Express News:
2025-10-28@02:29:29 GMT

مذاکرات کی آڑ میں افغانستان کی منافقانہ پالیسیاں

اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT

پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان کے علاقے میں سرحد سے فتنۃ الخوارج کی دراندازی کی کوشش ناکام بناتے ہوئے 25 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا، جب کہ فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے 5 جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔

 یہ واقعہ نہ صرف سرحدی دفاع کے الفاظ کو عملی معنی دیتا ہے بلکہ اس عزم کا بھی مظہر ہے کہ پاکستان اپنی سرحدوں کے تحفظ کے لیے اوالعزم اور کسی قسم کے سودے یا سمجھوتے کے بغیرکھڑا ہے۔

سیکیورٹی فورسز کی جارحانہ کارکردگی اور جان نثاری کے بلند جذبے نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ جب قوم متحد ہوکر وطن کی عزت اور سالمیت کے سامنے کھڑی ہو تو دشمن کے ناپاک عزائم زمین بوس ہو جاتے ہیں۔

اس دوران یہ بات تکلیف دہ ہے کہ استنبول میں پاک افغان مذاکرات کے باوجود فتنۃ الخوارج کی دراندازی کی کوششیں جاری ہیں۔ مذاکرات کا مقصد اگر افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنا ہے تو محض سفارتی الفاظ کافی نہیں، عملی اور ٹھوس اقدامات درکار ہیں۔

پاکستان کی جانب سے جن خدشات کا اظہارکیا گیا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں، وہ نگرانی اور اکتسابِ حقیقت کی ضرورت کو بڑھاتے ہیں۔ یہ ایجنڈا اگر افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے خلاف ہے تو اسے فوری طور پر بے نقاب کر کے روکا جانا چاہیے۔

پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات پیچیدہ صورت حال کا شکار ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی جیسے کالعدم گروپوں، جن کے سرحد پار روابط ہیں، کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کی اموات کا سبب بن رہی ہے۔

دوسری جانب افغانستان سے ٹی ٹی پی یا بی ایل اے کے خلاف مطلوبہ ردعمل حاصل کرنے میں ناکامی ہمارے تعلقات میں خلیج پیدا کر رہی ہے۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی سب سے بنیادی حقیقت ہمیشہ 2600 کلومیٹر طویل سرحد رہی ہے۔

دوحہ معاہدہ محض ایک معاہدہ نہیں بلکہ ایک باقاعدہ پراسس تھا جس کو بتدریج آگے بڑھنا تھا۔ معاہدے میں طے ہوا تھا کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، جب کہ دوحہ معاہدے میں ٹی ٹی پی کا بھی حل نکالنا چاہیے تھا۔

اس معاہدے کو پبلک نہیں کیا گیا بلکہ پاکستان کو بھی آؤٹ رکھا گیا۔ پاکستان پورے دوحہ معاہدے کو سہولت کاری کے ذریعے آگے ضرور لے کرگیا اور سہولت کارکا کردار ادا کیا جس کے دو مقاصد تھے ایک امن ہو تو پاکستان کے لیے بہتر ہوجائے اور دوسرا افغانستان میں لڑائی ختم ہوجائے۔

افغان طالبان سے وابستہ تمام امیدیں اُن کے اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد ہی ختم ہونا شروع ہو گئی تھیں،کیونکہ اب بھی ٹی ٹی پی اور دیگر عسکری تنظیموں کے جنگجو حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتے ہیں۔

 اقوام متحدہ کی جانب سے جولائی 2024 کو رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان ٹی ٹی پی کو دہشت گرد گروپ تسلیم نہیں کرتے اور ان کے آپسی تعلقات انتہائی قریبی ہیں اور افغان طالبان پر ٹی ٹی پی کی امداد کا قرض ہے۔

