اسلام آباد:

پی ٹی آئی نے دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کے خلاف قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں قرارداد جمع کرواتے ہوئے پی پی پی، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے سے حمایت لینے کا بھی اعلان کر دیا۔

اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی طرف سے زرتاج گل، احمد چھٹہ اور علی محمد خان نے قرارداد جمع کروائی۔

زرتاج گل کا کہنا تھا کہ سندھ میں نئی نہریں نکالنے پر بے چینی ہے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلائے بغیر ایسے حساس فیصلے کیے جا رہے ہیں۔

علی محمد خان نے مطالبہ کیا کہ پی پی پی نہروں کے خلاف ہے تو پی ٹی آئی کی قرارداد کی حمایت کرے۔

میڈیا سے گفتگو میں زرتاج گل کا کہنا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کل ہی دریائے سندھ کے خلاف نہریں نکالنے کی قرارداد ایجنڈے پر بحث کے لیے مقرر کریں اور ایوان میں دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کی قرارداد پر کھلی بحث کرائی جائے، مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا جائے۔

صحافی نے سوال کیا کہ ایک طرف آپ آصف علی زرداری پر سندھ کا پانی بیچنے کا الزام لگاتے ہیں تو دوسری طرف اپنی قرارداد پر اسی کی پارٹی سے حمایت مانگ رہے ہیں۔

علی محمد خان نے جوابی سوال کیا کہ معلوم کریں کہ آصف علی زرداری بیمار کیوں ہوئے تھے۔ ایوان صدر میں انہی نہروں پر ہونے والے اجلاس کی صدارت اگر آصف علی زرداری نے کی تھی تو پھر سندھ کا پانی کس نے بیچا؟ اگر آصف علی زرداری ہی صدر پاکستان ہیں اور انہوں نے ہی نہروں کی منظوری والے اجلاس کی صدارت کی تھی تو پھر وہی ذمہ دار ہیں۔

علی محمد خان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو فارم 45 کا رزلٹ دیا جاتا تو سندھ میں بھی آج پی ٹی آئی کی حکومت ہوتی، پی ٹی آئی نہروں کے مسئلے پر سندھ کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: آصف علی زرداری نہریں نکالنے علی محمد خان دریائے سندھ پی ٹی آئی

پڑھیں:

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس، دوہرے قتل کیخلاف قرارداد پیش

قرارداد میں کوئٹہ کے نواحی علاقے سینجدی ڈیگاری میں غیرت کے نام پر مرد اور خاتون کے قتل کی مذمت کی گئی۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر اعلان کیا کہ تحقیقات کی نگرانی کیلئے حکومت اور اپوزیشن اراکین پر مبنی کمیٹی بنائی جائیگی۔ اسلام ٹائمز۔ خواتین اراکین اسمبلی نے بلوچستان اسمبلی میں کوئٹہ کے نواحی علاقے میں خاتون اور مرد کے قتل کے خلاف قرارداد پیش کی۔ وزیراعلیٰ نے اعلان کیا کہ اپوزیشن اور حکومتی اراکین نے مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو تحقیقات کی نگرانی کرے گی۔ تفصیلات کے مطابق ویمن پارلیمانی کاکس کی ڈپٹی اسپیکر غزالہ گولہ اور دیگر خواتین اراکین کی جانب سے بلوچستان اسمبلی میں غیرت کے نام پر دہرے قتل کے خلاف مذمتی قرارداد پیش کی گئی۔ جس میں کوئٹہ کے نواحی علاقے سینجدی ڈیگاری میں غیرت کے نام پر مرد اور خاتون کے قتل کی مذمت کی گئی۔

قرارداد میں کہا گیا کہ غیرت کے نام پر قتل کسی بھی صوبائی، قومی، سماجی یا مذہبی روایت سے تعلق نہیں رکھتا۔ یہ غیر قانونی انسانی عمل ہے جو قانونی، سماجی اور اخلاقی اصولوں کے منافی ہے۔ کسی فرد کو منصف بننے کا حق نہیں، انصاف دینا صرف ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ اس سفاکانہ عمل میں ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ صوبے بھر میں ڈیگاری واقعے کی مذمت کی جا رہی ہے۔

