Express News:
2025-09-18@12:03:50 GMT

ٹیرف جنگ کا مستقبل کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2 اپریل کو نافذ کئے جانے والے ٹیرفس کو 90 روز کے لئے روک کر ممالک کے ساتھ بات چیت کے عمل کے آغاز کا کہا ہے اور عندیہ دیا ہے کہ وہ نافذ کردہ ٹیرف میں امریکی فائدے کے حامل نتائج حاصل کر کےاس معاملے کو حل کریں گے لیکن اس 90 روزہ مہلت میں چین شامل نہیں ہے۔

بقول امریکی صدر، چین نے امریکہ پر جوابی ٹیرف لگایا ہے اس لئے اس سے بات نہیں ہو سکتی ۔اس خبر کے آتے ہی کئی تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ ٹیرف پالیسی کا اصل مقصد شاید چین کو ہی ٹیرف پالیسی میں لانا اور اس پر دباؤ ڈالنا تھا کیوں کہ باقی تمام ممالک سے بات کرنا اور چین سے اعلانیہ ٹیرف جنگ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے مابین تجارتی برتری کی کوشش کی امریکی پالیسی کا واضح اعلان ہے۔

چین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ان کے دروازے بات چیت کے لئے کھلے ہیں لیکن یہ بات چیت باہمی احترام کے اصول پر ہونی چاہیے بصورت دیگر چین یہ لڑائی آخری دم تک لڑے گا۔

تاریخی طور پر دیکھیں تو چین کا رویہ خود سے منسلک ہر معاملے میں ایسا ہی ہے۔ چین کی بین الاقوامی سیاست کا ایک سب سے اہم پہلو ہی یہ ہے کہ چین کسی بھی معاملے میں بات چیت کے دروازے بند نہیں کرتا اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی تمام مسائل کا حل نکالا جائے اور ترقی اور تعاون کے عمل کو جاری رکھا جائے۔

میں یہ تو نہیں کہ سکتا کہ چین کو اس بار امریکی صدر کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے سے واقفیت نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ امریکی صدر کا رویہ مذاکرات والا نظر نہیں آرہا ،شاید اسی لئے چین کی جانب سے بھی اس بار سخت حکمت عملی اور جواب دیکھنے میں آرہا ہے۔

امریکی ٹیرف 34 فیصد ہوں، 125 یا 145 فیصد۔ جوابی ٹیرف 34 فیصد ہوں، 84 یا 125 فیصد، نقصان ہر حال میں دنیا کا ہی ہے۔ صدر ٹرمپ اپنی ہر میڈیا ٹاک اور تقریبات میں یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ امریکہ کے سرکاری خزانے میں روزانہ کی مد میں اربوں ڈالرز جمع ہو رہے ہیں لیکن وہ یہ نہیں بتا رہے کہ یہ اربوں ڈالر انہیں کون جمع کر وارہا ہے؟کیوں کہ ٹیرف میں بہر حال قیمت تو عوام نے ادا کرنی ہے۔

اب ہر فرد کا ایک ہی سوال ہے۔ اس ٹیرف جنگ کا مستقبل کیا ہے؟ چین سمیت تمام ممالک اور عالمی تجارتی تنظیموں کا یہ ماننا ہے کہ یکطرفہ پسندی کی یہ سوچ زیادہ عرصہ چل نہیں سکتی اور اس کا اختتام بھی اچھا نہیں ہو گا لہذا جتنا جلد ممکن ہو سکے اس سے جان چھڑانی چاہیئے۔

ماہرین معاشیات بھی اس بات پر حیران ہیں کہ خود سابق امریکی صدور کا قائم کیا ہوا ادارہ اور نظام جسے دنیا ڈبلیو ٹی او کے نام سے جانتی ہے اور ان سابق صدور کا تعلق بھی ریپبلکن پارٹی سے ہی تھا ،آج کیسے امریکہ مخالف ہو سکتا ہے؟۔ یا تو کھل کر اس بات کا اعلان کیا جائے کہ ہم نے جو نظام قائم کرنے کی کوشش کی تھی وہ بہتر نہیں تھا یا پھر یہ کہ جتنا فائدہ ہم نے اس کا حاصل کرنا تھا وہ کر چکے اس لئے اب اس کی ضرورت نہیں۔

