Express News:
2025-07-26@00:11:33 GMT

ٹیرف جنگ کا مستقبل کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2 اپریل کو نافذ کئے جانے والے ٹیرفس کو 90 روز کے لئے روک کر ممالک کے ساتھ بات چیت کے عمل کے آغاز کا کہا ہے اور عندیہ دیا ہے کہ وہ نافذ کردہ ٹیرف میں امریکی فائدے کے حامل نتائج حاصل کر کےاس معاملے کو حل کریں گے لیکن اس 90 روزہ مہلت میں چین شامل نہیں ہے۔

بقول امریکی صدر، چین نے امریکہ پر جوابی ٹیرف لگایا ہے اس لئے اس سے بات نہیں ہو سکتی ۔اس خبر کے آتے ہی کئی تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ ٹیرف پالیسی کا اصل مقصد شاید چین کو ہی ٹیرف پالیسی میں لانا اور اس پر دباؤ ڈالنا تھا کیوں کہ باقی تمام ممالک سے بات کرنا اور چین سے اعلانیہ ٹیرف جنگ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے مابین تجارتی برتری کی کوشش کی امریکی پالیسی کا واضح اعلان ہے۔

چین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ان کے دروازے بات چیت کے لئے کھلے ہیں لیکن یہ بات چیت باہمی احترام کے اصول پر ہونی چاہیے بصورت دیگر چین یہ لڑائی آخری دم تک لڑے گا۔

تاریخی طور پر دیکھیں تو چین کا رویہ خود سے منسلک ہر معاملے میں ایسا ہی ہے۔ چین کی بین الاقوامی سیاست کا ایک سب سے اہم پہلو ہی یہ ہے کہ چین کسی بھی معاملے میں بات چیت کے دروازے بند نہیں کرتا اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی تمام مسائل کا حل نکالا جائے اور ترقی اور تعاون کے عمل کو جاری رکھا جائے۔

میں یہ تو نہیں کہ سکتا کہ چین کو اس بار امریکی صدر کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے سے واقفیت نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ امریکی صدر کا رویہ مذاکرات والا نظر نہیں آرہا ،شاید اسی لئے چین کی جانب سے بھی اس بار سخت حکمت عملی اور جواب دیکھنے میں آرہا ہے۔

امریکی ٹیرف 34 فیصد ہوں، 125 یا 145 فیصد۔ جوابی ٹیرف 34 فیصد ہوں، 84 یا 125 فیصد، نقصان ہر حال میں دنیا کا ہی ہے۔ صدر ٹرمپ اپنی ہر میڈیا ٹاک اور تقریبات میں یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ امریکہ کے سرکاری خزانے میں روزانہ کی مد میں اربوں ڈالرز جمع ہو رہے ہیں لیکن وہ یہ نہیں بتا رہے کہ یہ اربوں ڈالر انہیں کون جمع کر وارہا ہے؟کیوں کہ ٹیرف میں بہر حال قیمت تو عوام نے ادا کرنی ہے۔

اب ہر فرد کا ایک ہی سوال ہے۔ اس ٹیرف جنگ کا مستقبل کیا ہے؟ چین سمیت تمام ممالک اور عالمی تجارتی تنظیموں کا یہ ماننا ہے کہ یکطرفہ پسندی کی یہ سوچ زیادہ عرصہ چل نہیں سکتی اور اس کا اختتام بھی اچھا نہیں ہو گا لہذا جتنا جلد ممکن ہو سکے اس سے جان چھڑانی چاہیئے۔

ماہرین معاشیات بھی اس بات پر حیران ہیں کہ خود سابق امریکی صدور کا قائم کیا ہوا ادارہ اور نظام جسے دنیا ڈبلیو ٹی او کے نام سے جانتی ہے اور ان سابق صدور کا تعلق بھی ریپبلکن پارٹی سے ہی تھا ،آج کیسے امریکہ مخالف ہو سکتا ہے؟۔ یا تو کھل کر اس بات کا اعلان کیا جائے کہ ہم نے جو نظام قائم کرنے کی کوشش کی تھی وہ بہتر نہیں تھا یا پھر یہ کہ جتنا فائدہ ہم نے اس کا حاصل کرنا تھا وہ کر چکے اس لئے اب اس کی ضرورت نہیں۔

تاہم ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آ رہا اور شائد آئے گا بھی نہیں کیوں کہ امریکہ کے حصے کے اس طرح کے کئی اعترافات ابھی تک باقی ہیں جو اس نے کرنے ہیں لیکن آج تک دنیا انہیں نہیں سن سکی، جیسے عراق میں کیمیائی ہتھیار نہیں تھے اور ہم نے حملہ کرتے ہوئے جو کہا وہ یا تو جھوٹ تھا یا پھر غلد معلومات۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے تو وہ جھوٹ ہی کیا جس کا اعتراف کر لیا جائے۔

