Daily Ausaf:
2025-11-03@16:38:39 GMT

زندگی کے روشن اور تاریک پہلوئوں کی حقیقت

اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT

زندگی ایک متنوع اور خوبصورت ترین احساس ہے۔ زندگی مشکلات، ناکامیوں اور تکالیف وغیرہ کی وجہ سے جتنی بھی تلخ اور کٹھن ہو، وہ بہرکیف جان لیوا اور تکلیف دہ موت سے بدرجہا بہتر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی دن اور رات کی مانند ہے جس میں جتنی اہمیت روشنی کی ہے اتنی ہی افادیت اندھیرے کی ہے۔ دنیا میں کتنے ہی ایسے پرامید اور روشن خیال (Optimistic) لوگ موجود ہیں جو مشکل حالات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔ دراصل زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ یہ روشنی اور اندھیرے جیسی ہے یعنی زندگی کے دو رخ ہیں اس کا ایک رخ روشنی ہے اور دوسرا رخ اندھیرا ہے جس میں زندگی کے روشن حصے کو زندگی اور اندھیرے حصے کو موت کہا جاتا ہے۔ اس بنیاد پر انسانی معاشرے کے حوصلہ مند، بہادر اور جری افراد درد اور تکلیف سے بھی اتنا ہی بھرپور لطف اٹھاتے ہیں جتنا وہ وہ آرام اور آسائش کے دوران محسوس کرتے ہیں۔ اسی لئے وہ زندگی سے گزر بھی جائیں تو بعض لوگ دنیا میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے وہ زندگی اور موت کو برابر اہمیت دیتے ہیں۔ غم و آلام کے بغیر آسائشات اور خوشیوں کو محسوس کرنا تقریباً محال ہے۔ ایسے لوگ مقاصد کے لئے جیتے ہیں اور مقاصد کے حصول کے لئے مرتے ہیں۔
دنیا کے چند ترقی یافتہ ممالک میں کچھ صورتوں میں خودکشی کرنے کی قانونا اجازت ہے۔ لیکن یہ ایسا قانون ہے جو زندگی کے تاریک پہلوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ جو لوگ غمگین اور ناامید ہوتے ہیں وہ قنوطیت پسند (Sadist) کہلاتے ہیں۔ ناامیدی یا مایوسی کو اسی لئے “گناہ” قرار دیا گیا ہے کہ یہ زندگی کے بارے ناشکران نعمت ہے۔ انسانی زندگی میں غمزدگی کا ایسا انداز اور رویہ ’’ظلم پسندی‘‘ کے ضمرے میں آتا ہے۔ اس فلسفہ زندگی کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیا کے جرائم پیشہ افراد برائی کرنے، دوسروں کا حق کھانے، جھوٹ بولنے اور یہاں تک کہ ’’منافقت‘‘ جیسے بدترین اعمال کو جاری رکھنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اس کے برعکس دنیا بھر میں تعلیم یافتہ اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا حامل ایک کثیر طبقہ ایسا موجود ہے جو غم اور خوشی کو برابر اہمیت دیتا ہے۔ اس طبقے میں شامل افراد مشکلات میں گھبراتے ہیں اور نہ ہی جدوجہد کرنا ترک کرتے ہیں۔ ایسے مثبت اور تعمیری کردار رکھنے والے لوگ کامیابیاں ملنے پر تفاخر محسوس نہیں کرتے ہیں بلکہ اس سے وہ احساس تشکر سے سرشار ہو جاتے ہیں جس سے وہ مزید مضبوط اور طاقتور بن جاتے ہیں۔
زندگی کے اس تعمیری نقطہ نظر کے مطابق جیسے روشنی کی اہمیت کا احساس اندھیرے کے بغیر ناممکن ہے اسی طرح غم برداشت کیے بغیر خوشی کو محسوس کرنا محال ہے۔ اصل بات یہ یے کہ ہمارے ناخوشگوار اور تکلیف دہ لمحات ہمارے اندر خوشی کے جذبات کو بیدار کرنے اور ابھارنے کے لئے آتے ہیں تاکہ ہم زندگی کے تاریک اور روشن دونوں پہلوں سے زندگی کا بھرپور لطف اٹھا سکیں۔ انگریزی زبان میں اسے Live life to its full extent کہتے ہیں یعنی زندگی جیسی یے اور جس حالت میں بھی یے اس سے مکمل استفادہ کر کے خوش و خرم زندگی گزاری جائے۔
