنل قذافی، مصر سے انور سادات، شام سے حافظ الاسد، بنگلہ دیش سے شیخ مجیب الرحمان اور ترکی سے فخری کورو سمیت تمام بڑے مسلم رہنما شریک ہوئے تھے۔اس وقت تنظیم کے عروج کا یہ عالم تھا کہ 1980ء میں پاکستان کے صدر محمد ضیاء الحق نے امت مسلمہ کے متفقہ لیڈر کے طور پر اقوامِ متحدہ سے خطاب کیا تھا اور ان کے خطاب سے قبل ریکارڈڈ تلاوت قرآن پاک بھی چلائی گئی تھی اور پھر اس کے بعد اس تنظیم کے زوال کا یہ عالم تھا کہ یہ تنظیم ایران عراق جنگ کو بند کرانے میں ناکامی کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ غیرموثر ہوتی چلی گئی۔ اگست 1990ء کو عراقی فوج نے کویت پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا مگر آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) صدام حسین کے حملے کا کوئی آبرو مندانہ حل نہ نکال سکی۔
آج کشمیر اور فلسطین کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ او آئی سی کے ساتھ ایک دردناک حقیقت یہ بھی وابستہ ہے کہ اس کے عروج سے جڑے تمام کردار آہستہ آہستہ غیر طبعی موت مارے گئے۔ گزشتہ چند روز ہوئے اسرائیل نے غزہ میں قیامت صغری برپا کر رکھی ہے۔ رمضان کے ماہ مقدس میں اور اس کے بعد اسرائیل تقریباً ہر سال فلسطینی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ ہم مشرق وسطی کا نقشہ تبدیل کر کے رکھ دیں گے۔ نیتن یاہو کے اس بیان سے پہلے مشرق وسطیٰ کی ہر ریاست یہی سوچ رہی تھی کہ اگر ہم فلسطینیوں کو مرنے دیں گے تو خود بچ جائیں گے، یاہو نے یہ بیان دے کر ثابت کر دیا ہے کہ خاموشی اور بے حسی مشرق وسطیٰ کے عربوں کو کسی صورت نہیں بچا پائے گی۔عراقی صدر صدام، کرنل قذافی اور حافظ الاسد وغیرہ کی صورت میں اسرائیلیوں کے سامنے جو رکاوٹیں تھیں وہ عرب مسلمانوں نے خود ہی رضاکارانہ طور پر ختم کر دی ہیں۔ آج غزہ کی تباہی پر اسلامی کانفرنس (اور آئی سی)مگر مچھ کے آنسو بہانے سے بھی قاصر ہو چکی بلکہ اس کی کارکردگی یہ ہے وہ بیانات اور قراردادیں پاس کرنے سے بھی محروم ہو چکی ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس اسلامی تنظیم پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا قبضہ ہے اور عملًا یہ تنظیم کب کی مر چکی ہے جس کے جسد خاکی کو بس دفنانا باقی یے۔اسرائیلی عزائم سے تو یہی نظر آ رہا ہے کہ اب اس خطے میں ترکی، اسرائیل اور سعودی عرب کے تین ممالک ہی دنیا کے نقشے پر نظر آئیں گے۔ خلیجی ممالک کو چایئے کہ وہ اپنی آزادی اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے اسرائیلی وزیراعظم کے اس بیان کے خلاف رد عمل ظاہر کریں اور آئیندہ کا اپنا لائحہ عمل طے کریں۔ عرب ممالک کو یورپی یونین کی طرز پر اپنا تحفظ کرنا چاہیے جو اسی صورت میں ممکن ہے کہ خلیجی ریاستیں اپنے درمیان فوجی اور اقتصادی تعاون کو مزید بہتر بنائیں۔ حالانکہ مسلم سکالرز کی تبلیغی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ’’ریٹر اسرائیل‘‘کا تصور بھی او آئی سی کی طرح خود ہم نے ہی تخلیق کیا تھا اور اس کے نتائج بھی ہم مسلمانوں ہی کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ اگر مسلم اتحاد ہو جائے چاہے او آئی سی کے مردہ گھوڑے ہی میں جان ڈالی جائے تو کچھ بعید نہیں ہے کہ اسرائیل کی سابقہ خاتون وزیراعظم گولڈا میئر کی طرح موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو کی بھی نیندیں اڑ جائیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سربراہی کانفرنس گیا تھا تھا کہ تھی کہ کے بعد اور اس
پڑھیں:
بھارت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے، حریت کانفرنس
ترجمان حریت کانفرنس نے ماضی میں پٹھانکوٹ، اوڑی، بھارتی پارلیمنٹ، پلوامہ اور جموں میں فضائی اڈے جیسے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے بھارت اس طرح کے فالس فلیگ آپریشنز کرتا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے ضلع اسلام آباد کے سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت جعلی آپریشنز اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے کے ذریعے کشمیریوں کی جائز جدوجہد آزادی کو دہشت گردی سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ ذرائٰع کے مطابق کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں 20مارچ 2000ء کو اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے دورہ بھارت کے موقع پر چھٹی سنگھ پورہ میں سکھوں کے قتل عام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تحریک آزادی کشمیر اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے جعلی آپریشنز کرنے کی بھارت کی ایک طویل تاریخ ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ حملہ بھی امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے دورہ بھارت کے موقع پر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت کشمیر میں اپنے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے بڑے سفارتی واقعات سے پہلے اکثر اس طرح کے ڈرامے رچاتا رہا ہے۔ بیان میں ماضی میں پٹھانکوٹ، اوڑی، بھارتی پارلیمنٹ، پلوامہ اور جموں میں فضائی اڈے جیسے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے بھارت اس طرح کے فالس فلیگ آپریشنز کرتا رہا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ سکھوں کے قتل عام کی تحقیقات میں بھارتی فورسز کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔انہوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ کشمیر کے بارے میں اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرے تاکہ بھارت کی طرف سے اس طرح کے جعلی آپریشنز کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کو ایک بڑی تباہی سے بچایا جا سکے۔ ترجمان نے کہا کہ مودی حکومت مظلومیت کا کارڈ کھیل کر عالمی برادری کو بار بار دھوکہ نہیں دے سکتی کیونکہ وہ پاکستان کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کے حوالے سے ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے۔ ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے کہا کہ کشمیری عوام اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ اپنے حق خودارادیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور ان کی تحریک آزادی کو عالمی سطح پر ایک منصفانہ جدوجہد کے طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