بین الاقوامی طور پر دہشت گرد قرار دیے گئے، اس گروپ کے افغانستان میں چھ سے ساڑھے چھ ہزار جنگجو موجود ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ القاعدہ کے ارکان جن کے افغان طالبان کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں، وہ ٹی ٹی پی کو پاکستان میں کارروائیوں کے لیے مدد فراہم کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، ٹی ٹی پی نے بتدریج پاکستان کے خلاف حملوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اس وقت ٹی ٹی پی کی قیادت کی اکثریت افغانستان میں موجود ہے اور وہ افغانستان سے ہی پاکستانی ریاست کی سیکیورٹی فورسز اور چین کے پاکستان میں موجود انسٹالیشنز پر حملے کرنے میں ملوث ہیں، ان عوام دشمن قوتوں اور ان کی ریاست کے آلہ کار کے طور پر موجودگی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ افغانستان سمیت پاکستان کے تمام حصوں بالخصوص پشتون علاقوں میں ان کے خلاف شدید نفرت اور غم و غصہ موجود ہے، اگر ماضی میں سماج کے پسماندہ حصوں میں ان کے لیے کوئی حمایت تھی تو اب وہ بھی ختم ہو چکی ہے۔

اسی لیے 2021 میں ٹی ٹی پی کو جب خیبر پختون خوا کے علاقوں میں انسٹال کرنے کی کوشش کی گئی تو عوامی سطح پر ان کے خلاف شدید نفرت اور غم و غصے نے عوامی تحریکوں کی صورت میں اپنا اظہارکیا جس کی بنیاد پر ٹی ٹی پی اور ان کے آقاؤں کو منہ کی شکست کھانی پڑی، لیکن آج بھی یہی دہشت گرد گروپ پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھارت کی پشت پناہی سے دوبارہ دہشت گردی کے واقعات کروانے میں مصروفِ عمل ہیں۔

ٹی ٹی پی کے خلاف افغان طالبان اقدامات کرنے سے گریزاں ہیں اور انھیں پاکستان میں اپنی مداخلت کے آلہ کارکے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

افغان طالبان کا ایک گروہ یہ سمجھتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو ان کی تحریک اور عالمی جہادی تحریک کا ایک حصہ ہیں۔ یہ گروہ عددی اعتبار سے کافی بڑا ہے اورگزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان میں ٹی ٹی پی کی میزبانی اور قربانیوں کو بھولنے کو تیار نہیں۔

بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے ساتھ تحریک طالبان پاکستان کے قریبی روابط رہے ہیں اور حقانی نیٹ ورک ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بھی کارروائی کے حق میں نہیں ہے۔

اس کے علاوہ طالبان کے قندھاری اورکابل دھڑوں کے آپسی اختلافات بھی موجود ہیں اور وہ لوٹ مار میں زیادہ حصہ بٹورنے اور ٹی ٹی پی پر زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ یہ تضادات موجودہ صورتحال میں کسی طور پر بھی حل نہیں ہوں گے بلکہ لوٹ مار پر یہ لڑائی شدت اختیار کرتی چلی جائے گی۔

 اس وقت طالبان کی تمام تر دھڑے بندیوں میں منقسم ہونے کے ڈر سے ایک چیز پر مکمل اتفاق ہے اور وہ افغانستان میں جبرکے سلسلے کو جاری رکھا جائے کیونکہ طالبان کے پاس اس وقت جبر سے ہٹ کے ان کے پاس افغانستان کے تقریبا پانچ کروڑ عوام کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے مگر ایک طرف اگر طالبان جبر کر رہے ہیں تو دوسری جانب عوامی مزاحمت بھی اپنا اظہار کر رہی ہے۔

افغانستان میں تقسیم در تقسیم کی سیاست اِس وقت کے حکمرانوں سمیت تاریخی طور پر پرانے حکمرانوں کے حق میں ہی رہی ہے۔ دوسری جانب قوم پرستی کے نظریات اس وقت تاریخی طور پر متروک ہو چکے ہیں جو کہ اب نسل پرستی کی شکل اختیارکرتے جا رہے ہیں۔

یہ نظریات ایک طرف اگر حکمران طبقے کے نظریات ہیں تو دوسری جانب انھی نظریات کو عملی جامہ پہنانا حکمران طبقے کی خدمت کرنے کے مترادف ہے۔

 ثالثی اور بین الاقوامی معاہدے اعتماد سازی کے لیے ضروری ہیں، مگر جب ایک ریاست رسمی طور پر امن کا حامی بن کر بیک وقت جارحانہ یا خفیہ کارروائیوں کو سہارا دیتی ہے تو یہ رویہ منافقت کا درجہ اختیارکرلیتا ہے۔

