UrduPoint:
2025-06-09@12:53:14 GMT

امریکا کی جانب سے 60 ممالک پر درآمدی ٹیرف نافذکردیا گیا

اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT

امریکا کی جانب سے 60 ممالک پر درآمدی ٹیرف نافذکردیا گیا

نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔09 اپریل ۔2025 )امریکا کی جانب سے 60 ممالک پر درآمدی ٹیرف نافذکردیا گیا ہے ٹرمپ انتظامیہ کا الزام ہے کہ یہ ممالک امریکی اشیا پر زیادہ ٹیرف لگاتے ہیں یا دیگر طریقوں سے امریکی اقتصادی اہداف کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں سب سے محصولات چینی مصنوعات پر عائد کیے گئے ہیں.

امریکی جریدے کے مطابق چین کو اب 104 فیصد تک کے ٹیرف کا سامنا ہے ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسری مرتبہ صدر بننے سے قبل چینی مصنوعات کی امریکہ درآمد پر 20 فیصد ٹیرف عائد تھا جسے گذشتہ ہفتے بڑھا کر 54 فیصد کر دیا گیا اس ٹیرف میں 50 فیصد کا مزید اضافہ پچھلے چند گھنٹوں میں کیا گیا ہے.

(جاری ہے)

امریکی حکام کے مطابق یہ اضافہ چین کی جانب سے امریکی اشیا پر جوابی ٹیرف واپس نہ لینے کے بعد کیا گیا ہے امریکی ٹیرف کے نفاذ کے بعد ایشیا کی بیشتر سٹاک مارکیٹوں میں ایک بار پھر مندی کا رجحان دیکھنے میں آیا جاپان کی نکئی 225 انڈیکس میں 4.3 فیصد کی کمی دیکھی گئی جبکہ جنوبی کوریا کے حصص بازار کوسپی میں 1.4 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہانگ کانگ کے ہانگ سینگ میں 1.5 فیصد کی کمی واقع ہوئی تاہم چین جسے سب سے زادہ ٹیرف کا سامنا ہے اس کی مارکیٹ ابتدائی طور پر نقصان میں جانے کے بعد اب 0.2 فیصد کے اضافے پر موجود ہے.

امریکہ نے کئی چینی مصنوعات پر محصولات بڑھا کر 104 فیصد تک کر دیا ہے تاہم چین سے گاڑیوں، سیمی کنڈکٹرز، سٹیل اور المونیم کی درآمد پر ٹیرف کی شرح کم ہے بیجنگ اب بھی ہار مانتا دکھائی نہیں دے رہا چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکی مصنوعات پر محصولات عائد کرے گا لیکن کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی محصولات سے چین کو سخت مقصان ہوگا اور اسے اپنی معیشت کی تشکیل نو کرنی پڑے گی اور مقامی کھپت پر بہت زیادہ انحصار کرنا پڑے گا.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یوریشیا گروپ کنسلٹنسی سے تعلق رکھنے والی ڈین وانگ کہتی ہیں کہ درحقیقت 35 فیصد سے زائد کے ٹیرف کے نتیجے میں چینی کاروباروں کو امریکہ یا جنوب مشرقی ایشیا مصنوعات برآمد کرنے سے ہونے والا منافع ختم ہو جائے گا ان کا کہنا ہے کہ 35 سے زیادہ کوئی بھی ٹیرف محض علامتی ہے وانگ کہتی ہیں کہ ٹیرف کے نتیجے میں چین اپنے سالانہ ترقی کے تقریباً 5 فیصد کے ہدف کو شاید حاصل نہ کر پائے کے ایم سی ٹریڈ سے تعلق رکھنے والے ٹم واٹرر کہتے ہیں کہ چینی معیشت میں برآمدات پر انحصار کو دیکھتے ہوئے یہ صاف ظاہر ہے 104 فیصد کے درآمدی ٹیکس سے چین کو بہت نقصان ہوگا ان کا کہنا تھا کہ مختصر مدت میں تو شاید چین صورتحال کو سنبھال لے لیکن طویل مدت میں ان ٹیرف سے نمٹنے کے لیے چین کو اپنی معیشت کے بنیادی ڈھانچوں میں تبدیلیاں لانی پڑیں گی.


ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے چین کو گیا ہے

پڑھیں:

کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایک بات تو پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ اُن کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ وہ کب کیا کر بیٹھیں کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پالیسی کے حوالے سے اُن کے بہت سے اقدامات نے انتہائی نوعیت کی کیفیت راتوں رات پیدا کردی اور پھر اُنہوں نے یوں پسپائی اختیار کی کہ دنیا دیکھتی ہی رہ گئی۔

بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اُن کی سوچ انتہائی متلون ہے۔ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ جاتے ہیں اور عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی غیر یقینی شخصیت ہیں اور اِس وصف کے ذریعے امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔

ٹیرف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اُنہوں نے پہلے تو چین، کینیڈا اور میکسیکو سمیت بارہ سے زیادہ ممالک پر بھاری درآمدی ڈیوٹی تھوپ دی۔ اُن کا خیال تھا کہ درآمدات کو امریکی صارفین کے لیے مہنگا کرکے وہ ملکی صںعتوں کو زیادہ تیزی سے پنپنے کا موقع فراہم کریں گے مگر جو کچھ ہوا وہ اِس کے برعکس تھا۔ جب دوسرے ملکوں نے بھی جوابی ٹیرف کا اعلان کیا تو امریکی مصنوعات اُن ملکوں کے لیے صارفین کے لیے مہنگی ہوگئیں اور یوں امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔

صدر ٹرمپ نے جب دیکھا کہ اُن کا اٹھایا ہوا قدم شدید منفی اثرات پیدا کر رہا ہے تو اُنہوں نے قدم واپس کھینچ لیا۔ یوں امریکا نے ٹیرف کے محاذ پر واضح پسپائی اختیار کی۔ اِس پسپائی نے ثابت کردیا کہ امریکا اب من مانی نہیں کرسکتا۔ وہ کوئی یک طرفہ اقدام کرکے کسی بھی ملک کے لیے بڑی الجھن پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ دھونس دھمکی کا زمانہ جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑ رہا ہے۔

طاقت کا معاملہ بھی “وڑتا” دکھائی دے رہا ہے۔ چین اور روس ڈٹ کر میدان میں کھڑے ہیں۔ اُنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ اب امریکی فوج کے لیے کہیں بھی کچھ بھی کرنا آسان نہیں رہا۔ منہ توڑ جواب دینے والے میدان میں کھڑے ہیں۔ دور افتادہ خطوں کو زیرِنگیں رکھنے کی امریکی حکمتِ عملی اب ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ افریقا میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یورپ کی ہچکچاہٹ نے امریکا کی مشکلات مزید بڑھادی ہیں۔

ہمارے سامنے اب ایک ایسی دنیا تشکیل پارہی ہے جس میں امریکا اور یورپ ہی سب کچھ نہیں۔ پوری دنیا کو مٹھی میں بند کرکے دبوچے رکھنے کا زمانہ جاچکا ہے۔ بہت سے ممالک نے خود کو عسکری اعتبار سے مضبوط بنایا ہے۔ پاکستان کو انتہائی کمزور سمجھا جارہا تھا مگر اُس نے فضائی معرکہ آرائی میں بھارت کو ناکوں چنے چبواکر امریکا اور یورپ کو پیغام دے دیا کہ اُسے تر نوالہ نہ سمجھا جائے۔ دنیا بھر میں بھارت کی جو سُبکی ہوئی ہے اُس نے یہ بھی واضح اور ثابت کردیا کہ بھارت عالمی طاقت تو کیا بنے گا، وہ علاقائی طاقت بننے کے قابل بھی نہیں ہے۔

یہ تمام تبدیلیاں دیکھ کر امریکی قیادت بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ ٹیرف یا کسی اور معاملے میں من مانی سے گریز ہی بہتر ہے۔ صدر ٹرمپ نے چند ہفتوں کے دوران جو طرزِ فکر و عمل اختیار کی ہے وہ اِس بات کی غماز ہے کہ اب سب کچھ امریکا کے حق میں نہیں رہا۔

متعلقہ مضامین

  • محصولات میں اضافہ،نیا بجٹ، نئے ٹیکس: کئی شعبوں پر چھوٹ ختم
  • چینی وزارت  دفاع کا تائیوان کی ڈی پی پی انتظامیہ کے لئے انتباہ
  • امریکہ سے تجارتی کشیدگی کے باعث چینی برآمدات متاثر
  • کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟
  • چلی ، بولیویا، ارجنٹینا سمیت مختلف ممالک میں 6.7 شدت کا زلزلہ
  • ایک کلیدی   موڑ پر سربراہان مملکت کے درمیان  گفتگو  چین امریکہ تعلقات کی سمت کا تعین کرتی ہے۔سی ایم جی کا تبصرہ
  • امریکا کی جانب سے سفری پابندی اس کی نسل پرستانہ ذہنیت کی عکاس ہے، ایران
  • چین امریکا تجارتی مذاکرات پیر کو لندن میں ہوں گے
  • چلی، بولیویا، ارجنٹینا سمیت مختلف ممالک میں 6.7 شدت کا زلزلہ
  • ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سفری پابندیاں، امریکا میں منعقدہ فیفا اور اولمپکس کیسے متاثر ہوں گے؟