امریکی امدادی پروگرامز میں تعطل سے 5 لاکھ بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگ گئیں
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
ایس ایڈ کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے بعد رونما ہونے والی صورتحال پر کی جانے والی ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی امدادی پروگراموں میں کمی کے منصوبے پر عمل کرتے ہیں تو 2030 تک تقریباً ڈیڑھ ملین بچے ایڈز سے ہلاک ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:یو ایس ایڈ کے غیر ملکی پراجیکٹس کیوں بند ہوئے اور ان کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟
محققین کا خیال ہے کہ اگر امریکی صدر کا ایڈز ریلیف کے لیے ہنگامی منصوبہ معطل ہو جاتا ہے یا صرف محدود، قلیل مدتی فنڈنگ حاصل ہوتی ہےتو بھی10 لاکھ اضافی بچے ایچ آئی وی سے متاثر ہو جائیں گے اور دہائی کے آخر تک تقریباً 5 لاکھ بچے ایڈز سے ہلاک ہو جائیں گے۔
محققین نے کہا کہ اس کے علاوہ بالغوں میں ایڈز سے ہونے والی اموات سے 2.
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں چائلڈ اینڈ فیملی سوشل ورک کی پروفیسر شریک لیڈ محقق لوسی کلور نے کہا ’پی ای پی ایف اے آر کے پروگراموں کے لیے مستحکم، طویل مدتی تعاون سے محروم ہونا، خاص طور پر بچوں اور نوعمروں کو ایڈز کو وبا کے تاریک دور دھکیلنے جیسا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یو ایس ایڈ کو کیوں بند کرنا چاہتے ہیں؟
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہنا ہے کہ پروگراموں سے اچانک دستبرداری اور اس کی جگہ لینے کے لیے طویل مدتی حکمت عملی کی عدم موجودگی میں ایڈز انفیکشنز اور قابل تدارک اموات اور ایڈز سے یتیم ہونے والے بچوں کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ کا باعث بن سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا دھچکا جو 2 دہائیوں کی پیشرفت کو ختم کر سکتا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے 20 جنوری کو تمام غیر ملکی امداد کی فنڈنگ کو روک دیا تھا جس کے بعد ہی محققین نے نوٹ کیا کہ اس بندش سے بہت سی خدمات میں خلل پڑا ہے یا معطل کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ پی ای پی ایف اے آر کا ادارہ2003 میں صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں قائم کیا گیا تھا، اور یہ پروگرام ایڈز کی عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے ایک سنگ بنیاد بن گیا ہے۔
محققین نے کہا کہ پی ای پی ایف اے آر نے 26 ملین سے زیادہ جانیں بچائی ہیں اور اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ 7.8 ملین بچے ایڈز سے پاک پیدا ہوں۔ پروگرام فی الحال 20 ملین سے زیادہ لوگوں کو ایڈز کی روک تھام اور علاج کی خدمات کے ساتھ معاونت کرتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افریقہ امریکا ایڈز پی ای پی ایف اے آر جارج ڈبلیو بش یو ایس ایڈذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افریقہ امریکا ایڈز پی ای پی ایف اے آر جارج ڈبلیو بش یو ایس ایڈ پی ای پی ایف اے آر ڈونلڈ ٹرمپ ایڈز سے ایس ایڈ کے لیے
پڑھیں:
غزہ کے بچوں کے نام
رات کے اندھیرے میں جب دنیا کے خوشحال اور پرامن شہروں میں نیند اپنی پُرکیف آغوش میں لوگوں کو سلاتی ہے تب غزہ میں مائیں اپنے بچوں کو ملبے تلے ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں۔ نہ بجلی ہے نہ پانی نہ دوا نہ دلاسہ۔ ہر طرف خاک اُڑتی ہے اس مٹی میں بے گناہ فلسطینی دفن ہیں۔
وہ بچی جو اسکول سے واپس آرہی تھی، آسمان سے برستی آگ کی ایک لکیر نے اس کا بستہ اس کی کاپی اس کا ننھا سا یونیفارم اور اس کا وجود ایک لمحے میں مٹا دیا۔ دنیا کی خاموشی نے اس معصوم کی موت کو محض ایک کولیٹرل ڈیمیج میں بدل دیا۔
غزہ اب کوئی جغرافیائی حقیقت نہیں۔ یہ اب ایک اجتماعی قبر ہے جہاں ہر دن نئی قبریں کھو دی جاتی ہیں مگرکوئی کتبہ نہیں لگتا۔ نہ نام، نہ تاریخ پیدائش، نہ تاریخِ وفات۔ بس ایک ہجوم ہے جو ماضی حال اور مستقبل کو اپنی آنکھوں کے سامنے دفن کرتا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگیں حکومتیں لڑتی ہیں مگر مرتے عوام ہیں۔ غزہ میں تو حکومتیں بھی محصور ہوچکی ہیں اور عوام بھی۔ یہاں امن کا دروازہ کھلتا نظر نہیں آرہا اور لوگ بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں۔ایک طرف بمبار طیارے ہیں اور دوسری طرف بچوں کی وہ تصویریں جوکبھی اسکول کے کارڈ پر لگی تھیں۔
