لداخ کے شعبہ سیاحت میں بیرونی مداخلت کو روکنے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
قرارداد سے سیاحت سے چلنے والی معیشت میں غیر مقامی سرمایہ کاروں اور کاروباری افراد کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے حوالے سے مقامی لوگوں میں پائی جانے والی گہری تشویش کی عکاسی ہوتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے خطہ لداخ میں مقامی رہنمائوں نے ایک مشترکہ قرارداد منظور کی ہے جس میں لداخ کے شعبہ سیاحت میں باہر کے لوگوں کی مداخلت کو روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق قرارداد ”لداخ ٹورسٹ ٹریڈ الائنس” نے پیش کی اور سماجی و مذہبی تنظیموں، سول سوسائٹی گروپس، سیاسی رہنمائوں اور ٹریڈ یونینوں سمیت تمام لوگوں نے اس کی حمایت کی۔قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ سیاحت کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاروں کی مداخلت اور کنٹرول کو روکا جائے۔ قرارداد سے سیاحت سے چلنے والی معیشت میں غیر مقامی سرمایہ کاروں اور کاروباری افراد کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے حوالے سے مقامی لوگوں میں پائی جانے والی گہری تشویش کی عکاسی ہوتی ہے۔کمیونٹی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ سیاحت مقامی آبادی کے ایک بڑے حصے کا ذریعہ معاش ہے اور بیرونی مداخلت سے مقامی کاروبار کو نقصان پہنچے گا اور خطے کا سماجی و اقتصادی تانہ بانہ متاثر ہو گا۔ لداخ ٹورسٹ ٹریڈ الائنس کے ایک رکن نے بتایا کہ یہ قرارداد تنہائی پسندی نہیں بلکہ ہمارے مستقبل کے تحفظ کے لئے ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاحت ہماری ثقافت، روایات اور ماحول سے پوری طرح جڑی ہوئی ہے۔ بیرونی افراد کو اس صنعت پر غلبہ حاصل کرنے کی اجازت دینے سے نہ صرف مقامی معیشت کو خطرہ ہے بلکہ اس اعتماد کو بھی نقصان پہنچے گا جو دنیا ہم پر کرتی ہے۔قرارداد کے مطابق ہوٹلوں، کیمپ سائٹس اور ٹریول ایجنسیوں سمیت سیاحت سے متعلقہ منصوبوں میں بیرونی سرمائے کی آمد غیر منصفانہ مسابقت پیدا کر رہی ہے، زمین کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور اپنے ہی وطن میں اپنا مستقبل بنانے کی مقامی نوجوانوں کی صلاحیت ختم ہو رہی ہے۔ رہنمائوں نے کہا کہ ہمارا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ سیاحت کے فوائد لداخ کے لوگوں کے پاس رہیں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کہ سیاحت
پڑھیں:
بھارت: حملے کے بعد سیاحوں کا کشمیر سے تیزی سے انخلا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اپریل 2025ء) بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو ''چھوٹا سوئٹزرلینڈ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ منگل کے روز اس کے سرسبز چراگاہوں اور برف پوش پہاڑوں والے علاقے پہلگام میں مسلح افراد کے خونریز حملے میں کم از کم 26 افراد ہلاک ہوئے، جو سن 2000ء کے بعد اس خطے میں عام شہریوں پر سب سے بڑا اور سنگین ترین حملہ تھا۔
حملے کے فوری اثراتبدھ کے روز جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نےکشمیر سے نکلنے والے سیاحوں کو ''ہمارے مہمانوں کا انخلا‘‘ قرار دیتے ہوئے تصدیق کی وہ تیزی سے واپس جا رہے ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق بسوں اور ٹیکسیوں میں سوار سیاح وادی چھوڑنے کے لیے بے تاب دکھائی دیے، جبکہ ہوٹلوں نے مہمانوں کی بکنگ کی منسوخیوں کی بھرمار کی اطلاعات دی ہیں۔
