مصنوعی ذہانت کی دنیا میں چین امریکا کو پیچھے چھوڑنے کے قریب پہنچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
بیجنگ(انٹرنیشنل ڈیسک)چین مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی کارکردگی میں امریکا کو پیچھا چھوڑنے کے بالکل قریب پہنچ گیا ہے۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ چین کے مختلف اے آئی ماڈلز نے 2024 کے آخر تک اہم بینچ مارکس پر معائنے میں امریکی ماڈلز کے ساتھ تقریباً برابری کا سکور حاصل کر لیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، امریکا کی چین پر برتری MMLU پر 0.
یہ بینچ مارکس اے آئی ماڈلز کی مختلف صلاحیتوں کا تجزبہ کرتے ہیں۔ مثلاً MMLU عمومی علم کا اندازہ لگاتا ہے، MMMU مشترکہ متن اور تصویر کی سمجھ کو ٹیسٹ کرتا ہے، MATH پیچیدہ ریاضی کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت کو دیکھتا ہے، اور HumanEval کوڈ بنانے کا اندازہ لگاتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ امریکی ماڈلز کو عموماً اپنے چینی ہم منصبوں کے مقابلے میں زیادہ تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے علاوہ چینی ماڈلز پر اٹھنے والے اخراجات امریکی ماڈلز پر ہونے والے خرچے سے سے کم بتایا جارہا ہے۔ چین کے ڈیپ سیک وی تھری کی تربیت کی لاگت لاکھوں ڈالر میں رپورٹ کی گئی ہے، لیکن دوسری طرف کچھ اعلیٰ امریکی ماڈلز کے لیے اعداد و شمار 100 ملین ڈالر یا حتیٰ کہ 1 بلین ڈالر تک بتائے گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین عالمی سطح پر اے آئی کی اشاعتوں اور پیٹنٹس میں سب سے آگے ہے۔ 2024 میں چینی اداروں نے 15 اہم اے آئی ماڈلز تیار کیے، امریکا نے 40 اور یورپ نے 3 ماڈلز بنائے۔
مزیدپڑھیں:پیٹرول اور ڈیزل پر 5 روپے فی لیٹر کاربن لیوی لگنے کا امکان
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: امریکی ماڈلز اے ا ئی
پڑھیں:
امارات،سنگاپوراور ناروے اے آئی کے استعمال میں نمایاں، پاکستان بہت پیچھے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: سنگاپور،ناروے، متحدہ عرب امارات، نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) کے عالمی استعمال میں نمایاں برتری حاصل کر لی ہے۔ جبکہ پاکستان اس دوڑ میں کافی پیچھے ہے جہاں آبادی کا صرف ایک محدود حصہ روزمرہ زندگی میں اے آئی ٹولز استعمال کر رہا ہے۔
رپورٹ میں 170 ممالک میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے فروغ، اس کے استعمال اور سرکاری و نجی شعبوں میں اس کے انضمام کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ جس کے مطابقمتحدہ عرب امارات اور سنگاپور میں کام کرنے والے 50 فیصد سے زائد افراد باقاعدگی سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس استعمال کر رہے ہیں، جس سے یہ دونوں ممالک عالمی درجہ بندی میں سرِفہرست قرار پائے ہیں۔جبکہ پاکستان میں اے آئی کا استعمال 15 فیصد سے بھی کم ہے، جہاں بیشتر افراد اب تک آرٹیفیشل انٹیلیجنس کام یا تعلیم کے لیے استعمال نہیں کر رہے۔یہ انکشاف مائیکروسافٹ کے اے آئی اکنامی انسٹیٹیوٹ کی نئی رپورٹ ’اے آئی ڈیفیوشن رپورٹ 2025ء‘ میں کیا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے فروغ میں سست رفتاری کی بنیادی وجوہات انٹرنیٹ کی محدود رسائی، ڈیجیٹل مہارتوں کی کمی اور پاکستان کی علاقائی زبانوں میں اے آئی ٹولز کی عدم دستیابی ہیں۔ جن ممالک میں لوگ اپنی زبان، جیسے انگریزی یا عربی میں اے آئی استعمال کر سکتے ہیں، وہاں اس کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
مسلم ممالک میں متحدہ عرب امارات سب سے آگے ہے، اس کے بعد سعودی عرب، ملائشیا، قطر اور انڈونیشیا نمایاں ہیں، جو آرٹیفیشل انٹیلجنس کی تعلیم، ڈیٹا سینٹرز اور حکومتی پروگرامز میں بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل بھی اُن 7 ممالک میں شامل ہے جو جدید آرٹیفیشل انٹیلجنس ماڈلز تیار کر رہے ہیں، اسرائیل ساتویں نمبر پر ہے جبکہ امریکا، چین، جنوبی کوریا، فرانس، برطانیہ اور کینیڈا اس فہرست میں اس سے آگے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستان ابھی آرٹیفیشل انٹیلجنس تیار کرنے والے ممالک میں شامل نہیں، تاہم بہتر ڈیجیٹل تعلیم، انٹرنیٹ سہولتوں اور مہارتوں کے فروغ کے ذریعے وہ اس میدان میں اپنی پوزیشن بہتر بنا سکتا ہے۔ تجویز کیاگیاہے کہ امیر اور غریب ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے اے آئی کے فرق کو کم کیا جائے تاکہ تمام اقوام اس جدید ٹیکنالوجی کے فوائد سے یکساں طور پر مستفید ہو سکیں۔