منافقت کی بنیاد پر مبنی خارجہ پالیسی دیرپا نہیں رہ سکتی، اس کے نتیجے میں خطے میں عدم اعتماد بڑھتا ہے، اسٹرٹیجک توازن متاثر ہوتا ہے اور عسکری تقابل کی راہیں کھلتی ہیں۔

یہی وہ مقام ہے جہاں عالمی برادری، علاقائی تنظیمیں اور بین الاقوامی ثالثوں کی ذمے داری بڑھ جاتی ہے۔ ثالثی کا مطلب صرف دستخط کروانا نہیں، بلکہ یقین دہانی کرانا بھی ہے کہ طے پانے والی شرائط پر عمل درآمد ہوگا اور اگرکوئی فریق ان شرائط کی خلاف ورزی کرے تو مناسب اور موثر میکانزم موجود ہوں گے۔

افغان طالبان کی عبوری حکومت کسی اور ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ یہ وصف اطمینان بخش نہیں ہے، جب مذاکرات کا مقصد خطے میں امن و استحکام لانا ہو تو سامنے والا فریق ملکی اور علاقائی مفادات کے مطابق جوابدہ ہونا چاہیے،اگر افغانستان کی خارجہ پالیسی کسی تزویراتی ذہنیت کے تحت پڑوسی ممالک کے تحفظات کو خاطر میں نہ لائے بلکہ انھیں نٹ کھٹ بیانیوں اور تنازعہ انگیز عناصرکے ذریعے کم کر ڈالے، تو اس کے مضر اثرات محض دو ملکوں کا معاملہ نہیں رہے گا بلکہ پورے جنوبی ایشیا کا امن و ثبات خطرے میں پڑ جائے گا۔

 اگر افغانستان کسی بھی صورت میں پاکستان مخالف عناصرکے لیے محفوظ پناہ گاہ کا کردار ادا کرتا رہے یا بعض قوتیں اسے بطور پراکسی استعمال کریں تو یہ خطے میں امن و امان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، اگر ثالث محض رسمی تقریبات اور دستخطوں کا انتظام کر کے اپنے آپ کو مؤثر سمجھنے لگیں تو وہ اصلی مسئلے کی اصل جڑ تک نہیں پہنچ پائیں گے۔

ثالثی کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ متنازع امور کی بنیادی وجوہات کو دورکیا جائے، سیکیورٹی، معیشت اور سماجی محاذوں پر ایسے نظام بنائے جائیں جو کثیرالعلاقائی استحکام کو یقینی بنائیں۔

افغانستان سچ میں امن چاہتا ہے تو اسے خود بھی داخلی سطح پر شفافیت، ایک وفاقی روئے کار اور غیر ریاستی عناصر کی سرکوبی کے لیے عملی قدم اٹھانا ہوں گے۔ ورنہ یہ خدشہ وجود میں رہے گا کہ مذاکرات کے پردے تلے ہونے والی منافقانہ پالیسیاں خطے کی خوش حالی اور بقاء کو دائمی خطرے میں ڈال دیں گی۔ حکمت عملی، شراکت داری اور علاقائی مفادات کے احترام کا راستہ امن، ترقی اور باہمی اعتماد کے قیام کی جانب لے جائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افغانستان میں اگر افغانستان افغانستان کی افغان طالبان پاکستان میں پاکستان کے ان کے خلاف ٹی ٹی پی نہیں ہے رہے ہیں ہیں اور ہے اور کے لیے رہی ہے اور ان

پڑھیں:

طالبان رجیم کسی غلط فہمی کا شکار ہے۔۔۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے ساتھ جنگ ان کے مفاد میں نہیں، بلکہ دونوں طرف کے مسلمانوں کی مشکلات بڑھانے کا سبب ہے۔ چند ہزار جنگجووں کو سمجھایا جاسکتا ہے، انہیں مصروف رکھنے کیلئے کوئی کام حوالہ کئے جاسکتے ہیں اور ان کے ہاتھ سے بندوق لے کر کوئی اور ذمہ داری تھمائی جاسکتی ہے، نہ ماننے کی صورت میں ان سے معذرت کی جاسکتی ہے۔ بہرحال ایک آزاد، خود مختار، پرامن اور ترقی یافتہ افغانستان اس خطے کیلئے بہت اہم ہے۔ حسینی صاحب سے بہت اختلاف رہتا ہے، مگر یہاں ہماری یہی خواہش ہے، مگر وہاں سے اٹک تک قبضے کے لیے یلغار کے نعرے ہیں، دیکھتے ہیں کہ بات کہاں تک پہنچتی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

