ایک پاگل تھا، پاگل ہی تھا کیوں کہ وہ جو کچھ کرتا تھا، بولتا تھا ، وہ پاگل ہی کرتے ، دانا، ہوشیار اورعقل مند نہیں کرتے۔ وہ نہ جانے کہاں سے آیا تھا ، گاؤں کے کنارے قبرستان کے پاس جوتے گانٹھنے کا اڈہ لگائے ہوئے تھا، جوتے بڑے کمال کے گانٹھتا تھا اورپیسے بھی بہت کم لیتا تھا، اس لیے لوگ اچھی تعداد میں آتے تھے۔
ایک دن گاؤں کے کچھ شریر لڑکوں نے سوچا کہ یہ بہت کماتا ہے، اس کے پاس بہت مال ہوگا لیکن اڈے کی تلاشی لی تو کچھ بھی نہ ملا چنانچہ غصے میں اس کے سارے آوزار لے جاکر کہیں دبادیے۔ بیچارے کے پاس آوزار نہ رہے تو مزدوری کرنے لگا لیکن یہاں سارے مزدور اس کے دشمن ہوگئے کہ وہ ان کی طرح کام چوری نہیں کرتا تھا، جی جان لگا کر کام کرتا تھا۔ مزدوروں نے اسے اپنے ڈھب پر لانا چاہا لیکن اس نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں حق حلال روزی کماؤں گا ۔
آخر مزدوروں نے جب دیکھا کہ وہ پورا کام کرکے مالکوں کوخوش کرتا ہے اورہمارے بارے میں بدظن کررہا ہے تو ایک دن اس کی جھونپڑی میں گھس کر اسے خوب مارا پیٹا اورجو کچھ ہاتھ لگا، وہ بھی لے گئے لیکن اسپتال میں اس نے کسی پر الزام نہیں لگایا، تشدد کرنے والے مطمئن ہوگئے کہ ہماری نقاب پوشی کی وجہ سے اس نے ہمیں پہچانا نہیں ہے لیکن جب وہ دکھاوے کی عیادت کے لیے گئے تو اس نے کہا، میں نے تم سب کو پہچانا ہے اورمعاف بھی کردیا ہے لیکن استدعاکرتا ہوں کہ راہ راست پر آجاؤ، حرام کی مت کماؤ ،حلال میں برکت ہوتی ہے ۔
وہ متعجب ہوکر بولے، جب تم نے ہمیں پہچان لیا تھا تو پولیس کے سامنے ہمارا نام کیوں نہیں لیا۔ جواب میں اس نے کہا ، پولیس والے تمہیں لے جاتے تو پیچھے تمہارے بچے پریشان ہوجاتے ، بھوک کاشکار بھی ہوجاتے، اس لیے ۔وہ لوگ اتنے ممنون اورمتاثر ہوگئے کہ انھوں نے بھی ایمانداری سے کام شروع کر دیا۔ وہ لڑکے جو اس کے اوزار لے گئے تھے، برے نہیں تھے، صرف بگڑے بچے تھے اوران ہی لوگوں کے تھے، انھوں نے بھی ایک دن چپکے سے اوزار اس کی چھونپڑی میں رکھ دیے ۔
اسپتال سے فارغ ہوکر اس نے پھر اپنا کام شروع کردیا، لوگوں کو اس بات پر حیرانی تھی کہ وہ پیسے کما کر لے جاتا کہاں ہے؟ اپنے اوپر تو ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرتا، پھر لوگوں کو آہستہ آہستہ پتہ چل گیا کہ وہ چپکے چپکے سے گاؤں کے غریبوں ، بیواؤں ، یتیموں اورمعذوروں پر اپنی کمائی خرچ کرتا ہے ۔ایک اورکام وہ یہ بھی کرتا تھا کہ گاؤں میں جہاں جہاں وہ راستے خراب دیکھتا، اسے ٹھیک کردیتا تھا، کوڑا کرکٹ بھی صاف کرتا تھا، کسی کے ہاں میت ہوتی، قبرکھودنے بھی لگ جاتا ، قبرستان کی شکستہ قبریں بھی ٹھیک کرتا تھا اوراس میں درخت بھی لگاتا تھا ،تھوڑے ہی عرصے میں قبرستان سایہ دار درختوں سے بھر گیا اورتجہیز و تکفین کو آنے والے جو پہلے دھوپ میں جلتے تھے ،اب سائے میں آرام سے رہتے۔ اپنے اڈے کے قریب قبرستان میں اس نے ایک کنواں بھی کھدوایا ، لوگ اب وہاں آسانی سے وضو بھی کرتے اورپانی بھی پیتے ۔ آہستہ آہستہ خاموشی سے لوگ اس سے متاثر ہونے لگے اوراسی کی طرح بننے کی کوشش کرنے لگے۔ لڑائی جھگڑے، حرام خوری کم ہوگئی۔ لوگ جو پہلے ایک دوسرے سے لڑتے تھے، حسد کرتے تھے، نفرت کرتے تھے، آپس میں شیر وشکر ہوگئے حالانکہ وہ کسی کو کچھ کہتا نہیں تھا ، لوگ خود بخود اس کے جیسے ہوتے گئے ۔ لیکن لوگوں کو اس بات سے بڑی حیرت ہوتی تھی کہ ایک تو وہ داڑھی نہیں رکھتا تھا، دوسرے نماز بھی نہیں پڑھتا تھا اور روزے بھی نہیں رکھتا تھا ۔
