UrduPoint:
2025-07-26@07:17:39 GMT

دلی کا ایک مچھلی بازار ویڈیوز میں وائرل کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT

دلی کا ایک مچھلی بازار ویڈیوز میں وائرل کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 اپریل 2025ء) بھارتی دارالحکومت دہلی کے جنوبی علاقے چترنجن پارک کا ایک مشہور مچھلی بازار فی الوقت ایک بڑے سیاسی تنازع کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس تنازعے کا آغاز اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد ہوا، جس میں سخت گیر ہندو قوم پرست ایک مندر سے متصل دکان پر مچھلی فروخت کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔

چترنجن پارک کی یہ مارکیٹ پوری دہلی میں مشہور ہے، جہاں پورے شہر سے لوگ مچھلی خریدنے آتے ہیں اور یہ دہائیوں قدیم ہے، جہاں کی تقریباﹰ تمام دکانیں ہندو برادری کی ہیں اور وہی انہیں چلاتے ہیں۔

اس بازار سے متصل ایک مندر ہے، اور اسی سبب سخت گیر ہندوؤں کا کہنا ہے اس علاقے میں مچھلی فروخت کرنے سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔

(جاری ہے)

یہ ویڈیو ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہوا موئترا نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سخت گیر ہندوؤں کا ایک گروپ مچھلی فروشوں سے کہہ رہا ہے کہ "یہ ٹھیک نہیں ہے" اور مندر کے گرد و نواح کو "پاک" ہونا چاہیے۔

ترنمول کانگریس کی رکن اسمبلی مہوا موئترا نے بدھ کے روز ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ جماعت نہ صرف یہ حکم دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ بنگالی اپنا کاروبار کہاں چلائیں، بلکہ یہ بھی بتا رہی ہے کہ انہیں کیا کھانا چاہیے۔

انہوں نے ہندو قوم پرستوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا، اب ہر کوئی "ڈھوکلا کھائے اور دن میں تین بار جے شری رام کا نعرہ لگائے۔''

انہوں نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا: "آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح، دن کی روشنی میں، مکمل معافی اور ڈھٹائی کے ساتھ، بی جے پی کے غنڈے دکانداروں کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور انہیں کہہ رہے ہیں کہ وہ سی آر پارک میں اپنی دکانیں نہیں رکھ سکتے۔

"

انہوں نے مزید کہا کہ "کیا بی جے پی ہمیں یہ بتانے والی ہے کہ ہم کیا کھائیں گے اور ہماری دکانیں کہاں ہونی چاہئیں؟ کیا بی جے پی ہمیں یہ بتائے گی کہ ہمیں ڈھوکلا کیسے کھانا ہے اور دن میں تین بار جے شری رام نعرہ لگانا ہے۔"

موئترا نے بی جے پی پر "ہندو، مسلم مخالف، اور آئین مخالف" ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا، ’’ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ بی جے پی ہندوؤں کے لیے نہیں ہے۔

یہ ہندو دکاندار ہیں جنہیں دہشت زدہ کیا جا رہا ہے۔"

مہوا موئترا کی پوسٹ شیئر کرتے ہوئے دہلی کے سابق وزیر اور عام ادمی پارٹی کے رہنما سوربھ بھاردواج نے کہا کہ ڈی ڈی اے نے مچھلی کی دکانیں الاٹ کی ہیں اور وہ کسی غیر قانونی تجاوزات کا حصہ نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا، "اگر بی جے پی کو سی آر پارک کے بنگالیوں کے مچھلی کھانے سے مسئلہ تھا تو انہیں اپنے منشور میں ایسا کہنا چاہیے تھا۔

سی آر پارک میں رہنے والے بنگالی دہلی کی سب سے زیادہ پڑھی لکھی برادریوں میں سے ایک ہیں۔ ان کے جذبات اور کھانے کی عادات کا احترام کیا جانا چاہیے۔ میں ایک سبزی خور ہوں، اور مجھے ان کے کھانے کی عادات سے کبھی مسئلہ نہیں ہوا، کیوں بی جے پی اتنے پرامن علاقے میں مسائل پیدا کر رہی ہے؟" ویڈیو میں کیا ہے۔