پاکستان کی لوکیشن ایسی ہے کہ جہاں یہ ایک ابھرتی سپر پاور کا پڑوسی ہے، ابتدا سے ہی انڈیا جیسے بڑے ملک نے اسے تسلیم نہیں کیا اور کوئی موقع ایسا نہیں  آیا کہ وہ ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہو اور اس نے نقصان نہ پہنچایا ہو۔ پچھلے چالیس سال کا تجزیہ کریں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ پاکستان نے یہ پالیسی بنائی کہ ہم پہلے ہی دو بڑی طاقتوں کے ساتھ ہیں، اب اگر افغانستان میں بھی کوئی بڑی طاقت آجاتی ہے تو یہ کسی صورت میں ہمارے مفاد میں نہ ہوگا۔ لہذا کسی بھی صورت میں افغانستان میں کسی بڑی طاقت کو ٹکنے نہیں دینا۔ پاکستان نے روس کے خلاف امریکی تعاون کا فائدہ اٹھایا۔ یہ سوال کیا جاتا ہے کہ پاکستان نے اس وقت امریکی جنگ لڑی، میرے خیال میں یہ بات مکمل درست نہیں ہے، یہ امریکہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جنگ بھی تھی۔

روس گوادر کا خواب لیے افغانستان  آیا تھا، یہ ہمارے لیے سلامتی کا معاملہ تھا، جسے ہم نے واپس ماسکو کا راستہ دکھایا۔ اس میں بہت سی بے اعتدالیاں ہوئیں، جن کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔ پھر امریکہ بہادر خود تشریف لے آئے، یہ بھی اسی پالیسی کی زد میں آگئے۔ ہم نے امریکہ کے اتحادی بن کر اسی کے دیئے ہوئے وسائل سے بقول جنرل حمید گل مرحوم، امریکہ کے تعاون سے افغانستان میں امریکہ کو شکست دی۔ یہ سب کچھ بہت خوبصورتی سے ڈیزائن کیا گیا۔ یہ بہرحال ایک بڑی کامیابی تھی کہ یورپ و امریکہ کے سامنے ہم نے ایٹمی پروگرام بنایا، چلایا اور دھماکے بھی کیے، مگر اپنی ضرورت ان کے لیے ایسے بنائے رکھی کہ اگر ہم سے بگاڑیں گے تو مسئلہ خراب ہو جائے گا اور روس طاقتور ہو کر سامنے آجائے گا۔

امریکہ ذلیل ہو کر افغانستان سے نکلا، ہم اور پورا خطہ کامیاب ہوئے کہ ایک بین الاقوامی استعمار یہاں سے چلا گیا۔ پاکستان کی پالیسی جسے اسٹریجک ڈیپتھ کہا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ افغانستان میں ہماری دوست حکومت ہو یا نہ ہو کم از کم ہماری دشمن حکومت نہیں ہونی چاہیئے۔ امریکہ کے بعد طالبان کو لانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ یہاں سے کم از کم ہمارے خلاف کارروائیاں نہیں ہوں گی اور خطہ کو تجارتی مرکز میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ طالبان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ابھی بھی گوریلا فورس کی طرح رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ خود کو ایک حکومت کے طور پر سمجھنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ وہ امریکہ کی جگہ ایک دشمن چاہتے ہیں، جو ان کی نظر میں پاکستان ہے۔ ویسے بھی افغانستان کی بڑی آبادی انہیں قبول نہیں کرتی۔ اس لیے انہیں کچھ ایسا چاہیئے، جس پر سب افغانستانی متحد ہو کر ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔

طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ فقط پاکستان دشنمی ہے۔ اٹک تک کے علاقے کا دعویٰ کرکے، دریائے کنڑ کا پانی بند کرنے کا اعلان کرکے وہ بار بار پاکستان سے گویا نظریاتی اور دیرپا تنازعات کو جنم دے رہے ہیں۔ پاکستان میں ہوئے مسلسل حملے اس باعث بنے کہ پاکستان نے براہ راست کابل میں کارروائی کی، جو طالبان کے وہم گمان میں بھی نہ تھی۔ اس کے جواب میں طالبان نے پاکستان پر حملہ کیا اور کئی چوکیاں اب پاکستان کے قبضے میں ہیں۔ قطر ہوئے مذاکرات سے جنگ رک گئی ہے۔ اب استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تین روز سے مذاکرات جاری ہیں۔ اس کے دوران دونوں فریقین کی جانب سے تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران افغان طالبان کو اپنا حتمی موقف پیش کر دیا ہے۔

اے پی پی کے مطابق سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے۔ پاکستانی وفد نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس (سرپرستی) کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔ پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے سرکاری خبر رساں ادارے کو مزید بتایا کہ طالبان کے دلائل "غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر ہیں۔ نظر آرہا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ سکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے۔ مذاکرات میں مزید پیشرفت افغان طالبان کے مثبت رویئے پر منحصر ہے۔ لگ یہ رہا ہے کہ طالبان کسی خبط عظمت کے زعم میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ وہ سمجھ رہی ہیں کہ انہوں نے روس کو اڑا دیا، انہوں نے امریکہ کو شکست دے دی، اب پاکستان تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔

جنگ کی معیشت پر قائم افغانستان کو وہ جنگ پر ہی رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ لڑائی جھگڑے سے انہیں انڈیا یا دوسرے پاکستان دشمنوں سے بلینک چیک کی صورت ماہانہ خرچہ ملتا رہے۔ طالبان یہ بھول رہے ہیں کہ روس کے خلاف وہ فقط پیادے تھے، جنگ کسی اور نے لڑی۔ اسی طرح امریکہ کے خلاف بھی جنگ میں وہ فقط پیادرے تھے، جنگ کہیں اور سے ترتیب دی جا رہی تھی۔ روس، امریکہ باہر سے آئی ہوئی قوتیں تھی، جنہیں بہرحال جانا ہی تھا۔ مزاحمت کے ایکسپرٹ بتاتے ہیں کہ نقصان کے اعتبار سے بھی طالبان نے امریکہ کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا، جتنا عراقیوں نے پہنچایا۔ اسی لیے امریکی جلد عراق چھوڑ کر بھاگے تھے۔ پاکستان کو کوئی جلدی نہیں ہے، ہم یہیں ہیں اور یہیں رہیں گے۔ ہم نہیں تو ہماری اگلی نسلیں یہیں رہیں گے۔ وقت کا عنصر گوریلہ جنگوں میں بہت اہم ہوتا ہے۔ اس وقت ہم سے غلطی ہوئی کہ سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھ دیئے۔

آپ ہمارے علاقوں میں گوریلے بھیج رہے ہیں، دو چار سال یہی صورتحال رہی تو آپ کے گوریلے ہی کابل و قندھار میں پھٹنے لگیں گے۔ بہت سے گروہ افغانستان میں موجود ہیں، جنہیں بس اشارہ درکار ہے اور وہ پرانی تنخواہ پر کام کے لیے بھی جلد میدان میں ہوں گے۔ ایک اہم عنصر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ افغانستان سے زیادہ پختون تو ہمارے ہاں موجود ہیں۔ آپ کی جنگ باہر کی فورس سے نہیں بلکہ مقامی پختون سے ہے۔ یقین نہ آئے تو پچھلے ایک ماہ کے شہداء کی فہرست پر نظر دوڑا لیں۔ اسّی فیصد پختون ہی ان حملوں میں شہید ہوئے ہیں۔ انڈیا کی شہ پر پاکستان پر حملہ کیا گیا، ویسے انہی سے پوچھ لیتے کہ آخری جنگ میں پاکستان نے ان کا کیا حال کیا ہے۔؟ ہم بنئے کی فطرت کو جانتے ہیں، وہ خود نہیں لڑتا، کسی اور کو آگے کر دیتا ہے۔ اسی لیے اس نے ہمیشہ سکھوں کو ہم سے لڑایا ہے۔