دنیا میں بے شمار ایسے عظیم افراد گزرے ہیں اور اب بھی ہیں جنہوں نے جسمانی معذوری کے باوجود نہ صرف کامیاب اور بھرپور زندگی گزاری بلکہ دولت و ذرائع بھی جمع کیے اور پوری دنیا میں اپنی بلند استقامت اور جدوجہد کی وجہ سے نام بھی کمایا۔ ہمارے نظام شمسی کا سورج روزانہ نئی روشنی اور مواقع لے کر ابھرتا ہے۔ کچھ لوگ تکلیف دہ حالات و واقعات سے گزرتے ہیں تو زندگی سے تنگ آ کر ان کے منہ سے نکل جاتا ہے کہ، “اس زندگی سے تو موت بہتر ہے۔ لیکن یہ زندگی کے بارے میں ایک قنوطی اور پژمردہ نقطہ نظر ہے حالانکہ زندگی سے تنگ لوگ بھی اندر سے بہتر زندگی جینا چاہتے ہیں۔دنیا میں ایسا کونسا انسان ہے جو کامیاب، بہتر اور خوبصورت زندگی گزارنے کا متمنی نہیں ہے؟ زندگی کا تو مطلب ہی ’’دیکھئیے جا کر ٹھہرتی ہے نظر کہاں‘‘ کے مصداق حسن اور آسائش کی بہتر سے بہتر تلاش ہے۔ زندگی جیسی اور جیسے بھی حالات میں ہو اسے بھرپور طریقے سے جینا اور لطف اندوز ہونا آ جائے تو یہ ایسی عالیشان نعمت ہے کہ جسے لفظوں میں بیان کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ ہم عام انسانوں کا واسطہ عموما زندگی کے عام معمولات سے رہتا ہے اور ہم روزمرہ کی مصروفیات میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ ہم زندگی سے لطف تو اٹھاتے ہیں مگر اس طرف ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا کہ زندگی کے ہر لمحہ میں ہم کیسی متنوع اور خوبصورت کیفیات سے گزرتے ہیں چہ جائیکہ ابھی تک انسان یہ تک معلوم نہیں کر سکا ہے کہ خود زندگی کیا چیز ہے یا اس کے قائم ہونے سے انسان یا دیگر جانداروں میں جو شعور پیدا ہوتا ہے وہ کیا چیز ہے؟
زندگی ایسی حسین اور یادگار ہے کہ اس کی ایک ایک کیفیت میں جاں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے۔ اس بات کو وہی محسوس کر سکتا ہے جس کا علم، ادراک اور شعور بدرجہا بیدار ہو جاتا ہے۔ زندگی کا یہ معیار ہر انسان کے تفکر اور آگہی کے لیول پر منحصر ہے۔ ایک یونانی فلسفی اور دانشور کا قول ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی بڑے کام کو انجام دینے کے لئے تھوڑے بہت پاگل پن کا ہونا لازمی ہے۔ اس مقولے کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ کوئی بڑا کام یا کارنامہ پاگل پن کے بغیر کیا ہی نہیں جا سکتا ہے۔
یہ 1929 ء کی بات ہے جب برلن کے ایک ہسپتال میں ایک نوجوان جرمن ڈاکٹر نے ایک ایسا تجربہ کیا جس نے طب کی دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ اس کا نام تھا: ڈاکٹر ورنر فورسمین (Werner Forssmann) تھا۔ تب تک میڈیکل ڈاکٹروں کا ماننا تھا کہ دل تک کوئی نلکی (کیتھیٹر) پہنچانا جان لیوا ہو سکتا ہے، لیکن فورسمین کے دل میں ایک اور ہی جستجو دھڑک رہی تھی۔ اس کو محاورتا یقین تھا کہ جان بچانے کے لئے پہلے خود جان دینا پڑتی ہے۔ہسپتال کی انتظامیہ نے اسے اس تجربے کی اجازت نہ دی، مگر وہ رکا نہیں۔ اس نے اپنی نرس کو قائل کیا کہ وہ اس پر یہ تجربہ کرے۔ جب وہ نرس نلکی لے کر پلٹی، تو فورسمین نے کہا، ’’نہیں، میں خود پر یہ تجربہ کروں گا۔‘‘ اور پھر اس نے خود اپنی کہنی کی رگ میں ایک لمبی نلکی داخل کی اور اسے دل کی طرف بڑھایا۔ وہ ہسپتال کے ایکسرے روم تک چلا گیا، جہاں اس نے خود اپنے سینے کا ایکسرے کروایا۔
تصویر میں صاف نظر آیا کہ نلکی سیدھی اس کے دل کے قریب پہنچ چکی تھی۔تصور کیجیے کہ ایک نوجوان ڈاکٹر، اپنے جسم پر تجربہ کر رہا ہے، صرف اس لئے کہ آنے والے وقتوں میں دل کی بیماریاں بغیر چاک کئے دیکھی اور سمجھی جا سکیں۔ اسے پاگل کہا گیا۔ ہسپتال سے نکال دیا گیا۔ برسوں تک کسی نے اس کی بات نہ مانی۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ وہ پاگل نہیں بلکہ پیش رو تھا۔ کئی سال بعد، اس کے تجربے کو بنیاد بنا کر کارڈیک کیتھیٹرائزیشن عام ہو گئی، وہی عمل جس سے آج لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں۔اور پھر اسے وہ اعزاز ملا جس کا ہر سائنسدان خواب دیکھتا ہے یعنی اسے 1956 ء میں ’’نوبیل انعام‘‘ برائے طب سے نواز گیا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کرتے ہیں دنیا میں زندگی سے زندگی کے زندگی کا ہیں اور میں ایک سکتا ہے کی وجہ کے لئے