وائرل ہونے والے ویڈیو میں سخت گیر ہندوں کے ایک گروپ کو بازار میں گشت کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جس میں سے ایک شخص کہتا ہے، "یہ غلط ہے۔

دھرم کہتا ہے کہ ہم کسی کو مار نہیں سکتے۔" ایک شخص یہ بھی کہتا ہے کہ دیوی دیوتاؤں کو گوشت پیش کرنا ایک "افسانہ" ہے اور ہندو مذہبی کتابوں میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

ایک دیگر شخص کہتا ہے: "کچھ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن اس مندر کے آگے جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس سے ہم جیسے دھرم کے ماننے والوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔

"

اس پر ایک دکاندار جواب دیتا ہے کہ یہ مچھلی بازار قانونی طور پر دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) نے خود فراہم کیا ہے، اس کے جواب میں، ہندو گروپ کہتا ہے، "ہاں، میں جانتا ہوں، ڈی ڈی اے بھی اپنی ذمہ داری سے بھاگ نہیں سکتی۔ ہم ان کی غلطیوں کو بھی ٹھیک کر دیں گے۔"

بی جے پی نے الزامات مسترد کر دیے

ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی نے اپوزیشن رہنماؤں کے اس الزام کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اس کا مقصد امن کو خراب کرنا ہے۔

بی جے پی کے سربراہ وریندر سچدیوا نے کہا ہے کہ چترنجن پارک میں مچھلی کے تاجروں نے ہمیشہ مندر کے تقدس کا احترام کیا ہے۔

مچھلی منڈیوں کو قانونی طور پر الاٹ کیا گیا ہے اور علاقے کی ضرورت ہے۔ مچھلی کے تاجر علاقے میں اعلیٰ سطح کی صفائی ستھرائی کو برقرار رکھتے ہیں اور سی آر پارک کی سماجی مذہبی سرگرمیوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتے ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ پوسٹ کیا گیا ویڈیو سیاسی مفاد کے حامل لوگوں نے سی آر پارک کی کمیونٹی میں پائی جانے والی ہم آہنگی کو بگاڑنے کے لیے تیار کیا ہے۔

ایک دوسرے بی جے پی رہنما کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیو جھوٹی اور من گھڑت ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سخت گیر ہندو سی آر پارک کرتے ہوئے بی جے پی ہیں اور کہتا ہے کیا ہے رہی ہے

پڑھیں:

غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟

اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، UNHCR، UNRWA، WHO اور اسی قبیل کے دسیوں ادارے اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے مابین متفقہ طور تشکیل پانے والے ان اداروں کا مکمل نظام امریکی کنٹرول میں ہے، اب وہ قحط کہیں گے تو قحط ہوگا، وہ جنگ کہیں گے تو جنگ ہوگی، وہ نسل کشی کہیں گے تو نسل کشی ہوگی۔ ان انسانی المیوں کے جو معیارات ہم نے تشکیل دیئے تھے، وہ مالی معاونین کی سیاست اور پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دنیا بہت غیر محفوظ ہوگئی، بالکل ویسی جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر۔ تحریر: سید اسد عباس

9 جولائی 2024ء کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 11 ماہرین نے غزہ میں قحط کے حوالے سے شدید خطرے کی گھنٹی بجائی۔ ان ماہرین نے مشترکہ بیان میں کہا: ”فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی باہدف، سوچی سمجھی قحط کی صورتحال نسلی کشی کی ایک شکل ہے اور اس کے نتیجے میں پورے غزہ میں قحط پھیل چکا ہے۔ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی ضروری طریقے سے زمینی راستے سے انسانی امداد کی فراہمی کو ترجیح دے۔ اسرائیل کے محاصرے کو ختم کرے اور جنگ بندی قائم کرے۔" ان ماہرین میں "Right to food" کے خصوصی نمائندے مائیکل فخری، محفوظ پینے کے پانی اورسینیٹیشن کے انسانی حقوق سے متعلق خصوصی نمائندے پیڈرو آروجو-آگوڈو، اور 1967ء سے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق خصوصی نمائندے فرانسسکا البانیز شامل تھے۔