(جاری ہے)
پہلگام کی پرسکون چراگاہوں، جو عام طور پر سیاحوں سے بھری رہتی ہیں، میں فوجی ہیلی کاپٹروں کی گونج سنائی دی، جو حملہ آوروں کی تلاش میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس نیوز ایجنسی کے مطابق حملے کی جگہ پر خون کے دھبے موجود تھے، جہاں بلٹ پروف جیکٹوں میں ملبوس فوجی گشت کر رہے تھے اور میڈیکو لیگل ٹیمیں شواہد اکٹھا کر رہی تھیں۔
سیاحت پر گہرے اثراتپہلگام کے ہوٹل ماؤنٹ ویو کے مینیجر عبدالسلام نے بتایا کہ منگل کی دوپہر تک ان کا ہوٹل مہینوں کے لیے مکمل طور پر بُک تھا لیکن حملے کی خبر پھیلتے ہی منسوخیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، ''یہ المیہ کشمیر میں سیاحت کو مفلوج کر دے گا۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا، ''ہم اب بھی اپنے گاہکوں کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ محفوظ ہیں۔
‘‘وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسی کے تحت بھارتی حکام نے کشمیر کو اس کی سرسبز وادیوں اور موسم کی مناسبت کی وجہ سے ''سیاحتی جنت‘‘ کے طور پر فروغ دیا ہے۔ سن 2024 میں 35 لاکھ سیاحوں، جن میں زیادہ تعداد ملکی سیاحوں کی تھی، نے اس خطے کا رخ کیا۔ حکام کے مطابق یہ اعداد و شمار اس خطے میں ''امن اور معمولات زندگی‘‘ کی واپسی کی علامت تھے، تاہم اس حملے نے سیاحت کے اس فروغ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
پہلگام 'دہشت گردانہ' حملے پر عالمی ردعمل
سیاحوں کا انخلا اور سرکاری اقداماتحملے کے بعد بھارتی حکام نے سیاحوں کے انخلا کو آسان بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل آف سول ایوی ایشن فیض احمد قدوائی نے ایئرلائنز کو ہدایت کی ہے کہ وہ مسافر پروازوں کی تعداد بڑھائیں۔ ایئر انڈیا نے بدھ کو اعلان کیا کہ اس نے ''موجودہ صورتحال کے پیش نظر‘‘ اضافی پروازیں شروع کر دی ہیں۔
وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ایک بیان میں کہا، ''پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے بعد وادی سے سیاحوں کا انخلا دل شکن ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ لوگ کیوں جانا چاہتے ہیں۔‘‘
مقامی کشمیریوں کی مہمان نوازیممبئی سے تعلق رکھنے والے سیاح پارس ساولا نے بتایا کہ حملے کے بعد بہت سے سیاح خوفزدہ ہیں اور جلد از جلد واپسی کے لیے پروازوں کی تلاش میں ہیں۔
تاہم انہوں نے مقامی کشمیریوں کی مہمان نوازی کی تعریف کی، ''ہم یہاں کے عوام سے نہیں ڈرتے۔ وہ ہر ممکن مدد کر رہے ہیں، ہمیں ضرورت کی ہر چیز فراہم کر رہے ہیں۔‘‘ مستقبل کے خدشاتتجزیہ کاروں کے مطابق مقامی باشندوں اور کاروباری افراد کے لیے یہ حملہ معاشی نقصان کا باعث بنے گا کیونکہ سیاحت اس خطے کی معیشت کا اہم ستون ہے۔ پہلگام کے قریب نئے ریزورٹس کی تعمیر بھی جاری ہے لیکن اس حملے نے سیاحت کے مستقبل پر سوالیہ نشانات لگا دیے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ بھارت نے سیاحت کے ذریعے خطے میں ''امن‘‘ کی تصویر پیش کی، لیکن اس طرح کے واقعات سیاحوں کے اعتماد کو متزلزل کر سکتے ہیں۔
ادارت: مقبول ملک