سینیئر صحافی سرور منیر راوٴ کی تصنیف ’’مدینہ منورہ تاریخ کے آئینے میں‘‘ شائع
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
اسلام آباد:
نیشنل بک فاوٴنڈیشن کے زیر اہتمام ممتاز دانشور، ادیب اور سینیئر صحافی سرور منیر راوٴ کی تصنیف ’’مدینہ منورہ تاریخ کے آئینے میں‘‘ شائع ہوگئی۔
مینجنگ ڈائریکٹر نیشنل بک فاؤنڈیشن ڈاکٹر کامران جہانگیر کا کہنا ہے کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن سے شائع ہونے والی کتاب ’’مدینہ منورہ تاریخ کے آئینے میں‘‘ اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے۔
تفصیلات کے مطابق نیشنل بک فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ممتاز دانشور ادیب اور سینیئر صحافی سرور منیر راوٴ (تمغہ امتیاز) کی نئی تصنیف ’’مدینہ منورہ تاریخ کے آئینے میں‘‘ شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہے۔ یہ کتاب مستند تاریخی حوالوں، نایاب معلومات اور رنگین نقشہ جات سے مزین 496 صفحات پر مشتمل ہے۔
اس کتاب میں مدینہ منورہ کی تاریخ کو تحقیقی، تجزیاتی اور دینی تناظر میں انتہائی سادہ اسلوب سے تحریر کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت سے پہلے سرور منیر راوٴ کی دو معروف کتب ’’میں نے بغداد جلتے دیکھا‘‘ اور ’’عراق وار‘‘ بھی نیشنل بک فاوٴنڈیشن سے شائع ہو چکی ہیں، جو اپنے وقت کی نہایت مقبول اور معلوماتی کتب ثابت ہوئیں۔
نیشنل بک فاؤنڈیشن کے مینجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر کامران جہانگیر نے اس کتاب کی اشاعت کے حوالے سے بتایا کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن سے شائع ہونے والی کتاب ’’مدینہ منورہ تاریخ کے آئینے میں‘‘ اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے۔
نیشنل بک فاؤنڈیشن جہاں علمی ادبی، سائنسی، مذہبی، تخلیقی، تہذیبی، تحقیقی، مفید اور معلوماتی کتب شائع کر رہا ہے وہیں نیشنل بک فاؤنڈیشن سے وابستہ ان شخصیات کی خدمات، ان کی تخلیقات اور تصانیف عوام کے سامنے لانے میں مصروف عمل ہے جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں کام کیا ہے۔
فاؤنڈیشن کا مشن صرف کتابوں کی اشاعت نہیں بلکہ مطالعے کے کلچر کو فروغ دینا ہے اور ہر خاص وعام تک کتاب کی رسائی کو ممکن بناتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مدینہ منورہ تاریخ کے آئینے میں نیشنل بک فاؤنڈیشن سرور منیر راوٴ
پڑھیں:
ٹرمپ انتظامیہ کا امیگریشن چھاپوں کے بعد لاس اینجلس میں نیشنل گارڈز تعینات کرنے کا اعلان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امیگریشن چھاپوں کے بعد پیدا ہونے والے عوامی احتجاج کے پیشِ نظر لاس اینجلس میں 2,000 نیشنل گارڈ اہلکار تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب فیڈرل ایجنٹس اور مظاہرین کے درمیان دوسرے روز بھی جنوب مشرقی لاس اینجلس کے علاقے پیرا ماونٹ میں کشیدگی برقرار رہی۔
ہفتے کی رات مظاہرین نے میکسیکو کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور بعض نے چہروں پر ماسک پہن رکھے تھے، اس دوران سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر ٹرمپ کے بارڈر چیف ٹام ہومین نے تصدیق کی کہ نیشنل گارڈز اتوار کو لاس اینجلس میں تعینات کیے جائیں گے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں کہا گیا کہ صدر نے ایک یادداشت پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت “قانون شکنی کے خاتمے” کے لیے 2,000 نیشنل گارڈ اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔
‘ٹرمپ انتظامیہ مجرموں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی رکھتی ہے۔ ان افراد کو فوری طور پر گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔’
تاہم، کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے اس اقدام کو ’سوچا سمجھا اشتعال انگیز‘ قرار دیا۔
امیگریشن پالیسی پر شدید ردعملمظاہروں کا آغاز ان امیگریشن چھاپوں کے بعد ہوا، جن میں امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ یعنی آئی سی ای کے ایجنٹس نے کم از کم 44 افراد کو امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا۔ مظاہرے پیرا ماونٹ کے ایک ہوم ڈیپو کے نزدیک بھی ہوئے، جہاں اہلکاروں کے مبینہ طور پر بیس قائم کرنے کی اطلاعات تھیں۔
محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے دعویٰ کیا کہ تقریباً 1,000 مظاہرین نے ایک وفاقی عمارت کو گھیر لیا، اہلکاروں پر حملہ کیا، گاڑیوں کے ٹائروں کو کاٹا اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، اگرچہ یہ دعویٰ آزاد ذرائع سے تصدیق شدہ نہیں، لیکن حالات کشیدہ ضرور تھے۔
امیگرنٹس رائٹس گروپ کرلا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اینجلیکا سالاس کے مطابق، وکلا کو حراست میں لیے گئے افراد تک رسائی نہیں دی گئی، جسے انہوں نے ’انتہائی تشویشناک‘ قرار دیا۔
صدر ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت صدارت میں ریکارڈ تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے اور امریکا-میکسیکو سرحد کو مکمل بند کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ہدایت پرآئی سی ای کو روزانہ کم از کم 3,000 افراد کو گرفتار کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔
سیاسی ردعمل اور قانونی سوالاتٹرمپ کے مشیر اور سخت گیر امیگریشن پالیسی کے حامی اسٹیفن ملر نے ان مظاہروں کو ’ریاستی خودمختاری پر بغاوت‘ قرار دیا، جبکہ ہفتے کو مظاہروں کو ’پر تشدد بغاوت‘ سے تعبیر کیا۔
کولمبیا کے صدر پیٹرو کی طرح، ٹرمپ کے حامیوں نے اس پورے معاملے کو قانون کی بالادستی سے جوڑا، جبکہ مخالفین نے اسے انسانی حقوق اور بنیادی شہری آزادیوں کے لیے خطرہ قرار دیا۔
ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ بغیر نشانات والی فوجی گاڑیاں اور وردی میں ملبوس اہلکار شہر میں گشت کر رہے تھے۔ چھاپے زیادہ تر ہوم ڈیپو، گارمنٹ فیکٹریوں، اور گوداموں کے علاقوں میں کیے گئے، جہاں اسٹریٹ وینڈرز اور یومیہ مزدوروں کو گرفتار کیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسٹیفن ملر امریکی صدر امیگریشن امیگریشن پالیسی انسانی حقوق ٹرمپ انتظامیہ ڈونلڈ ٹرمپ شہری آزادیوں لاس اینجیلس