اس ضمن میں ایک بات قابل توجہ ہے کہ انٹرنیشنل میڈیا میں کچھ اداروں نے یہ نشاندہی کی ہے کہ 2 اپریل کو امریکی صدر نے ٹیرف کی جو فہرست دنیا کے سامنے اٹھا رکھی تھی اس کی تیکنیکی تحقیق میں کئی فاش غلطیاں ہوئی ہیں اور ان پر اٹھنے والے اعتراضات پر بھی انتظامیہ کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔

اسی طرح ڈبلیو ٹی او کی ڈائریکٹر جنرل نے اپنے حالیہ ایک مضمون میں کہا ہے کہ امریکہ کا تجارتی خسارے اور نقصان کا دعوی غلط ہے۔اپنے مضمون "امریکہ تجارت کا سب سے بڑا فاتح ہے " میں اینگو جیا اوکونجو ویلا نے تفصیلی اعداد و شمار کے ذریعے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ امریکہ نہ صرف عالمی تجارتی نظام کا فائدہ اٹھانے والا ملک ہے ، بلکہ خدمات کے شعبے میں بھی اسے واضح برتری حاصل ہے۔

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی ڈائریکٹر جنرل کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں امریکہ کی خدمات کی برآمدات نے ایک ٹریلین امریکی ڈالر سے تجاوز کیا، جو عالمی خدمات کی تجارت کا 13 فیصد ہیں۔ بڑی معیشتوں کے ساتھ خدمات کے شعبے میں امریکہ کا تجارتی سر پلس زیادہ ہے اور 2024 میں اس کا کل سرپلس تقریباً 300 ارب امریکی ڈالر تھا۔

اس سے بھی زیادہ توجہ طلب بات یہ ہے کہ امریکہ کو اعلیٰ اضافی قیمت والی خدمات کے شعبے میں اور بھی زیادہ برتری حاصل ہے۔دانشورانہ املاک کے استعمال اور لائسنس کی فیسوں سے امریکہ کی سالانہ آمدنی 144 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ بنتی ہے جو دیگر ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ سو تجارتی خسارہ کیسے اور کہاں ہو رہا ہے یہ بھی ایک سوال ہے۔

ڈاکٹر ایوب مہر ایک معروف ماہر معاشیات ہیں جو کئی عالمی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تحفظ پسندی کی جس راہ پر چلنے کا آغاز امریکہ نے کیا ہے اس کا مستقبل کسی صورت تابناک نظر نہیں آتا کیوں کہ ایسی کوئی مثال دنیا کی حالیہ تارٰیخ میں ملتی ہی نہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خود ڈبلیو ٹی او کے قوانین میں یہ شق موجود ہے کہ اگر کوئی ملک یہ دعوی کرتا ہے کہ اسے تحفظ پسندی کی ضرورت ہے تو ڈبلیو ٹی او اپنے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اسے کچھ وقت کی اجازت دے سکتا ہے تا وقت کہ اس ملک کی معیشت خطرات سے باہر آجائے۔

ویسے میرا ماننا ہے کہ ٹیرف کے اس معاملے میں اصولوں اور ضابطوں کی کوئی حیثیت ہے ہی نہیں تو ان کا ذکر کیا کرنا۔ یہاں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی صورتحال ہے اور طاقت کے اس کھیل میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ امریکہ کی پہل کے بعد دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو گی۔

یہ تقسیم مفادات کی بھی ہو سکتی ہے اور اصولوں کی بنیاد پر بھی۔وقت بتائے گا کہ دنیا اس صورتحا ل کا مقابلہ کیسے کرتی ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اس سارے معاملے میں اصل کھیل وقت کا ہی ہے۔امریکی ٹیرف سے متاثرہ ممالک نے اگر مشکل وقت ثابت قدمی اور نئے مواقع پیدا کرنے میں گزار ا تو کوئی شک نہیں کہ امریکا میں پیدا ہونے والا اندرونی دباؤ ہی امریکی انتظامیہ کو ان کی غلطی کا احساس دلا ئے گا کیوں کہ بیرونی دنیا ،اصول اور اخلاقی دباؤ طاقت کے نشہ کو زائل نہیں کر پایا ہے۔

از ۔۔ اعتصام الحق ثاقب 
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈبلیو ٹی او معاملے میں امریکی صدر کہ امریکہ کیوں کہ بات چیت ہے اور ہیں کہ

پڑھیں:

مستقبل میں پروٹیکٹڈ صارفین کی کٹیگری ختم ‘ بے نظرانکم سپورٹ پروگرام پر تعین کیلا جائیگا ِ سکر ٹر یک پاور 

