اسرائیلی وزیر اوریت اسٹروک کی بیٹی کا والدین اور بھائی پر جنسی حملے کا الزام
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
شوشانہ نے اس بھائی کا نام نہیں بتایا، جس پر انہوں نے جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا ہے، تاہم اطلاعات کے مطابق ان کے بھائی زویکی اسٹروک پر 2007ء میں ایک فلسطینی لڑکے کو اغوا اور تشدد کا نشانہ بنانے کا مقدمہ درج کیا جاچکا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی وزیر اوریت اسٹروک کی بیٹی نے اپنے والدین اور ایک بھائی پر جنسی حملے کا الزام عائد کیا ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق اسرائیلی بستیوں اور قومی مشنز کی وزیر اوریت اسٹروک کی بیٹی شوشانہ اسٹروک نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے اٹلی میں پولیس کو رپورٹ درج کروا دی ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ وہ اس اذیت سے کچھ سکون حاصل کرسکیں گی۔ انہوں نے کہا کہ "طویل عرصے تک شک، شدید جذباتی کیفیات اور گہرے احساسِ جرم کے بعد میں یہ بات شیئر کر رہی ہوں کہ مجھے اپنے والدین اور ایک بھائی کی جانب سے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔" انہوں نے مزید کہا کہ میں اس وقت اٹلی میں ہوں اور حال ہی میں پولیس کو رپورٹ درج کروا چکی ہوں۔ شوشانہ کا کہنا تھا کہ "مجھے امید ہے کہ میں کوئی ایسی جگہ پا سکوں گی، جہاں مجھے کچھ ذہنی سکون ملے۔"
شوشانہ نے اس بھائی کا نام نہیں بتایا، جس پر انہوں نے جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا ہے، تاہم اطلاعات کے مطابق ان کے بھائی زویکی اسٹروک پر 2007ء میں ایک فلسطینی لڑکے کو اغوا اور تشدد کا نشانہ بنانے کا مقدمہ درج کیا جاچکا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق شوشانہ کی والدہ اوریت اسٹروک مغربی کنارے میں اسرائیلی غیر قانونی بستیوں کی پرجوش حامی ہیں اور وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے اس بیانیے کی پرزور وکالت کرتی رہی ہیں، جس میں فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس پر 7 اکتوبر 2023ء کے حملے کے دوران اسرائیلی شہریوں پر جنسی حملوں کا الزام لگایا گیا تھا، حالانکہ اس کا کوئی ثبوت آج تک سامنے نہیں آسکا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کا الزام کے مطابق
پڑھیں:
اسرائیلی حکومت غزہ کے عوام کو مکمل طور پر ختم کرنے کا منصوبہ بناچکی ہے، جماعت اسلامی ہند
سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ اسرائیلی مصنوعات اور اس نسل کشی میں شریک کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں اور فلسطینی مزاحمت کے خلاف پھیلائی جارہی گمراہ کن معلومات کا مؤثر جواب دیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے غزہ میں جاری نسل کشی اور انسانی بحران پر اپنی شدید مذمت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے بھارتی حکومت سمیت عالمی طاقتوں اور دنیا بھر کے باضمیر شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ غزہ میں ہونے والے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اسرائیل کے مسلسل حملوں کو فوری طور پر روکنے کے لئے عملی اقدامات کریں۔ میڈیا کے لئے جاری اپنے بیان میں سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ غزہ میں 21 لاکھ سے زائد فلسطینی جن میں 11 لاکھ سے زائد بچے شامل ہیں، مسلسل محاصرے اور شدید بمباری کی زد میں ہیں۔ 18 مارچ 2025ء کو جنگ بندی کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے اپنی فوجی جارحیت کو مزید تیز کردیا ہے اور بنیادی ضروریات اور امداد پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے عوام بھوک سے مر رہے ہیں۔ ان کے گھر تباہ ہوچکے ہیں اور ان کی آوازیں خاموش کردی گئی ہیں۔ غزہ کی صورتحال انتہائی نازک ہے اور فوری توجہ کی مستحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت غزہ کے عوام کو مکمل طور پر ختم کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہے، اب یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس المیے کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق غزہ کے 90 فیصد طبی مراکز تباہ یا ناکارہ ہوچکے ہیں۔ پورے غزہ میں صرف چند غذائی مراکز کام کررہے ہیں جبکہ ہزاروں ٹن خوراک اور دوائیں کئی مہینوں سے سرحدی راستوں پر رکی ہوئی ہیں۔ صفائی، پینے کے صاف پانی اور طبی سہولیات کی تباہی کے باعث اسہال، ہیپاٹائٹس اے اور سانس کی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ یونیسیف کے مطابق 6 لاکھ 60 ہزار بچے اسکولوں سے محروم ہیں اور 17 ہزار سے زائد بچے یتیم یا اکیلے رہ گئے ہیں، اگر غزہ کا محاصرہ ختم نہ ہوا تو ستمبر 2025ء تک مکمل قحط پڑنے کا خطرہ ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر نے عالمی برادری سے فیصلہ کن اقدام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ عالمی نظام کے لئے ایک سخت آزمائش کا وقت ہے۔ ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل سے فوجی اور معاشی تعلقات ختم کریں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے تعلق سے امیر اور طاقتور ممالک بالخصوص امریکہ کی دوہری پالیسی کا خاتمہ ہونا چاہیئے، امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو رسمی بیانات سے آگے بڑھ کر امن اور انصاف کے بنیادی اصولوں پر عمل کرنا چاہیئے، جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔
سید سعادت اللہ حسینی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا تاریخی اور اخلاقی فریضہ ادا کرے، بھارت نے ہمیشہ فلسطین کے جائز موقف کی حمایت کی ہے۔ اس نازک وقت میں ہماری آواز پہلے سے زیادہ بلند اور واضح ہونی چاہیئے۔ حکومت کو اسرائیلی مظالم کی کھل کر مذمت کرنی چاہیئے، اس کے ساتھ تمام عسکری اور اسٹریٹجک تعلقات معطل کرنے چاہئیں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے بین الاقوامی اقدامات کی پرزور حمایت کرنی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری آواز سیاسی مصلحتوں کے بجائے آئینی اقدار اور تہذیبی ورثے سے رہنمائی حاصل کرے۔ نسل کشی کے وقت غیر جانبدارانہ سفارتکاری کی پالیسی انسانی قدروں کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے آخر میں ملک کے عوام سے پرامن مزاحمت میں فعال شرکت کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی مصنوعات اور اس نسل کشی میں شریک کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں اور فلسطینی مزاحمت کے خلاف پھیلائی جا رہی گمراہ کن معلومات کا مؤثر جواب دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ہر فورم، سوشل میڈیا، عوامی اجتماعات اور ذاتی روابط کا استعمال کرتے ہوئے غزہ کی حقیقت دنیا کے سامنے رکھنی چاہیئے اور مظلوموں کے ساتھ کھل کر کھڑے ہونا چاہیئے۔