WE News:
2025-06-09@19:35:26 GMT

ببو برال، جو جینا چاہتے تھے مگر۔۔

اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT

ببو برال، جو جینا چاہتے تھے مگر۔۔

عظیم کامیڈین کی 13 ویں برسی پر تحریر

‘ دوست چھوڑ گئے، حکومت کی طرف سے وعدے اور باتیں ہیں، بس موت کے دن گن رہا ہوں’ یہ الفاظ تھےآبدیدہ ہوتے ببو برال کے جو انہوں نے اپنی موت سے چند ماہ قبل ایک مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہے۔ دل برداشتہ ببو برال کا کہنا تھا کہ چند مخیر سینئر فنکار ان کا علاج کراسکتے ہیں لیکن لوگ مرنا بھول گئے ہیں۔

جوکمایا خرچ کردیا، علاج کے لیے رقم نہیں، کیا دکھڑا سناؤں، مجھ سے زیادہ دکھی روتے پھرتے ہیں۔ آنکھیں اشکبار ہوئیں تو یہ گنگناتےہوئے دل کا حال بیان کیا کہ ” جب بھی چاہیں ایک نئی صورت بنالیتے ہیں لوگ “۔ عظیم کامیڈین کا دل ریزہ ریزہ ہوچکا تھا۔

کبھی کبھار کوئی ٹی وی چینل یہ خبر شامل کرلیتا کہ اسٹیج کی دنیا کے ہرفن مولا کامیڈین ببوبرال کی صحت میں بہتری آنے لگی۔ پرستاروں سے دعائے صحت کی اپیل کی ہے۔ ایسے میں لاغر، کمزور اور نحیف ببو برال کی بستر علالت سے ایک ہنستی مسکراتی تصویر تو نشرکی جاتی لیکن اس ایک تصویر کے اندر چھپے ان گنت درد اور تکلیف کی جھلک نمایاں رہتی۔

ابھی ببو برال نے عمر کی پچاس بہاریں بھی نہیں دیکھی تھیں کہ پہلے جگر کےکینسر اور پھر گردوں اور شوگر کے امراض سے جنگ لڑنے لگے۔ اس علالت کے باوجود جہاں انہیں صحت اور وقت اجازت دیتا وہ کسی نہ کسی پلیٹ فارم پر اپنے فن کا اظہار کرنے کے لیے ہر دم تیار رہتے۔

یہ بھی اپنی جگہ منفرد اعزاز ہی ہوگا کہ ایک ایسا فنکار جو کئی بیماریوں میں گھرا ہوا تھا جب جب پرستاروں کے لیے منظر عام پر آتا تو طنز و مزاح ایسے کرتا کہ ہنستی مسکراتی آنکھوں سے آنسو چھلک جاتے۔ پل بھر کو ببو برال بھی اپنی بیماریاں بھول بیٹھتے اور بچوں کی طرح داد ملنے پرچہرے کی خوشی اور مسرت دیکھنے سے تعلق رکھتی۔

بھلا کوئی تصور کرسکتا ہے کہ گوجرانوالہ کے چھوٹے سے قصبے گکھڑ منڈی میں جنم لینے والا یہ باہمت نوجوان اپنے اصل نام ایوب اختر کی بجائے ببو برال سے کامیڈی کے افق پر جھلمائے گا۔ حس مزاح اور برجستہ مکالمہ بازی ایسی کہ ایک جملے پر آپ مسکراتے تو اگلا جملہ اس سے زیادہ کھکھلانے پر مجبور کردیتا۔

