اسلام آباد (طارق محمود سمیر) استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا مرحلہ 18 گھنٹے طویل اجلاسوں کے بعد بغیر کسی حتمی نتیجے کے اختتام پذیر ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دوران افغان طالبان کے وفد نے متعدد مواقع پر پاکستان کے اس مؤقف سے اتفاق کیا کہ خوارج (ٹی ٹی پی) اور دہشت گردی کے خلاف مصدقہ، یقینی اور مشترکہ کارروائی ناگزیر ہے۔

ذرائع کے مطابق افغان وفد نے میزبانوں کی موجودگی میں بھی اس بنیادی نکتے کو درست تسلیم کیا، تاہم ہر بار کابل سے موصول ہونے والی ہدایات کے بعد ان کا مؤقف تبدیل ہو جاتا رہا، جس کے باعث بات چیت بار بار تعطل کا شکار ہوئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دوران کابل سے ملنے والے غیر منطقی اور ناجائز مشورے ہی مذاکرات کے بے نتیجہ رہنے کی اصل وجہ بنے۔ اس کے باوجود پاکستان اور میزبان فریقین اب بھی معاملے کو سنجیدگی، تدبر اور سفارتی دانشمندی سے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ ایک آخری کوشش جاری ہے تاکہ طالبان کی ہٹ دھرمی کے باوجود کسی منطقی اور پرامن راستے سے مسئلہ حل کیا جا سکے۔ مذاکرات کے ایک ممکنہ آخری دور کی تیاریوں پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: مذاکرات کے

پڑھیں:

طالبان کی ضد نے افغانستان کی معیشت ڈبو دی، کراچی کا راستہ بند ہونے سے اشیا کی لاگت دگنی ہوگئی

افغانستان کی معیشت، تجارت اور برآمدات طالبان حکومت کے غیر لچکدار فیصلوں اور غیر سنجیدہ حکمتِ عملی کے باعث شدید دباؤ کا شکار ہو گئی ہیں۔

افغان میڈیا آمو ٹی وی کے مطابق پاکستان کے ساتھ تجارتی راستوں کی مسلسل بندش اور متبادل مہنگے روٹس کے استعمال نے نہ صرف کاروباری طبقے کو بحران میں دھکیل دیا ہے بلکہ ملکی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان کے لیے کراچی بندرگاہ ہمیشہ سے سب سے سستا، محفوظ اور تیز ترین تجارتی راستہ رہی ہے، جہاں کابل سے مال کی ترسیل صرف 3 سے 4 دن میں مکمل ہوتی ہے اور ایک کنٹینر کی اوسط لاگت 2,000 ڈالر بتائی جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں ایران کے چاہ بہار پورٹ تک سفر 7 سے 8 دن میں مکمل ہوتا ہے جبکہ لاگت بڑھ کر تقریباً 4,000 ڈالر فی کنٹینر تک پہنچ جاتی ہے، یعنی کراچی کے مقابلے میں دوگنی ہوتی ہے۔

آمو ٹی وی کے مطابق گزشتہ دو ماہ سے پاکستان کے ذریعے افغان تجارت معطل ہے جس کے باعث ہزاروں کاروباری افراد بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

تاجروں کا کہنا ہے کہ موجودہ متبادل راستے—لیپس لازولی کارڈور یا شمالی تجارتی روٹس—نہ صرف طویل ہیں بلکہ کسٹم کارروائیوں اور فاصلوں کی وجہ سے لاگت میں کئی گنا اضافہ کر دیتے ہیں۔ روس اور بحیرہ اسود تک رسائی شمالی راستوں سے 15 سے 25 دن میں ممکن ہوتی ہے جسے تاجر غیر عملی قرار دیتے ہیں۔

ہوائی راہداری اگرچہ دستیاب ہے مگر اخراجات بہت زیادہ ہونے کے باعث برآمدات کے لیے مؤثر نہیں۔ ماہرین کے مطابق لاگت، وقت اور ترسیلی صلاحیت کے لحاظ سے کراچی بندرگاہ ہی افغانستان کے لیے اب بھی سب سے موزوں اور سستا روٹ ہے۔

تاجروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان کے ساتھ سرحد جلد نہ کھلی تو سپلائی چین مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی، جس کا براہ راست اثر روزگار، کاروبار اور افغان معیشت پر پڑے گا۔

ماہرین کا مؤقف ہے کہ موجودہ بحران دراصل طالبان حکومت کی ہٹ دھرمی، علاقائی تناؤ اور مسلح گروہوں کی پشت پناہی کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے جس کا خمیازہ افغان عوام بھگت رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • افغان علما اور طالبان حکومت کا بیرون ملک کارروائی کرنے والوں کو سخت پیغام، مضمحل فضا میں تازہ ہوا کا جھونکا
  • افغان علماکا حکومت پر اپنی زمین کسی  ملک کیخلاف استعمال نہ کرنے پرزور
  • افغانستان: عالمی دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر
  • پاکستان اور افغان طالبان میں روایتی معنوں میں جنگ بندی نہیں، دفتر خارجہ
  • پاک افغان تجارتی کشیدگی، اصل مسئلہ سرحد نہیں، دہشتگردی ہے
  • افغانستان سے دہشتگردی قومی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہے،پاکستان
  • افغان علماء، مشائخ کا مشترکہ اعلامیہ، بیرون ملک فوجی سرگرمیاں ممنوع قرار
  • پاکستان کے ذریعے تجارت معطل ہونے سے افغان تاجروں کو سخت مشکلات
  • طالبان کی ضد نے افغانستان کی معیشت ڈبو دی، کراچی کا راستہ بند ہونے سے اشیا کی لاگت دگنی ہوگئی
  • چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا افغان طالبان رجیم کو انتباہ: کیا یہ پالیسی میں نیا موڑ ہے؟