پڑھیں:

امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقیقت یا فسانہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی صدر ٹرمپ اور زی شی پنگ کے درمیان ہونے مذاکرات کے فوری بعد ہی دنیا میں کے سامنے بھارت اور امریکا کے دفاعی معاہدے کا معاہدے کا ہنگا مہ شروع ہو گیا اور بھارتی میڈیا نے دنیا کو یہ بتانے کی کو شش شروع کر دی ہے کہ پاکستان سعودی عرب جیسا امریکا اور بھارت کے درمیان معاہدہ ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے ۔بھارت اور امریکا نے درمیان یہ دفاعی معاہدہ چند عسکری امور پر اور یہ معاہد
2025ءکے معاہدے کا تسلسل ہے ،2025ءکو نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دور جب بھارت نے پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کر نے کی کوشش شروع کر دی تو امریکا نے نے بھارت کو ایشیا کا چوھدری بنانے فیصلہ کر لیا تھا اسی وقت پاکستان نے بھارت کو بتا دیا تھا کہ ایسا نہیں کر نے کی پاکستان اجسازت نہیں دے گا ۔اس معاہدے کی تجدید 2015ءاور اب 2025ءمیں کیا گیا ہے ۔اس کی تفصیہ یہ ہے کہ اس معاہدے کے تحت امریکا بھارت کو اسلحہ فروخت کر گا ،خفیہ عسکری معلامات امریکا بھارت کو فراہم کر گا اور دونوں ممالک کی افواج مشترکہ فوجی مشقیں ساو ¿تھ چائینہ سی میں کر یں گی اور چین کے خلاف جنگ کی تیاری کی جائے گی لیکن اب بھارت دنیا کو یہ ثابت کر ے کی کو شش کر رہا ہے کہ امریکا اور بھارت کا معاہدہ پاکستان کے خلاف بھی لیکن حقیقت اس سے مختلاف ہے
پاکستان نے امریکا،بھارت دفاعی معاہدے کا جائزہ لے رہے ہیں