تاہم ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آ رہا اور شائد آئے گا بھی نہیں کیوں کہ امریکہ کے حصے کے اس طرح کے کئی اعترافات ابھی تک باقی ہیں جو اس نے کرنے ہیں لیکن آج تک دنیا انہیں نہیں سن سکی، جیسے عراق میں کیمیائی ہتھیار نہیں تھے اور ہم نے حملہ کرتے ہوئے جو کہا وہ یا تو جھوٹ تھا یا پھر غلد معلومات۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے تو وہ جھوٹ ہی کیا جس کا اعتراف کر لیا جائے۔

اس ضمن میں ایک بات قابل توجہ ہے کہ انٹرنیشنل میڈیا میں کچھ اداروں نے یہ نشاندہی کی ہے کہ 2 اپریل کو امریکی صدر نے ٹیرف کی جو فہرست دنیا کے سامنے اٹھا رکھی تھی اس کی تیکنیکی تحقیق میں کئی فاش غلطیاں ہوئی ہیں اور ان پر اٹھنے والے اعتراضات پر بھی انتظامیہ کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔

اسی طرح ڈبلیو ٹی او کی ڈائریکٹر جنرل نے اپنے حالیہ ایک مضمون میں کہا ہے کہ امریکہ کا تجارتی خسارے اور نقصان کا دعوی غلط ہے۔اپنے مضمون "امریکہ تجارت کا سب سے بڑا فاتح ہے " میں اینگو جیا اوکونجو ویلا نے تفصیلی اعداد و شمار کے ذریعے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ امریکہ نہ صرف عالمی تجارتی نظام کا فائدہ اٹھانے والا ملک ہے ، بلکہ خدمات کے شعبے میں بھی اسے واضح برتری حاصل ہے۔

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی ڈائریکٹر جنرل کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں امریکہ کی خدمات کی برآمدات نے ایک ٹریلین امریکی ڈالر سے تجاوز کیا، جو عالمی خدمات کی تجارت کا 13 فیصد ہیں۔ بڑی معیشتوں کے ساتھ خدمات کے شعبے میں امریکہ کا تجارتی سر پلس زیادہ ہے اور 2024 میں اس کا کل سرپلس تقریباً 300 ارب امریکی ڈالر تھا۔

اس سے بھی زیادہ توجہ طلب بات یہ ہے کہ امریکہ کو اعلیٰ اضافی قیمت والی خدمات کے شعبے میں اور بھی زیادہ برتری حاصل ہے۔دانشورانہ املاک کے استعمال اور لائسنس کی فیسوں سے امریکہ کی سالانہ آمدنی 144 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ بنتی ہے جو دیگر ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ سو تجارتی خسارہ کیسے اور کہاں ہو رہا ہے یہ بھی ایک سوال ہے۔

ڈاکٹر ایوب مہر ایک معروف ماہر معاشیات ہیں جو کئی عالمی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تحفظ پسندی کی جس راہ پر چلنے کا آغاز امریکہ نے کیا ہے اس کا مستقبل کسی صورت تابناک نظر نہیں آتا کیوں کہ ایسی کوئی مثال دنیا کی حالیہ تارٰیخ میں ملتی ہی نہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خود ڈبلیو ٹی او کے قوانین میں یہ شق موجود ہے کہ اگر کوئی ملک یہ دعوی کرتا ہے کہ اسے تحفظ پسندی کی ضرورت ہے تو ڈبلیو ٹی او اپنے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اسے کچھ وقت کی اجازت دے سکتا ہے تا وقت کہ اس ملک کی معیشت خطرات سے باہر آجائے۔

ویسے میرا ماننا ہے کہ ٹیرف کے اس معاملے میں اصولوں اور ضابطوں کی کوئی حیثیت ہے ہی نہیں تو ان کا ذکر کیا کرنا۔ یہاں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی صورتحال ہے اور طاقت کے اس کھیل میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ امریکہ کی پہل کے بعد دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو گی۔

یہ تقسیم مفادات کی بھی ہو سکتی ہے اور اصولوں کی بنیاد پر بھی۔وقت بتائے گا کہ دنیا اس صورتحا ل کا مقابلہ کیسے کرتی ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اس سارے معاملے میں اصل کھیل وقت کا ہی ہے۔امریکی ٹیرف سے متاثرہ ممالک نے اگر مشکل وقت ثابت قدمی اور نئے مواقع پیدا کرنے میں گزار ا تو کوئی شک نہیں کہ امریکا میں پیدا ہونے والا اندرونی دباؤ ہی امریکی انتظامیہ کو ان کی غلطی کا احساس دلا ئے گا کیوں کہ بیرونی دنیا ،اصول اور اخلاقی دباؤ طاقت کے نشہ کو زائل نہیں کر پایا ہے۔