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سیکرٹری پاور ڈویژن نے بجلی کے پروٹیکٹڈ صارفین کی کیٹیگری کو ختم کرنے کی خبروں کی تصدیق کر دی۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر کی زیر صدارت ہوا جس دوران سیکرٹری پاور ڈویژن نے بریفنگ دی۔  سیکرٹری پاور ڈویژن نے بتایا کہ پاکستان کے 58 فیصد صارفین 200 یونٹ استعمال کرنے والے ہیں جنہیں حکومت بجلی کے بل میں 60 فیصد تک سبسڈی دیتی ہے، گزشتہ چند سالوں میں پروٹیکٹڈ صارفین کی تعداد میں 50 لاکھ کا اضافہ ہوا۔ حکومت پروٹیکٹڈ صارفین کی کیٹیگری ختم کرنے پر کام کر رہی ہے، مستقبل میں بی آئی ایس پی کی بنیاد پر محفوظ بجلی صارفین کا تعین کیا جائے گا اور 2027ء سے غریب بجلی صارفین کو نقد رقم ملا کرے گی۔ آئی ایم ایف کو اضافی سستی بجلی فراہمی کیلئے 2  تجاویز دی ہیں، پہلی تجویزکے تحت موجودہ انڈسٹری کو دوسری شفٹ کے لیے عالمی ریٹ کے مطابق بجلی دی جا سکتی ہے، دوسری تجویز کے تحت نئی صنعتوں، کرپٹو اور ڈیٹامائننگ کو کم ریٹ دینے پر بجلی دی جا سکتی ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں مگر فی الحال انہوں نے تجویز پر کوئی جواب نہیں دیا، آئی ایم ایف سے منظوری ملنے کی صورت میں فوری طور پر کابینہ سے منظوری لی جائے گی۔ عمر ایوب نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کووڈ میں یہ سہولت فراہم کر چکی ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کی طرف دیکھنے کی بجائے خود فیصلہ کرے۔ شازیہ مری نے کہا کہ ملک میں اضافی بجلی دستیاب ہے تو ہر جگہ لوڈشیڈنگ کیوں کی جا رہی ہے۔ سانگھڑ میں 14 گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو رہی، تھر کے کوئلے سے سستی بجلی بنانے کاکام کئی سال تک مافیا کے دباؤ پر روکے رکھا، ساہیوال کوئلہ پلانٹ پر ہم نے احتجاج کیا مگر آج تسلیم کیاجا رہا ہے کہ یہ بے وقوفی تھی۔ سیکرٹری پاور نے کہا کہ تھر کے کوئلے سے سستی ترین بجلی مل رہی ہے اور تھر کے کوئلے سے مزید پاور پلانٹس چلانے کے لیے کام کیا جا رہا ہے، تھر کے کوئلے کو دیگر پاور پلانٹس تک لانے کے لیے ریلوے ٹریک بچھایا جائے گا جب کہ جامشورو پاور  پلانٹ کو بھی تھر کے کوئلے پر چلایا جائے گا۔ آئندہ 10 سالوں میں درآمدی فیول پر کوئی نیا پلانٹ نہیں لگے گا، حکومت کی ترجیح پن بجلی گھر اور مقامی کوئلہ پلانٹس ہیں۔ متبادل ذرائع توانائی والے پلانٹس کو بھی فروغ دیا جائے گا، صنعتی اور کمرشل صارفین پر کراس سبسڈی کا بوجھ کم کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے 200 یونٹ کے بعد سلیب بڑھنے پر وزارت سے مکمل بریفنگ طلب کر لی۔

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈارکی امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات, 40منٹ تک جاری رہنے والی ملاقات میں اہم امور پر گفتگو
  • اسحٰق ڈار واشنگٹن پہنچ گئے، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے آج اہم ملاقات طے
  • امریکہ کو اب فینٹانل کا سیاسی تماشہ بند کرنا چاہیے ، چینی میڈیا
  • امریکی صدر کا مختلف ممالک پر 15 سے 50 فیصد تک ٹیرف عائد کرنے کا اعلان
  • یونیسکو رکنیت ترک کرنے کا امریکی فیصلہ کثیرالفریقیت سے متضاد، آزولے
  • مغرب کی بالادستی اور برکس کانفرنس سے وابستہ دنیا کا مستقبل
  • امریکی ٹیرف میں اضافے کے باعث برآمدات میں کمی کا امکان ہے.ایشیائی ترقیاتی بینک
  • امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے تعلق ختم کر لیا
  • مستقبل میں پروٹیکٹڈ صارفین کی کٹیگری ختم ‘ بے نظرانکم سپورٹ پروگرام پر تعین کیلا جائیگا ِ سکر ٹر یک پاور 
  • امریکہ کی ایکبار پھر ایران کو براہ راست مذاکرات کی پیشکش