ببوبرال ابتدا سے حاضرجوابی اور شگوفہ بیانی میں اپنی مثال آپ تھے۔ 1982 میں گوجرانوالہ سے ہی اپنے سفر کی شروعات کی لیکن پھر احساس ہوا کہ اگر اپنے شہر تک محدود رہیں گے تو ممکن ہے کہ شہرت اور کامیابی سے کوسوں دور رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قسمت اور نام بنانے کے لیے لاہور کا رخ کیا۔ خوش نصیبی یہ ٹھہری کہ جمیل فخری سے ملاقات ہوگئی۔ جنہیں اس نوجوان کی برجستگی بھاگئی جبھی انہوں نے سب سے پہلے ببو برال کو اسٹیج پر موقع دیا۔

دیکھا جائے تو ببو برال نے اس ملنے والے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اسٹیج ڈراموں میں مستانہ، امان اللہ، خالد عباس ڈار اور سہیل احمد کی موجودگی کے باوجود اپنی جگہ خودبنائی۔ اسٹیج ڈراموں میں تماشائی ان لمحات کا بے چینی اور بے صبری سے انتظار کرتے جب ببو برال کی انٹری ہوتی۔ ہال تالیوں سے گونج اٹھتا۔ ان کے ایک ایک جملے پر قہقہے ہی قہقہے ملتے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط بھی نہ ہوگا کہ ببو برال تن تنہا اسٹیج ڈراموں کا بوجھ اٹھانے کی اہلیت رکھتے تھے۔ لیکن ان کی جوڑی مستانہ کے ساتھ خوب جچی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بیشتر ڈراموں میں مستانہ کی موجودگی ہوتی تو دونوں کے درمیان ایسی برجستہ جملے بازی ہوتی کہ گھنٹوں ہال میں بس تالیاں ہی تالیاں بج رہی ہوتیں۔

یہ ہنرببو برال میں تھا کہ وہ ایک بہترین کامیڈین ہی نہیں گلوکار، ہدایتکار اور لکھاری بھی تھے۔

جس طرح عمر شریف کی زندگی میں ” بکرا قسطوں پے” سنگ میل بن گیا تھا۔ اسی طرح ببو برال کے لیے ” شرطیہ مٹھے ” وہ اسٹیج ڈرامہ ثابت ہوا جس نے ان کے کیرئیر کو ایک نئی شناخت دی۔

صرف یہی ڈرامہ کیا ان کا ” ٹوپی ڈرامہ، بیوی نمبر ون اور عاشقوں غم نہ کرنا” نے جیسے ان کی مقبولیت میں اور اضافہ کردیا۔ یہی وجہ ہے اسٹیج ڈراموں کی شہرت انہیں فلموں تک کھینچ لائی۔ کوئی پچاس کے قریب فلمیں ہیں جن میں ببو برال بطور کامیڈین شامل ہوئے۔ ان میں مجھے چاند چاہیے، نو پیسہ نو پرابلم، کڑیوں کو ڈالے دانا، نکی جئی ہاں سمیت کئی ہٹ فلمیں شامل ہیں۔ ان کی آخری فلم 2010 میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم” چناں سچی مچی” تھی۔

ہنستا مسکراتا یہ فن کار پاکستان ہی نہیں سرحد کے اس پار یعنی بھارت میں ہی مقبول رہا۔ جہاں کے کئی کامیڈی اسٹیج شوز میں انہوں نے اپنے فن کا اظہار کیا۔ ببوبرال نے بطور گلوکار اپنی آڈیو البم ’’بیتیاں رتاں‘‘ بھی ریلیز کی۔ انہوں نے ثابت کیا کہ وہ ہرفن مولا فنکار ہیں۔

دیکھا جائے تو ببو برال کا فنی سفر تین دہائیوں پر مبنی ہے۔ انہوں نے 30 سال تک سینکڑوں اسٹیج ڈراموں اور متعدد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اپنے غم اور دکھ درد کو بھلا کر ہر چہرے پر مسکان لانے کا سبب بنے۔ ببو برال کی خوبی یہ بھی تھی کہ اسٹیج پر قوالی بھی بہت اچھے انداز میں پیش کرتے اور اگر ان کے ساتھ انور علی، شوکی خان اور دوسرے فنکار ہوتے تو جیسے اس قوال میں رنگ بھر آتا۔