یہ کون سا انصاف ہے کہ ایک پورا خطہ دنیا کی سب سے جدید ہتھیاروں سے لیس فوج کے نشانے پر ہو اور اس کی واحد طاقت اس کی مظلومیت ہو؟ یہ کون سا عالمی ضمیر ہے جو یوکرین کے لیے آنکھوں میں آنسو بھر لیتا ہے مگر فلسطین کے لیے اس کی زبان گُنگ اور قلم خشک ہوجاتا ہے؟
میں سوچتی ہوں اگر محمود درویش آج زندہ ہوتے توکیا لکھتے؟ کیا وہ پھر کہتے’’ ہم زندہ رہیں گے کیونکہ ہم مرنا نہیں چاہتے۔‘‘یا پھر خاموش ہو جاتے؟ جب مسلسل بمباری میں زندگی کی ہر صورت بکھر جائے تو شاعری بھی بے بس ہو جاتی ہے۔غزہ کے اسپتالوں میں زخمی بچوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ موت کا گہرا سایہ ہر وقت فلسطینیوں کے سر پہ منڈلاتا رہتا ہے۔ ایک بچہ جس کی دونوں ٹانگیں اُڑ چکی ہیں۔ اپنی ماں سے پوچھتا ہے’’ امی،کیا اب بھی میں اسکول جا سکوں گا؟‘‘ اور ماں اپنی چیخ اپنے سینے میں دفن کر لیتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی قراردادیں انسانی حقوق کے عالمی منشور انصاف کے دعوے دار بین الاقوامی ادارے سب غزہ میں ہونے والے ظلم کو روکنے سے قاصر ہیں۔ دنیا بھر میں لوگ غزہ میں ہونے والے مکروہ جرائم کے خلاف اپنی آواز بلند کررہے ہیں مگر اسرائیل اور امریکا کی حکومتوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ مگر تاریخ اس ظلم و زیادتی کو نہ بھولے گی اور نہ معاف کرے گی۔
میں نے ایک بوڑھی فلسطینی عورت کی تصویر دیکھی جو اپنی بیٹی کی لاش پر بیٹھ کر کہہ رہی تھی ’’ یہ میری آخری امید تھی اب خدا ہی باقی ہے۔‘‘ اُس عورت کی آنکھوں میں وہ دکھ تھا جسے لفظوں میں نہیں سمویا جا سکتا۔ یہ دکھ کسی ایک ماں کا نہیں پورے مشرقِ وسطیٰ کا نوحہ ہے جو روز نئی لاشوں پر ماتم کرتا ہے۔
ظلم جہاں بھی ہو انسان کے اندرکی انسانیت اگر زندہ ہو تو خاموش نہیں رہ سکتا۔ تو پھر یہ عالمِ اسلام کیوں خاموش ہے؟ تمام مسلم ممالک فلسطینیوں کے لیے کیا کررہے ہیں؟ اس خاموشی کا حساب ایک نہ ایک دن دینا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ تمام ممالک ایک ہوکر فلسطینیوں کی آواز بنیں اور ان کا ساتھ دیں۔ کیسے ان بچوں سے منہ موڑا جاسکتا ہے جو اسرائیل کی درندگی کا شکار ہو رہی ہیں۔
کیا ہم صرف اس وقت جاگتے ہیں جب مظلوم ہماری زبان بولے ہمارا لباس پہنے یا ہمارے مفادات سے جُڑا ہو؟ اگر ظلم کو صرف قوم نسل یا مذہب کے ترازو میں تولا جائے تو انسانیت کہاں جائے گی۔میری آنکھوں کے سامنے غزہ کا ایک اور منظر آتا ہے ایک لڑکی جو اپنی چھوٹی بہن کو گود میں لیے کھڑی ہے، اس کے سر سے خون بہہ رہا ہے مگر وہ رو نہیں رہی۔ وہ بس خلا میں دیکھ رہی ہے جیسے سوال کر رہی ہو’’ کیا میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں فلسطینی ہوں؟‘‘یہ سوال صرف اسرائیل سے نہیں ہم سب سے ہے۔جو لوگ غزہ کے ظلم پر خاموش ہیں وہ درحقیقت اس بچی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے قابل نہیں۔کیونکہ وہاں صرف لہو نہیں ایک پوری نسل کی شکستہ امیدیں جھلک رہی ہیں۔
پاپائے روم فرینسس، نے کہا’’ یہ جنگ نہیں یہ نسل کشی ہے۔‘‘ مگر کیا یہ آواز عالمی عدالتوں کے کانوں تک پہنچی؟ یا پھر وہ عدالتیں صرف ان کے لیے کھلتی ہیں جو سفید فام ہوں یا جن کے پاس نیٹوکی چھتری ہو؟غزہ کی بربادی صرف اسرائیلی اور امریکی ریاستوں کی جارحیت کا شکار نہیں بلکہ وہ حکومتیں جو اس ظلم پر خاموش ہیں وہ سب اس گناہ میں شریک ہیں۔ جہاں حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، وہیں دنیا بھر میں عام آدمی سڑکوں پہ فلسطین کے لیے اپنی آواز اٹھا رہا ہے۔
میں چاہتی ہوں کہ اس تحریرکے آخر میں کوئی امید کی بات لکھوں مگر جھوٹ نہیں لکھ سکتی۔ غزہ کے بچوں کی لاشوں پر امن کی کوئی داستان نہیں لکھی جا سکتی۔ ہاں اگرکچھ باقی ہے تو یہ ایک سوال جو ہر باشعور انسان کے دل میں جاگنا چاہیے۔ ’’ اگر ہم نے آج غزہ کے لیے آواز نہ اٹھائی تو کل جب ہمارے دروازے پر قیامت آئے گی تو کون ہمارے لیے بولے گا؟‘‘