میانمار: فوجی حکمران زلزلہ متاثرین پر بھی حملے جاری رکھے ہوئے
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے بتایا ہے کہ میانمار میں زلزلے کے بعد جنگ بندی کا اعلان ہونے کے باوجود فوج کی جانب سے مخالفین پر حملے جاری ہیں۔
ادارے کی ترجمان روینہ شمداسانی نے کہا ہے کہ ایسے وقت میں تمام تر توجہ امدادی سرگرمیوں پر ہونی چاہیے لیکن فوج لوگوں پر زمین اور فضا سے حملے کر رہی ہے۔
یہ کارروائیاں ان علاقوں میں بھی جاری ہیں جو زلزلے سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ Tweet URLاطلاعات کے مطابق، 28 مارچ کو آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد فوج نے حکومت مخالف گروہوں کے زیرانتظام علاقوں میں 120 حملے کیے ہیں جن میں نصف 2 اپریل کو اس کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان ہونے کے بعد کیے گئے۔
(جاری ہے)
ان میں گنجان شہری آبادیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا جو کہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت دوران جنگ متناسب شدت کی عسکری کارروائی کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔امداد میں رکاوٹیںترجمان کے مطابق، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے میانمار کی فوج پر زور دیا ہے کہ وہ امداد کی فراہمی میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرے اور عسکری کارروائیوں کو روک دے۔
زلزلے سے بری طرح متاثرہ شہر سیگانگ پر حکومت مخالف فورسز کا قبضہ ہے جہاں متاثرین کا امداد کے لیے تمام تر انحصار مقامی آبادی پر ہے۔
ترجمان نے کہا ہے کہ تھنگیانگ تہوار اور اتوار کو نئے سال کے آغاز کے موقع سبھی کو ضرورت مند لوگوں کی مدد کے لیے مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں۔ ادارے نے ملک کی فوج سے اپیل کی ہےکہ وہ فروری 2021 کے بعد گرفتار کیے گئے تمام لوگوں کو رہا کر دے جن میں سٹیٹ قونصلر آنگ سان سو کی اور صدر یو ون میئنٹ بھی شامل ہیں۔
بیماریاں پھیلنے کا اندیشہاقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے خبردار کیا ہے کہ زلزلے کے نتیجے میں بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ ملک میں ادارے کے طبی شعبے کے سربراہ ایرک ریبائرا نے کہا ہے کہ اس آفت سے پہلے بھی ملک کو ایسی بیماریوں کے پھیلاؤ کا سامنا تھا جنہیں ویکسین کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔ ان میں خسرہ، ملیریا، ڈینگی اور اسہال جیسے امراض شامل ہیں۔
انہوں نے یو این نیوز کو بتایا ہے کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں بچوں کے لیے یہ صورتحال کہیں زیادہ خطراناک ہے۔ زلزلہ آنے کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی کی ہے جو اب گنجان پناہ گاہوں میں مقیم ہیں جبکہ پانی اور نکاسی آب کا نظام تباہ ہو گیا ہے اور آلودہ پانی پینے سے لوگوں کی صحت خطرے میں پڑ گئی ہے۔
تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے اور گردوغبار کے باعث بچوں میں سانس کی بیماریاں بھی جنم لے سکتی ہیں۔
ادارہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی اور صحت و صفائی کی سہولیات مہیا کرنے کے لیے کوشاں ہے جبکہ حاملہ خواتین کو محفوظ زچگی کے لیے درکار سازوسامان بھی مہیا کیا جا رہا ہے۔امدادی وسائل کی اپیلاقوام متحدہ اور اس کے شراکت داروں نے میانمار میں ایک کروڑ 10 لاکھ لوگوں کے لیے 275 ملین ڈالر کے امدادی وسائل مہیا کرنے کی اپیل کی ہے۔ زلزلے سے پہلے بھی ملک میں تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ لوگوں کو انسانی امداد کی ضرورت تھی جبکہ زلزلے کے بعد ان میں مزید 20 لاکھ کا اضافہ ہو گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے اداروں، شراکت داروں اور رکن ممالک نے متاثرین کے لیے طبی سازوسامان، پناہ کے لیے درکار اشیا، صاف پانی، صحت و صفائی کا سامان اور امدادی خوراک جمع کرنے کے تیزرفتار اقدامات کیے ہیں۔