مسلح افواج کی بھارتی مشقوں پر نظر ، افغانستان نے دہشتگردوں کی موجودگی تسلیم کی:دفترخارجہ امریکا اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدہ ، راج ناتھ سنگھ اور پیٹ ہیگسیتھ کے دستخط کیے
اسلام آباد،کوالالمپور(اے ایف پی ،رائٹرز،مانیٹرنگ ڈیسک)امریکا اور بھارت کے درمیان 10سالہ دفاعی معاہدہ طے پا گیا ،امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے گزشتہ روز تصدیق کردی کہ امریکا نے بھارت کے ساتھ 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط کر دئیے ہیں ،پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان کا کہناہے کہ پاکستان نے امریکا اور بھارت کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے کا نوٹس لیا ہے اورخطے پر اس کے ہونیوالے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے کہا کہ مسلح افواج بھارتی فوجی مشقوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ ان کاکہنا کہ یہ سوال کہ پاکستان نے کتنے بھارتی جنگی جہاز گرائے ؟ ،یہ بھارت سے پوچھنا چاہئے ، حقیقت بھارت کے لئے شاید بہت تلخ ہو۔ پاک افغان تعلقات میں پیشرفت بھارت کو خوش نہیں کرسکتی لیکن بھارت کی خوشنودی یا ناراضی پاکستان کے لئے معنی نہیں رکھتی۔ افغان طالبان حکام نے کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کی افغانستان میں موجودگی کو تسلیم کیا اور ان تنظیموں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے مختلف جواز پیش کئے ،پاکستان کو امید ہے کہ 6 نومبر کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے اگلے دورکا نتیجہ مثبت نکلے گا، پاکستان مصالحتی عمل میں اپنا کردار جاری رکھے گا اور امن کے قیام کیلئے تمام سفارتی راستے کھلے رکھے گا۔ طاہر اندرابی نے واضح کیا کہ پاکستان اپنی خودمختاری اور عوام کے تحفظ کیلئے ہر ضروری اقدام اٹھائے گا، انہوں نے قطر اور ترکیہ کے تعمیری کردارکو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو 6 نومبر کے مذاکرات سے مثبت اور پائیدار نتائج کی امید ہے۔

سرحد کی بندش کا فیصلہ سکیورٹی صورتحال کے جائزے پر مبنی ہے ، سرحد فی الحال بند رہے گی اور مزید اطلاع تک سرحد بند رکھنے کا فیصلہ برقرار رہے گا،مزید کشیدگی نہیں چاہتے تاہم مستقبل میں کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ادھر پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک پریس ریلیز میں انڈین میڈیا کے دعوو ¿ں کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ پر ‘اسرائیل کیلئے “ناقابل استعمال”کی شق بدستور برقرار ہے ، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ خبر رساں اداروں رائٹرز اور اے ایف پی کی رپورٹس کے مطابق امریکی وزیردفاع پیٹ ہیگسیتھ نے ایکس پوسٹ میں بتایا کہ بھارت کیساتھ دفاعی فریم ورک معاہدہ خطے میں استحکام اور دفاعی توازن کیلئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے ، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون، معلومات کے تبادلے اور تکنیکی اشتراک میں اضافہ ہوگا،ہماری دفاعی شراکت داری پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق بھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ اور پیٹ ہیگستھ کی ملاقات کوالالمپور میں ہونے والے آسیان ڈیفنس منسٹرز میٹنگ پلس کے موقع پر ہوئی جس کا باقاعدہ ا?غاز آج ہوگا۔معاہدے پر دستخط کے بعد پیٹ ہیگسیتھ نے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کی سب سے اہم امریکی بھارتی شراکت داریوں میں سے ایک ہے ، یہ 10 سالہ دفاعی فریم ورک ایک وسیع اور اہم معاہدہ ہے ، جو دونوں ممالک کی افواج کیلئے مستقبل میں مزید گہرے اور بامعنی تعاون کی راہ ہموار کرے گا۔
امریکا اور بھارت نے 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ امریکی وزیرِ دفاع پِیٹ ہیگسیتھ نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون، ٹیکنالوجی کے تبادلے اور معلومات کے اشتراک کو مزید مضبوط بنائے گا۔