صوبائی وزیر تعلیم راحیلہ درانی نے کہا کہ یہ واقعہ پورے معاشرے کو جھنجوڑ گیا ہے۔ ہمیں حقائق نہیں معلوم، کمیٹی کی کوئی رپورٹ نہیں ملی ہے اور مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ واقعات ختم نہیں ہوئے بلکہ ان کی شدت بڑھ گئی ہے۔ عید سے پہلے کا واقعہ ہے اور ویڈیو اب وائرل ہوئی ہے۔ عدالتوں کے بغیر اس مسئلے سے کیسے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے حکومت اور اپوزیشن پر مشتمل کمیٹی بنانے کا اعلان کیا جو ڈیگاری واقعے کی تحقیقات کی نگرانی کرے گی۔

اس سے قبل اجلاس کے دوران اسد بلوچ نے کہا کہ 9 جولائی کو سی ٹی ڈی نے ان کے گھر چھاپہ مارا اور چادر و دیوار کو پامال کیا۔ ملک اسلامی جمہوریہ ہے اور اس ایوان میں آنے والے میڈیٹ لے کر آتے ہیں جو قانون سازی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سی ٹی ڈی کے ساتھ جانے کو تیار تھے اور چھاپے کی وضاحت طلب کی۔ انہوں نے آنکھوں پر پٹی باندھنے کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے پارلیمانی سیاست کا کوئی جرم نہیں کیا۔ انہیں پہاڑوں پر جانے پر مجبور نہ کیا جائے اسد بلوچ واک آوٹ کرکے ایوان سے چلے گئے۔

صوبائی وزیر علی مدد جتک نے کہا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قومی شاہراہوں پر مسلح افراد لوگوں کو بسوں سے اتار کر قتل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کونسی قبائلیت ہے اور ان دہشت گردوں کا سب کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ بلوچ اور پشتون روایات میں مہمانوں کو شہید نہیں کیا جاتا۔ مستونگ سے بیلہ تک تمام کاروبار دہشت گردی کی وجہ سے بند ہیں اور لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔

مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ اسد بلوچ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی مذمت کرتے ہیں۔ طالب علم مصور کاکڑ کی لاش ملی ہے۔ حکومت تحفظ دینے کے بجائے کہتی ہے کہ شام 5 بجے سے صبح تک لوگ سفر نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ دن میں حکومت صرف 4 گھنٹے فعال ہے اور باقی وقت دراندازی ہوتی ہے۔ حکومت کا کام ہے کہ عوام کو قومی شاہراہوں پر تحفظ فراہم کرے۔ بارڈر بند ہونے سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ بلوچستان میں بڑھتے ہوئے واقعات کے باوجود کوئی سکیورٹی آفیسر معطل نہیں ہوا۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی کی تمام شاہراہوں پر پارکنگ فیس لینے پر پابندی عائد، نوٹیفکیشن جاری
  • کوہ سلیمان، پہاڑی علاقوں میں بارش سے ندی نالوں میں طغیانی آگئی
  • عمران خان کی فیملی کیخلاف بات کرنے والوں کو پارٹی سے نکال دیں گے
  • بوگیوں کی قلت؛ ایڈوانس ٹکٹیں لینے والے مسافروں کا احتجاج،رقم ری فنڈ کرنے کا اعلان
  • سندھ طاس معاہدے پر عالمی بینک کی حمایت پر وزیرِاعظم کا اظہارِ تشکر
  • سینیٹ انتخاب میں ن لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی کا کردار شرمناک ہے: نعیم الرحمٰن
  • پیپلز پارٹی، ن لیگ، جے یو آئی اور اے این پی کا پی ٹی آئی کی اے پی سی میں شرکت سے انکار
  • اسرائیل کی حمایت میں امریکا کا ایک بار پھر یونیسکو چھوڑنے کا اعلان
  • دریائے چناب اور سندھ میں نچلے درجے کا سیلاب
  • بلوچستان اسمبلی کا اجلاس، دوہرے قتل کیخلاف قرارداد پیش