ان کی رائے میں، وسطی غزہ میں بچوں کو طبی امداد فراہم کرنے کی کوششوں کے باوجود بھوک سے ان کی اموات نے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑی کہ غزہ قحط کا شکار ہوچکا ہے۔ "قحط" کو عام طور پر غذائیت کی شدید کمی سمجھا جاتا ہے، جو لوگوں کے ایک گروہ یا پوری آبادی کی بھوک اور موت کا باعث بنتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی قانون میں قحط کے تصور کی کوئی متفقہ تعریف نہیں ہے۔ 2004ء میں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) نے انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) تیار کی، جو آبادی کی غذائی عدم تحفظ کا نقشہ بنانے کے لیے ایک پانچ مراحل پر مشتمل پیمانہ ہے۔ اس تشخیصی نظام کا مقصد یہ ہے کہ جب غذائی عدم تحفظ کی نشاندہی کی جائے تو اجتماعی کارروائی کو تیز کیا جائے اور ایسی صورتحال کو IPC پیمانے پر لیول 5 تک پہنچنے سے روکا جائے، جہاں قحط کی تصدیق اور اعلان کیا جاتا ہے۔ اسے FAO، ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) اور ان کے شراکت داروں نے گذشتہ 20 سالوں سے ایک سائنسی، ڈیٹا پر مبنی پیمانے کے طور پر استعمال کیا ہے۔

انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) کے تحت قحط کے اعلان کے لیے قابلِ پیمائش معیار خوفناک حد تک سیدھے سادھے ہیں: کسی علاقے میں 20 فیصد یا اس سے زیادہ گھرانوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہو اور ان کے پاس مقابلہ کرنے کی محدود صلاحیت ہو؛ بچوں میں شدید غذائی قلت 30 فیصد سے تجاوز کر جائے اور یومیہ اموات کی شرح فی 10,000 افراد میں دو سے زیادہ ہو تو یہ قحط ہے۔ جب یہ تینوں معیار پورے ہو جائیں، تو "قحط" کا اعلان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ اعلان کسی قانونی یا اداراتی ذمہ داری کے نفاذ کا باعث نہیں بنتا ہے، لیکن بین الاقوامی انسانی ہمدردی کی کارروائی کو راغب کرنے کے لیے ایک اہم سیاسی اشارہ ہے۔ اگر مذکورہ بالا ماہرین ایک سال سے بھی پہلے، متفقہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کرسکتے تھے کہ محاصرہ زدہ غزہ کی پٹی میں قحط موجود ہے، تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ متعلقہ اقوام متحدہ کے ادارے اور ایگزیکٹو سربراہان اب تک اس نتیجے پر کیوں نہیں پہنچے کہ اس سال جولائی تک غزہ میں قحط کی سطح 5 (Level 5) تک پہنچ چکی ہے۔

آج جبکہ حقیقی معلومات سمٹ کر اسمارٹ فونز پر منتقل ہوچکی ہیں، غذائی عدم تحفظ کے مہلک درجے کی حقیقت عیاں اور قابل مشاہدہ ہے۔ لاغر جسموں کی تصاویر جو نازی حراستی کیمپوں میں لی گئی تصاویر کی یاد دلاتی ہیں، غزہ کی حقیقت کی المناک کہانی بیان کرتی ہیں۔ اس کے باوجود، 20 جولائی کو فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی (UNRWA) کی ان وارننگز کے باوجود کہ غزہ میں دس لاکھ بچوں کو فاقہ کشی کا خطرہ ہے، "قحط" کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ عالمی اداروں کے پاس IPC کے لیے درکار ضروری ڈیٹا موجود نہیں ہے، اسرائیلی پابندیوں کے باعث IPC کے تجزیہ کار غزہ نہیں جا پا رہے یا جانا نہیں چاہ رہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، جن میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں بیٹھے افسران اپنی نوکریوں کو محفوظ نہیں سمجھتے۔