ہیگسیتھاس بعد چین چ؛ی گئیں اور وہاں انھوں تائیوان کا ذکر دیا جس کے ایسا محسوس ہوا کہ
ہیگسیتھ کے ایشیا میں آتے ہیں امریکا چین کے درمیان ایک تناو ¿ پیدا ہو گیا ۔ہیگسیتھ کے مطابق، یہ فریم ورک علاقائی استحکام اور مشترکہ سلامتی کے لیے سنگِ میل ثابت ہوگا۔ انہوں نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر کہا: “ہمارے دفاعی تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔”
بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کے ساتھ یہ ملاقات آسیان دفاعی وزرائے اجلاس پلس کے موقع پر کوالالمپور میں ہوئی۔ معاہدے پر دستخط کے بعد امریکی وزیرِ دفاع نے بھارت کے ساتھ تعلقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “یہ تعلقات دنیا کے سب سے اہم شراکت داریوں میں سے ایک ہیں۔”ہیگسیتھ نے اس معاہدے کو “مہتواکانکشی اور تاریخی” قرار دیا اور کہا کہ یہ دونوں افواج کے درمیان مزید گہرے اور بامعنی تعاون کی راہ ہموار کرے گا۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے حال ہی میں بھارتی وزیرِ خارجہ سبرامنیم جے شنکر سے ملاقات کی تھی۔ دونوں رہنماو ¿ں نے دوطرفہ تعلقات اور خطے کی سلامتی پر گفتگو کی۔
یاد رہے کہ حالیہ مہینوں میں امریکا اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی دیکھی گئی تھی، جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر 50 فیصد تجارتی محصولات عائد کیے تھے اور نئی دہلی پر روس سے تیل خریدنے کے الزامات لگائے تھے۔
اسی سلسلے میں بھارت کو امریکا 2025ءمیں خطے میں چین کی فوجی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے ڈیجیٹل خفیہ معلومات کا نظام بھی دیا تھا لیکن اس کے بعد چین نے خاموشی سے گلوان ویلی اور لداخ کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر تھا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے 10مئی 2025ءکو جب پاکستان نے بھارت پر جوابی حمہ کی اتھا اس وقت بھی امریکا اور بھارت کا دفاعی معاہدہ ای طرح قائم تھا لیکن پاکستان نے جم کر بھارت کی خوب پٹائی کی اور امریکا اس وقت سے آج تک یہی کہہ رہا ہے اگر صدر ٹرمپ جنگ نہ رکوائی ہوتی تو بھارت کو نا قابل ِحد تک تباہ کن صورتحال کا سامنا کر نا پڑتا۔اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقئقت یا فسانہ ہے ۔

قاضی جاوید گلزار

متعلقہ مضامین

  • نئی ٹی وی سیریز ’رابن ہڈ‘ : تاریخی حقیقت اور ذاتی پہلو کے امتزاج کے ساتھ پیش
  • ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کیلیے پاکستانی امیدوں کا چراغ پھر روشن ہونے لگا
  • روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر
  • سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
  • امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقیقت یا فسانہ
  • نومبر، انقلاب کا مہینہ
  • تلاش
  • ڈپریشن یا کچھ اور
  • ہر چیزآن لائن، رحمت یا زحمت؟
  • سوشل میڈیا پر وائرل سعودی اسکائی اسٹیڈیم کا راز کھل گیا