آخر ایک دن کچھ لوگ اس کے پاس گئے اورکہا کہ تم اتنے اچھے ہو،کبھی کوئی برا کام نہیں کرتے ہو، اتنا لوگوں کے کام آتے ہو، لوگوں کی مدد کرتے ہو یعنی ہرلحاظ سے اچھے ہو تو داڑھی کیوں نہیں رکھتے؟ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ اورروزے کیوں نہیں رکھتے؟ تھوڑی دیر تک وہ چپ رہا، سکون سے سب کچھ سن رہا تھا، پھر آہستہ آہستہ بولنے لگا ۔داڑھی میں اس لیے نہیں رکھتا کہ یہ میرے محبوب نبیﷺ کی پیاری سنت ہے اوراگر میں اسے اپنے اورگناہگارچہرے پر رکھ لوں اورپھر بھی گناہ کروں گا تو یہ میرے نبیﷺ کی اوران کی اس پاک محترم اور بابرکت سنت کی توہین ہوگی، تضحیک ہوگی، بے حرمتی ہوگی، لہٰذا کوشش کرتا ہوں خود کو اوراپنے چہرے کو اس کے لائق بناؤں اوراگر بن سکا تو پھر محبت، احترام اورفخر سے اپنے چہرے کی زینت بنالوں گا۔
اور نماز؟ لوگوں نے پوچھا ۔ہاں نماز۔۔۔ ؟ میرا خیال ہے کہ یہ نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی نہیں ہوگی کہ میں نمازی بن کر بھی ناجائز منافع خوری کروں، جھوٹ بولوں، اس کے احکام کی خلاف ورزی کروں، پیٹ میں حرام رکھوں ۔ اورہاں روزے؟ روزہ بھی صرف منہ کا نہیں ہوتا ، آنکھوں، زبان ،کانوں، ہاتھوں، پیروں اورذہن ودل کابھی ہوتا ہے اورخدا کو عملی طور پر یہ ثبوت دینا ہوتا ہے کہ ’’تمہارے حکم ‘‘پر میں جائزحلال چیزیں بھی استعمال کرنا بند کرسکتا ہوں تو ناجائز، ناروا اورحرام چیزیں کیوں نہیں چھوڑوںگا۔
میں ان محترم چیزوں کامنکر نہیں اورجب بھی خود کو ان کے قابل بناسکا، شروع کردوں گا ۔جب تک میں خود کو سدھار نہیں لیتا، دوسروں کو سدھرنے کے لیے کسے کہہ سکتا ہوں۔
کیا وہ واقعی پاگل تھا؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کیوں نہیں کرتا تھا ا ہستہ ایک دن کے پاس
پڑھیں:
وزیراعظم آزادیِ صحافت کے تحفظ، صحافیوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کیلئے پُرعزم
وزیراعظم شہباز شریف نے آزادیِ صحافت کے تحفظ اور صحافیوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آج کا دن ہمیں اس حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے کہ آزاد، باخبر اور ذمہ دار صحافت کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیاد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافی حقائق تک عوام کی رسائی کو ممکن بناتے ہیں اور سچائی کے علمبردار ہوتے ہیں، اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران ان کے خلاف تشدد، دھمکی یا انتقام پر مبنی جرائم دراصل آزادی اظہار پر حملہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اس موقع پر اُن تمام صحافیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے حق و سچ کی خاطر مشکلات برداشت کیں اور اُن اہلِ قلم و میڈیا ورکرز کے اہلِ خانہ سے اظہارِ یکجہتی کرتا ہوں جنہوں نے اپنے پیاروں کو فرضِ منصبی کے دوران کھو دیا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ حکومتِ پاکستان آزادیِ صحافت کے تحفظ اور صحافیوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کیلئے پُرعزم ہے، ہم ایسے تمام اقدامات کریں گے جن سے صحافیوں کے خلاف جرائم کی موثر تفتیش، انصاف کی فراہمی اور ان جرائم کے مرتکبین کے خلاف قانونی کارروائی یقینی بنائی جا سکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں بین الاقوامی برادری، میڈیا اداروں اور سول سوسائٹی سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ صحافیوں کے تحفظ اور اظہارِ رائے کی آزادی کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کریں، آزاد صحافت ایک مضبوط، شفاف اور جمہوری پاکستان کی ضمانت ہے۔