امریکی حکومت کے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان اور اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز پر ذاتی حملے اور ان پر عائد پابندیاں اس بات کی واضح یاد دہانی ہیں کہ یہ ملازمتیں خطرات سے خالی نہیں ہیں، نیز یہ کہ امریکہ اقوام متحدہ کے نظام میں سب سے بڑا مالی معاون ہے۔ کسی بھی ادارے یا افسر کے لیے امریکی ناراضگی مول لینا  آسان نہیں ہے۔ آج فلسطینی دنیا کی گونجتی خاموشی کے درمیان بھوک سے مر رہے ہیں، جبکہ سرحد کے مصری حصے پر ٹنوں خوراک غزہ میں داخلے کی اجازت کا انتظار کرتے ہوئے ضائع ہو رہی ہے۔ اسرائیلی فوجیوں اور غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کے ذریعے بھرتی کیے گئے غیر ملکی کرائے کے فوجیوں نے نام نہاد انسانی امداد کی تقسیم کی جگہوں پر امداد کے خواہاں 900 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) کے مطابق تقریباً 90,000 بچے اور خواتین غذائی قلت کے فوری علاج کے محتاج ہیں؛ غزہ کی وزارت صحت نے رپورٹ کیا ہے کہ 20 جولائی کو ایک ہی دن میں 19 افراد بھوک سے ہلاک ہوئے اور اس سے بدتر حالات ابھی باقی ہیں۔ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، UNHCR، UNRWA، WHO اور اسی قبیل کے دسیوں ادارے اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے مابین متفقہ طور تشکیل پانے والے ان اداروں کا مکمل نظام امریکی کنٹرول میں ہے، اب وہ قحط کہیں گے تو قحط ہوگا، وہ جنگ کہیں گے تو جنگ ہوگی، وہ نسل کشی کہیں گے تو نسل کشی ہوگی۔ ان انسانی المیوں کے جو معیارات ہم نے تشکیل دیئے تھے، وہ مالی معاونین کی سیاست اور پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دنیا بہت غیر محفوظ ہوگئی، بالکل ویسی جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر۔

اقوام متحدہ کے قیام سے قبل ہمارے پاس انسانی المیوں سے نمٹنے کا نظام اور معیارات موجود نہیں تھے، تاہم آج ہمارے پاس نظام اور معیارات تو ہیں، تاہم جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے محاورے کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ علامہ اقبال کا شعر ایک مرتبہ پھر یاد آگیا، جنھوں نے لیگ آف نیشنز کے قیام کے وقت کہا تھا:
برفتد تا روش رزم دریں بزم کہن
دردمندان جھان طرح نو انداختہ اند
من ازیں بینش ندانم کہ کفن دزدے چند
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند
جہاں کا دُکھ درد رکھنے والوں نے نئی بنیاد ڈالی ہے، تاکہ دنیا سے جنگ کی ریت کو ختم کیا جائے، لیکن میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ کچھ کفن چوروں نے قبروں کو آپس میں بانٹنے کے لیے ایک انجمن بنائی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے مسلمان ممالک میں مشترکہ طور پر یک نکاتی ایجنڈے پر امریکی سفارتخانوں کے باہر مظاہرے ہوں، جس میں فقط ایک مطالبہ کیا جائے کہ مصر سے خوراک کے ٹرک بلا روک ٹوک غزہ پہنچنے چاہییں۔ یقیناً ہم سب مل کر یہ تو کر ہی سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • رحیم یار خان میں ہندو برادری کے 3 افراد اغوا، ڈی پی او کا نوٹس، بازیابی کے لیے کارروائیاں جاری
  • زمان پارک کے باہر اسلام آباد پولیس پر حملے کا کیس، عمران خان کو سمن جاری
  • ایف بی آر افسر کی وائرل بدتمیزی کی ویڈیو پر فیصل واوڈا کا رد عمل سامنے آگیا
  • کراٹے کمبیٹ کے 3 مرتبہ عالمی چیمپیئن شاہ زیب رند وزیراعظم سے نالاں کیوں؟
  • رینجرز اور کسٹمز کی جوڑیا بازار میں کارروائی؛ بھاری مقدار میں اسمگل شدہ اشیا برآمد
  • غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
  • زمان پارک پر اسلام آباد پولیس پر حملے کا کیس، عمران خان کو سمن جاری
  • مچھلی اور اس کی مصنوعات کی برآمد میں جون کے دوران سالانہ بنیاد پر 25.58 فیصد اضافہ ،حجم 10.8 ارب روپے رہا
  • یونان میں غزہ جنگ کے خلاف مظاہرہ، اسرائیلی بحری جہاز کو واپس جانے پر مجبور کردیا، ویڈیو وائرل
  • ’مجھے فرق نہیں پڑتا‘، عمرہ وی لاگنگ پر تنقید کرنے والوں کو ربیکا خان کا جواب