از ۔۔ اعتصام الحق ثاقب 
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈبلیو ٹی او معاملے میں امریکی صدر کہ امریکہ کیوں کہ بات چیت ہے اور ہیں کہ

پڑھیں:

حکومت! فوج کو عوام کے سامنے نہ کھڑا کرے، حزب‌ الله لبنان

اپنے ایک بیان میں شیخ علی دعموش کا کہنا تھا کہ امریکہ کیجانب سے لبنان اور خطے پر مسلسل حملے، اس بات کا ثبوت ہیں کہ مزاحمت ایک قومی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب‌ الله" كی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ "شیخ علی دعموش" نے کہا کہ لبنان کی حکومت نے اس غلط فہمی پر انحصار کیا کہ امریکہ و اسرائیل کے خیال میں مزاحمت کمزور ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا كہ ہم بات چیت کے لئے تیار ہیں تاہم لبنان کو کمزور کرنے والی کسی تجویز کو قبول نہیں کریں گے۔ شیخ علی دعموش نے کہا کہ دشمن سمجھتا تھا کہ وہ فیصلوں، دباؤ، حملوں و جنگ کی دھمکیوں سے مزاحمت کو جھکا سکتا ہے اور ہمیں امریکہ و اسرائیل کے فیصلوں کو ماننے پر مجبور کر سکتا ہے۔ البتہ وہ حزب‌ الله و امل تحریک کی ثابت قدمی سے حیران رہ گئے اور اس سے بھی زیادہ، مزاحمت کے حامیوں کی ہتھیاروں سے وابستگی نے انہیں حیران کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کو نقصان پہنچانے کی حکومتی کوششیں اب رک چکی ہیں۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ مزاحمت دباؤ یا دھمکیوں سے ختم ہو سکتی ہے، وہ غلط فہمی میں ہیں۔ جو لوگ مزاحمت کو کمزور سمجھنا شروع ہو گئے ہیں وہ اور بھی زیادہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔

شیخ علی دعموش نے حکومت کو خبردار کیا کہ فوج کو استقامتی محاذ کے خلاف استعمال نہ کریں اور اسے اپنے ہی عوام کے سامنے نہ کھڑا کریں۔ فوج کا کام ملک پر حملے روکنا، اندرونی امن قائم رکھنا اور استحکام کو یقینی بنانا ہے، نہ کہ عوام سے لڑنا۔ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ قومی سطح پر دفاعی حکمت عملی پر بات چیت ہو اور ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ ہم کوئی ایسا مشورہ قبول نہیں کریں گے جو لبنان کی طاقت کو کم کرے۔ انہوں نے کہا کہ استقامتی محاذ سے ہتھیاروں کی حوالگی کے معاملے پر کوئی چالاکی یا ہوشیاری نہیں چلے گی۔ ہم یہ قبول نہیں کریں گے کہ ہماری طاقت اور دفاعی صلاحیتیں، ہم سے چھین کر امریکہ و اسرائیل کے فائدے کے لئے استعمال ہوں۔ ہم یہ بھی قبول نہیں کریں گے کہ لبنان ایک کمزور اور شکست خوردہ ملک بن جائے جس پر آسانی سے اندرونی یا بیرونی حملے کئے جائیں۔ آخر میں انہوں نے زور دیا کہ امریکہ کی جانب سے لبنان اور خطے پر مسلسل حملے، اس بات کا ثبوت ہیں کہ مزاحمت ایک قومی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت! فوج کو عوام کے سامنے نہ کھڑا کرے، حزب‌ الله لبنان
  • مستقبل کی بیماریوں کی پیشگی شناخت کے لیے نیا اے آئی ماڈل تیار
  • غزہ میں کسی معاہدے کا امکان نہیں، کارروائی میں توسیع کریں گے: اسرائیل نے امریکہ کو بتا دیا
  • اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، خواجہ آصف
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں، ایران
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
  • قطرمیں اسرائیلی حملہ امریکہ کی مرضی سے ہوا،خواجہ آصف
  • امریکہ کی ایماء پر غزہ شہر پر اسرائیل کے زمینی حملے کا آغاز
  • امریکی انخلا ایک دھوکہ
  • دوحہ پر حملے سے 50 منٹ پہلے صدر ٹرمپ کو خبر تھی، امریکی میڈیا کا دھماکہ خیز انکشاف