متاثرہ علاقوں میں امدادی اقدامات کو مزید موثر بنانے کے لیے ہنگامی امداد سے متعلق اقوام متحدہ کے مرکزی فنڈ (سی ای آر ایف) کے تحت پانچ ملین ڈالر مہیا کیے گئے ہیں جبکہ اس سے پہلے بھی اتنی ہی مقدار میں وسائل جاری کیے جا چکے ہیں۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کے علاقوں میں زلزلے کے زلزلے سے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
زمین کے ستائے ہوئے لوگ
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
کیر ولین نے کہا ہے ” کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا یہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے لیکن اس کا انجام کیا ہے اس کا
انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں اور کیسے شب و روز گزار رہے ہیں ” ۔ فرانز فینن بیسو ی صدی کا ایک ایسا نفسیا تی معالج،
فلاسفر اورسر گر م سیاسی کارکن تھا جس کی ذات سے ایک بڑی تعدا د میں سیاسی لیڈروں اور انقلابی تحریکوں نے استفادہ کرتے ہوئے
اپنے علاقوں اور ملکوں میں انقلاب کی آبیا ری کی ہے اس کی کتاب ”زمین کے ستا ئے ہوئے ” تمام دنیا کے انقلابیوں کے لیے بائبل کا
درجہ رکھتی ہے ۔یہ کتاب 18 زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے ۔صرف انگریزی زبان میں اس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔ اس کتاب کا دیبا چہ مشہور فلسفی ژاں پال سارتر نے لکھا ہے ۔فینن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم مقامی آبادی کو ہر شہر میں دو حصوں میں
تقسیم کیا ہوا دیکھتے ہیں۔ اول ! ایک ایسا علاقہ جو امیر کامیاب اور بارسو خ لوگوں کی رہائش گاہ ہوتی ہے ۔جہاں خود غیر ملکی حاکم بھی
رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ دوم ! غرباء مجبور اور محکوم مقامی لوگوں پر مشتمل خستہ حال آباد ی۔ ان حالات میں معاشی بنیادوں پر انسانوں کی
طبقاتی تقسیم ازخود نسلی مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ فینن کا خیا ل ہے کہ ظالم اپنے جبر کو قابل قبول بنانے کے لیے اکثر مذہب کا سہارا لیتا ہے۔
خدا کے نام پر نسلی امتیا ز کو قدرت کا قانون کہہ کر وہ اپنی خو د ساختہ فوقیت کو قانونی رنگ پہنا لیتاہے اور غریب عوام کو یہ چکمہ دینے میں
کامیاب ہوجاتا ہے کہ خدا دنیا وی آسائشوں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی رضایہ ہی ہے کہ جنت میں غریبوں کا مستقل ٹھکانہ ہو۔لیکن
انقلابی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کسی تصوراتی جنت کے بجائے حقیقت کا سامنا کر نا چاہتے ہیں ۔وہ
احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے زمین کے دکھ اورسکھ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فینن ہمیں بتا تا ہے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی زبان
استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور، درندوں اور غیر مہذب افراد کی طرح جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے
لباس ، روایات اور مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مقامی آبادکی تضحیک کی جائے اور انہیں غیر انسانی
ثابت کیاجائے ۔نوآبادیاتی طاقتیں ایسا رو پ دھار لیتی ہیں جیسے وہ مقامی لوگوں کو مذہب یا جمہوریت کے نام پر ان کی سیاسی اور
روحانی اصلاح کا بیٹر ا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ رویہ مقامی لوگوں کے لیے نا راضگی اور جھنجھلا ہٹ کا سبب بنتاہے اورپھر یہ ہی
ناراضگی بتدریج نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آزادی کی جدو جہد میں شریک ہوتے ہیں تو یہ ہی نفرت بدلے کی آگ
میںبہہ نکلتی ہے اور پھر کئی دہائیوں اور صدیوں سے جمع غصے کا لا وا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھا رلیتا ہے اور اس آگ میں زبان ، کلچر ،
مذہب غرض یہ کہ طاقت کے نام پر تھو پی گئی ہر روایت بھسم ہوجاتی ہے۔ اس طرح عوام ان زیادتیوں کا حساب چکتا کردیتے ہیں۔فینن
کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کی یہ بغاوت بتدریج انقلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور سیاسی شعور کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اپنے
علاقے اور عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیا ر ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک خو ش آئند مستقبل کے لیے اپنے آج کو دائو پر لگا دیتے
ہیںکیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عدل و انصاف پر مبنی سماج کاقیام چاہتے ہیں ۔مقامی بستیوں کے مجبور و محکوم لوگ جن کی
ہڈیوں میںغصے کا لاوا دہک رہا ہوتا ہے، سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں پر اپنے غصے اور برتری کی دھا ک بٹھانا چاہتے ہیں۔یہ وہ وقت
ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی سر پھٹول میں مشغو ل ہوتے ہیں۔
فینن اس جھنجھلا ہٹ اور غصے کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیںکہ کس طرح یہ نفرت جذباتی اور سماجی طور پر
داخلی رخ اختیا ر کرلیتی ہے اور بالا خر جب یہ نفرت ظالم کے خلا ف تشدد کی شکل اختیا ر کرتی ہے تو مظلوم اپنے منفی جذبات کے زیر اثر لا
شعوری طورپر اس جلاد کا روپ دھا رلیتا ہے جو کسی وقت ظالم کا حقیقی روپ تھا ۔مقامی باشندے دبے اور پسے ہوئے انسان ہوتے ہیں
جن کا ایک ہی سپنا ہوتاہے کہ کسی طوروہ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان میں بھی وہ ہی
حالات پیدا ہو چکے ہیں جس کا ذکر فینن نے اپنی کتا ب میں کیا ہے ؟ فرق صرف اتنا سا ہے کہ ہمار ے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم
خود ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر ملکی نوآباد یاتی طاقت۔ کیا آج ہر عام پاکستانی کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا نہیں پک رہا ہے؟ کیا آج ہر عام
پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصا فیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت کی آگ میں نہیں سلگ رہا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کئی دہائیوں
سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے ؟کیا عام لوگ چھوٹے چوروں اورلٹیروں کے خلاف اپنی عدالت لگا کر انہیں
سزائیں نہیں دے رہے ہیں ؟کیا 25کروڑ عوام اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا نہیں سو چ رہے ہیں؟
کیا وہ طاقت کے زور پر تھوپی گئی ہربوسید ہ روایت کو بھسم کرنے کا ارادہ نہیں کررہے ہیں؟ کیاپاکستان میں بہت جلد ایک نیا سورج نہیں
اگنے والا ہے ؟کیا نئے پاکستان کا جنم نہیں ہونے والا ہے؟ معصوم انسانوں کا معاشی استحصال کر نے والوں ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے
والوں ان کی زندگیو ں میں زہر گھولنے والوں ان کے آنگنوں میں ذلت بھر نے والوں انہیں جنت کے نام پر بہلانے پھسلانے والوں
مذہب کی آڑ میں انہیں تقسیم کرنے والوں انہیں بے وقوف بنا کر اپنا الوسیدھا کرنے والوں معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کیاتم امید
رکھتے ہو کہ جب معصوم لوگوں کی محصو ر آوازیں آزاد ہونگیں تو وہ تمہاری شان میں قصیدے کہیں گی ؟جب صدیوں سے سِیے ہوئے
ہونٹ کھلیں گے تو وہ کیا تمہاری تعریف کر یں گے؟ جب ان کے سر جنہیں تم نے زمین تک جھکا رکھا تھا اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں
تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی؟ جب عام لوگ اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کرکے کھڑے ہونگے اور تمہاری طرف دیکھیں گے تو تم
ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کو خود دیکھ لوگے تو پھر یاد رکھنا تمہیں پناہ کی کوئی جگہ نصیب نہیں ہوگی ۔ اور نہ ہی تمہیں معافی مل
سکے گی۔ یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا کہ اب وہ دن دور نہیں ہے۔
٭٭٭