نئے وقف قانون کو نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی سپریم کورٹ میں چیلنج کرینگی
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
نیشنل کانفرنس نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایکٹ مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں ایک خطرناک مداخلت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت بھر میں وقف کے نئے قانون پر سیاسی تنازعہ اور جموں و کشمیر اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کے درمیان، مرکز کے زیر انتظام علاقے کی حکمراں جماعت نیشنل کانفرنس اور اپوزیشن پارٹی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نئے قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے جا رہی ہیں۔ جموں و کشمیر میں حکمراں جماعت نیشنل کانفرنس نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کرے گی اور سپریم کورٹ میں یہ بڑی جنگ لڑے گی۔ نیشنل کانفرنس نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایکٹ مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں ایک خطرناک مداخلت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ آرٹیکل 14، 15، 21، 25، 26، 29 اور 300A کے تحت بنیادی آئینی تحفظ کی خلاف ورزی کرتا ہے اور پورے ملک میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی، مساوات اور املاک کے حقوق پر براہ راست حملے کی نمائندگی کرتا ہے۔
نیشنل کانفرنس کے بیان کے مطابق یہ ایک بڑی جنگ ہے اور ہم یہ جنگ سپریم کورٹ میں لڑیں گے۔ پارٹی نے مزید کہا کہ این سی کے قانون ساز مظفر اقبال خان، ارجن سنگھ، ہلال لون جو کہ وکیل بھی ہیں، سپریم کورٹ میں یہ عرضی دائر کریں گے۔ اپوزیشن پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر اور جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ان کی پارٹی نئے وقف قانون 2025ء کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی اور آنے والے دنوں میں اس کے خلاف ایک رٹ پٹیشن دائر کرے گی۔ محبوبہ مفتی نے یہاں نامہ نگاروں سے کہا کہ ایڈووکیٹ مجید، جو سپریم کورٹ کے وکیل ہیں، وقف ترمیمی قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔
محبوبہ مفتی نے جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کو اسمبلی میں غیر حاضر رہنے پر بھی نشانہ بنایا جہاں قانون ساز نئے وقف قانون پر بحث کا مطالبہ کر رہے تھے۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ این سی قیادت کے علاوہ، ہر مسلم اور سیکولر پارٹیوں نے اس کی مخالفت کی۔ عمر عبداللہ کو قانون کی مخالفت کے لئے اسمبلی میں ہونا چاہیئے تھا، لیکن وہ ٹیولپ گارڈن میں وقف ترمیمی بل پیش کرنے والے کرن رجیجو کے ساتھ تصویریں کھینچ رہے تھے۔ وقف قانون پر اپنے موقف کے لئے نیشنل کانفرنس پر تنقید کرتے ہوئے سابق وزیر حکیم یاسین نے کہا کہ حکمراں جماعت کا سپریم کورٹ جانے کا موقف اسمبلی میں ان کے شرمناک طرز عمل کو چھپانے کی ایک کوشش ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ میں چیلنج محبوبہ مفتی نے نیشنل کانفرنس اسمبلی میں نے کہا کہ
پڑھیں:
ریاست آسام میں بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ آف انڈیا برہم، توہین عدالت کا نوٹس جاری
ریاستی انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع، قانونی کارروائی یا متبادل بندوبست کے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست آسام کے گولپاڑہ ضلع کے ہسیلا بیلا گاؤں میں مبینہ طور پر غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کی گئی بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ریاست کے چیف سکریٹری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا ہے۔ یہ نوٹس اس وقت جاری کیا گیا جب اس کارروائی سے متاثرہ افراد کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع، قانونی کارروائی یا متبادل بندوبست کے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ درخواست گزاروں کے وکیل عدیل احمد نے عدالت کو بتایا کہ 13 جون 2025ء کو انتظامیہ نے ایک عمومی نوٹس جاری کیا تھا، جس میں 15 جون تک علاقہ خالی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی، تاہم نہ تو کسی کو ذاتی طور پر مطلع کیا گیا اور نہ ہی کوئی سنوائی کا موقع دیا گیا۔ 667 خاندانوں کے گھروں اور 5 اسکولوں کو منہدم کر دیا گیا، جس سے بچوں کے بنیادی تعلیمی حقوق بھی متاثر ہوئے۔
وکیل نے مزید کہا کہ یہ کارروائی سپریم کورٹ کے 13 نومبر 2024ء کے اس حکم کی صریح خلاف ورزی ہے، جس میں بلڈوزر کارروائی سے قبل قانونی ضابطوں کی مکمل تعمیل پر زور دیا گیا تھا۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 60 برسوں سے اس علاقے میں آباد ہیں اور ان کے آبا و اجداد دریائے برہم پتر کے کٹاؤ کے سبب اپنی زمینیں کھو چکے تھے۔ لہٰذا وہ سبھی بے دخل شدہ افراد "پرانے باشندے" اور بازآبادکاری کے مستحق ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس ونود چندرن پر مشتمل بنچ نے جمعرات کو اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے آسام کے چیف سکریٹری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا اور آئندہ سماعت میں جواب طلب کیا۔
درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جن افسران نے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی، ان کے خلاف کارروائی کی جائے، متاثرہ خاندانوں کو مناسب معاوضہ اور متبادل رہائش فراہم کی جائے، نیز منہدم شدہ اسکولوں کی فوری تعمیر نو کا حکم دیا جائے۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہے اور آئندہ سماعت میں حکومت آسام کو اس کارروائی کی وضاحت دینی ہوگی کہ آخر کس بنیاد پر بغیر مناسب ضابطے کی تکمیل کے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو بے دخل کیا گیا۔ اس کارروائی کو لے کر انسانی حقوق کے ادارے بھی سوال اٹھا رہے ہیں اور سیاسی سطح پر بھی اس پر تنقید جاری ہے۔