مذاکرات کے حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ اگر کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان پر عمل نہیں ہوگا۔ جو لوگ خانہ کعبہ میں معاہدہ کریں اور وطن پہنچنے پر پھر جائیں، وہ ہمارے ساتھ معاہدے کے پاسداری نہیں کریں گے۔؟ اس لیے بطاہر یہ لگ رہا ہے کہ معاملہ طول کھینچے گا۔ پاکستان کی ریاستی پالیسی سے لگ رہا ہے کہ ادارے لمبی جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بغیر کسی ابہام کے بالکل واضح کر دیا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو جنگ ہوگی۔ بلی چوہے کا کھیل نہیں چلے گا اور دو بدو مقابلہ ہوگا۔ جو میں نے لکھا یہ میری خواہش نہیں تجزیہ ہے اور جو ہوتا نظر آرہا ہے، اس پر میری رائے تھی۔ خواہش کا پوچھتے ہیں تو ہمارے دوست جناب ہمدرد حسینی جو پی ٹی آئی کے رہنماء اور عمران خان پر ایک کتاب کے مصنف پختون لکھاری اور دانشور ہیں، اس پوری صورتحال پر بہت ہی اچھا تجزیہ کیا ہے۔ ہماری خواہش بھی یہی ہے: افغان حکومت کی اصل کامیابی جنگ سے بچ کر تعمیر و ترقی یقینی بنانے میں ہے۔

ایک عرب مہمان کیلئے بیس برس کی جنگ اپنے ملک پر لادنا خلاف حکمت کام تھا۔ دوبارہ وہی غلطی نہیں دہرانی چاہیئے۔ حکمت کا تقاضا ہے کہ اس وقت ساری توجہ اپنے ملک کی فلاح و بہبود پر مرکوز کی جائے، بین الاقوامی برادری کے خدشات دور کیئے جائیں اور خصوصاً عورتوں کی تعلیم پر پابندی سے گریز کیا جائے، کیونکہ یہ قدم انہیں پہلے ہی بیرونی دنیا میں غیر مقبول بناچکی ہے اور اندرون ملک بھی انہیں زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان کے ساتھ جنگ ان کے مفاد میں نہیں، بلکہ دونوں طرف کے مسلمانوں کی مشکلات بڑھانے کا سبب ہے۔ چند ہزار جنگجووں کو سمجھایا جاسکتا ہے، انہیں مصروف رکھنے کیلئے کوئی کام حوالہ کئے جاسکتے ہیں اور ان کے ہاتھ سے بندوق لے کر کوئی اور ذمہ داری تھمائی جاسکتی ہے، نہ ماننے کی صورت میں ان سے معذرت کی جاسکتی ہے۔ بہرحال ایک آزاد، خود مختار، پرامن اور ترقی یافتہ افغانستان اس خطے کیلئے بہت اہم ہے۔ حسینی صاحب سے بہت اختلاف رہتا ہے، مگر یہاں ہماری یہی خواہش ہے، مگر وہاں سے اٹک تک قبضے کے لیے یلغار کے نعرے ہیں، دیکھتے ہیں کہ بات کہاں تک پہنچتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • استنبول میں طالبان اور پاکستان کے مذاکرات مسلسل تیسرے دن بھی جاری
  • طالبان رجیم کسی غلط فہمی کا شکار ہے۔۔۔
  • پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور: طالبان کے مسودے میں شامل دو بنیادی مطالبات کیا ہیں؟
  • دہشت گردوں کی سر پرستی نامنظور ہے؛ پاکستان نے افغانستان پر واضح کردیا
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور ترکیہ میں جاری
  • پاکستان نے افغان سرزمین سے دہشتگردی کے خاتمہ کا جامع پلان افغانستان کے حوالے کر دیا
  • پاک افغان مذاکرات کا دوسرا دور ختم، پاکستان نے طالبان کو دہشتگردی کی روک تھام کیلئے جامع پلان دیدیا
  • پاک-افغان مذاکرات کا دوسرا دور آج استنبول میں ہوگا
  • پاکستان، افغان طالبان مذاکرات کا دوسرا دور آج، افغانستان سے دہشتگردی روکنےکیلئے مانیٹرنگ میکنزم پربات ہوگی