جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ فلسطینیوں نے خود یہ جگہ اسرائیلیوں کو دی وہ اپنا ریکارڈ درست کرلیں، 1917 میں جب اسرائیلی ریاست کی تجویز اور قرارداد پیش کی جا رہی تھی اس وقت پورے فلسطین کی سرزمین پر صرف 2 فیصد یہودی آباد تھے، 98 فیصد علاقے پر مسلمان آباد تھے اور 1948 میں اسرائیل کی ریاست کا باقاعدہ اعلان کیا تو 1947 کے اعداودوشمار دیکھیں تو وہاں بھی 94 فیصد علاقہ فلسطینیوں کا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ صہیونی جارحیت کیخلاف فلسطینیوں کا ساتھ دینا مسلمانوں پر فرض ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ضروری ہے کہ مسلمان اہل غزہ اور فلسطین کیساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کریں اور دنیا کو یہ پیغام دیں کہ پاکستان کا مسلمان ہویا عالم اسلام کا کوئی فرد، آج وہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ جس طرح مفتی تقی عثمانی صاحب اور ان سے قبل مفتی منیب الرحمٰن نے کہا اور اجلاس کا جو اعلامیہ پیش کیا، جس میں صراحت کیساتھ فلسطینیوں کے شانہ بشانہ میدان جنگ میں شامل ہونے کا فتویٰ جاری کیا، یہ صرف پاکستان کے مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ عالم اسلام کیلئے ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل ایک ریاستی دہشتگرد ہے، اسرائیل آج کا قاتل نہیں، یہ یہود انبیاء کے قاتل ہیں، ان کی تاریخ قتل و غارت گری ہے، اس کے علاوہ ان کا کوئی مشغلہ نہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے چہرے سے نقاب اُٹھایا، جب بھی انہوں نے جنگ کی آگ بھڑکائی اللہ نے بجھائی۔ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ فلسطینیوں نے خود یہ جگہ اسرائیلیوں کو دی وہ اپنا ریکارڈ درست کرلیں، 1917 میں جب اسرائیلی ریاست کی تجویز اور قرارداد پیش کی جا رہی تھی اس وقت پورے فلسطین کی سرزمین پر صرف 2 فیصد یہودی آباد تھے، 98 فیصد علاقے پر مسلمان آباد تھے اور 1948 میں اسرائیل کی ریاست کا باقاعدہ اعلان کیا تو 1947 کے اعداودوشمار دیکھیں تو وہاں بھی 94 فیصد علاقہ فلسطینیوں کا تھا۔

اس سے قبل مفتی تقی عثمانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ فلسطین میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا، غزہ پر معاہدے کے باوجود بمباری ہو رہی ہے، امت مسلمہ صرف قراردادوں اور کانفرنسز پر لگی ہے۔ اسرائیل کو عالمی قوانین کی قدر نہیں ہے، معاہدے کے باوجود بمباری ہو رہی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحم ن فلسطینیوں کا آباد تھے

پڑھیں:

مشرق وسطی میں اسرائیل کی جارحیت کو فوری طور پر روکا جانا چاہیے ،شہباز شریف

 

وزیراعظم شہباز شریف کی قطر کے امیر سے ملاقات ہوئی،ملاقات میں ڈپٹی وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور فیلد مارشل سید عاصم منیر بھی موجود تھے۔ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیراعظم اور قطر کے امیر کے درمیان دو طرفہ ملاقات ہوئی۔وزیراعظم نے 9 ستمبر کو دوحہ کے رہائشی علاقے پر اسرائیلی حملے کی پاکستان کی شدید مذمت کا اعادہ کیا،وزیراعظم نے 9 ستمبر کو اسرائیل کے حملے کو قطر کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی کھلی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔وزیراعظم نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور قطر کے برادرانہ تعلقات تاریخی، دیرینہ اور پائیدار ہیں اور یہ آنے والے دنوں میں مزید مضبوط ہوں گے۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ مشرق وسطی میں اسرائیل کی جارحیت کو فوری طور پر روکا جانا چاہیے اسرائیلی اشتعال انگیزیوں کے پیش نظر امت کے اندر اتحاد بہت ضروری ہے،وزیراعظم نے دوحہ میں ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس بلانے کے فیصلے کو سراہا۔

متعلقہ مضامین

  • بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کیخلاف توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت منسوخ
  • چیئرمین پی ٹی اے کی عہدے سے ہٹانے کیخلاف اپیل کل سماعت کیلئے مقرر
  • علی امین گنڈاپور کیخلاف شراب برآمدگی کیس کی سماعت بغیر کارروائی ملتوی
  • مشرق وسطی میں اسرائیل کی جارحیت کو فوری طور پر روکا جانا چاہیے ،شہباز شریف
  • حفیظ الرحمٰن کی چیئرمین پی ٹی اے کے عہدے سے ہٹانے پر انٹرا کورٹ اپیل دائر
  • امریکہ ہر جگہ مسلمانوں کے قتل عام کی سرپرستی کر رہا ہے، حافظ نعیم
  • اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطین کے ساتھ ہندوستان
  • خاموشی ‘نہیں اتحاد کٹہرے میں لانا ہوگا : اسرائیل  کیخلاف اقدامات ورنہ تاریخ معاف نہیں کریگی : وزیراعظم 
  • قطر اور فلسطین کے ساتھ بنگلہ دیش کا غیر متزلزل اظہار یکجہتی، اسرائیل کو نکیل ڈالنے کا مطالبہ
  • اسرائیل کوکٹہرے میںلانااور صہیونی جارحیت روکنے کے اقدامات نہ کئے تو تاریخ معاف نہیں کرے گی: وزیر اعظم شہبازشریف