ببو برال کا یہ فنی سفر جاری تھا کہ 2009 کے آس پاس وہ کئی بیماریوں کا شکار ہونے لگے۔ شوگر ہوئی پھر گردے کے عارضے میں مبتلا ہوئے۔ اور کینسر بھی حملہ آور ہوا۔ ان بیماریوں نے اس ہنس مکھ فنکار کو جیسے مرجھا دیا۔ ڈاکٹروں نے گینگرین کی وجہ سے اُن کے بائیں پاؤں کی تین انگلیاں آپریشن کے ذریعے کاٹ دیں تھیں۔ جس کی وجہ سے انہیں چلنے پھرنے میں مشکل آتی۔ ڈاکٹروں نے اُن کی ٹانگ کاٹنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن غنودگی کی وجہ سے یہ آپریشن نہیں کیا جا سکا۔

ببو برال کے علاج کے لیے حکومتی سطح پر اعلانات تو بہت ہوئے لیکن اپنے اخباری انٹرویو میں انہوں نے بتادیا کہ یہ صرف ‘اعلانات’ کی حد تک محدود تھے۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ فنکاروں کے حلقہ احباب نے بھی ان سے آنکھیں پھیر لیں۔ روایتی بے حسی کی وجہ سے ببو برال 16 اپریل 2011 کو خاموشی سے اس دنیا سے منہ موڑ گئے۔

یہ المناک داستان کا اختتام نہیں بلکہ ببو برال کی موت کے 8 سال بعد بعد ان کی صاحبزادی مریم پر بھی دکھوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ جنہوں نے لاہور کے مقامی تھانے میں یہ رپورٹ درج کرائی کہ شوہر ساقی خان مار پیٹ کرتا ہے، تشدد کے باعث وہ اپنا نومولود بیٹا بھی گنوا بیٹھی ہےجبکہ تشدد سے چہرے اور بازو پر نشانات بھی آئے ہیں۔ اور پھر رواں برس ببو برال کے بیٹے نبیل برال نے مالی امداد کے لیے حکومت سے اپیل کردی۔ مرحوم اداکار ببو برال کے بیٹے نبیل برال کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ جس میں نبیل برال کا ایک بازو نہیں اور دونوں ٹانگیں بھی زخمی ہیں۔ نبیل کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر کے کمانے والے اکلوتے مرد ہیں۔ والدہ اور بہنیں بھی ہیں۔ حکومتی اتھارٹی، این جی او یا کوئی اور مدد کرے۔ کیونکہ ان کا ایک بازو حادثے میں کٹ گیا تھا توہ وہ معزوری کا سامنا کررہے ہیں۔ دونوں ٹانگیں جلی ہوئی ہیں۔ چل پھر بھی نہیں سکتے۔ اب اسے بےحسی ہی کہیے کہ اب تک نبیل برال کی مدد کے لیے کسی نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔

ببوبرال ساری عمر خود بھی دکھوں اور بیماریوں سے گھمسان کی جنگ لڑتے رہے اور اب ان کی اولاد بھی پریشانی اور مالی دشواریوں سے دوچار ہے۔ کامیڈین ببو برال کو گزرے کم و بیش تیرہ سال بیت گئے ہیں اور ان برسوں میں کوئی ایسا فنکار نہیں جو ان کا متبادل ثابت ہوسکے۔ آخر کسی فنکار کا کوئی متبادل ہو سکتا ہے، بھلا؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسٹیج ڈراموں ببو برال کی ببو برال کے نبیل برال کی وجہ سے انہوں نے برال نے برال کا تھا کہ کے لیے

پڑھیں:

زباں فہمی251  ؛  بقرہ عید، بقر عید۔یا۔ بکرا عید

بفضلہ تعالیٰ ہر سال کی طرح اِمسال بھی ہم عیدالاضحٰی یا بقرعید کی خوشیاں منارہے ہیں اور تب تک مناتے رہیں گے جب تک اس دنیائے فانی میں موجود ہیں۔ ’’آخرت کی خبر، خُدا جانے‘‘ کے مصداق دوسرے جہان میں عید کے تصور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ راقم نے ماقبل اپنے سلسلہ زباں فہمی میں، متعدد بار عیدالاضحی یا بقرعید (عیدِ قرباں، بقرہ عید۔یا۔ بکرا عید) عُرف ’بڑی عید‘ کے موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے ، مگر جس طر ح ہر سال، اس مقدس موقع پر قربانی ضروری ہے۔

 اسی طرح قربانی کے مسائل اور دیگر متعلقات پر ہر مرتبہ لکھا جانا اور دُہرایا جانا بھی ضروری ہے۔ ہم لوگ یوں بھی سال بھر میں ایک مرتبہ ’چھوٹی‘ اور ایک مرتبہ ’بڑی عید‘ مناتے ہیں تو یہ منظر بہت جگہوں پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ نمازِعید میں کئی افراد ، ’تکبیراتِ واجب‘ کی تعدادوترتیب بھُول جاتے ہیں ۔اس موقع پر ایک بہت ہی پیاری شخصیت کی یاد تازہ کرتا چلوں۔ فیڈرل ’بی‘ ایریا کی جامع مسجد رضوان کے خطیب مولانا سراج مرحوم (اگر مجھے نام صحیح یاد ہے تو) ، اپنے بزرگ معاصر جناب احتشام الحق تھانوی کی پیروی میں بعینہٖ اُسی طرح میٹھے (بلکہ اُن سے بھی زیادہ مٹھاس بھرے) لہجے میں جمعہ وعیدین کے موقع پر وعظ فرماتے تھے۔

وہ اس حد تک مقبول تھے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اَپنی مساجد چھوڑ کر بطورِخاص اُن کی اقتداء میں نمازِعید پڑھنے جاتی تھی۔ مجھے بھی کئی مرتبہ اتفاق ہوا۔ {حضرت صلوٰۃ وسلام کے قائل اور شائق تھے۔ ہماری نوجوانی کے معروف بزرگ میلادخواں جناب مُسافر لودھی (والدِ سلیم لودھی گلوکار) کو خاص طور پر اپنے حُجرے میں بُلواکر سلام سُنا کرتے تھے، جبکہ مُسافر صاحب ( ایک مدت سے اُن کے متعلق کوئی خبر نہیں، اللہ اُن پر رحم کرے) ہماری جامع مسجد غفران (بلاک 16، فیڈرل ’بی ‘ ایریا، عُرف واٹرپمپ) سے منسلک اور اُسی علاقے کے مکین تھے جہاں خاکسار نے بھی عین نوجوانی میں بطور میلادخواں اور بانی ومنتظم بزم غفران نام کمایا}۔ آمدم برسرمطلب! حضرت بہت دل چسپ پیرائے میں فرمایا کرتے ;’بھئی اگر کوئی بھُول جائے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں، آپ اپنے آگے والے نمازی کو دیکھیں، وہ اپنے آگے والے کو، اُس سے آگے والے، اپنے آگے والے کو (کہ رکوع کررہا ہے یا سجدہ) اور یوں شُدہ شُدہ سب امام کی صحیح اور بَروَقت تقلید کرلیں گے۔ بھئی اگر کوئی سہو بھی ہوجائے تو کوئی مسئلہ نہیں، آپ امام کے پیچھے کھڑے ہیں، یہ سب اُس کے ذمّے!

آج جب بقرعید پر لکھنے بلکہ کمپیوٹر پر ماؤس چلانے بیٹھا ہوں تو بہت سی نئی پُرانی باتیں سامنے آگئی ہیں۔ جی چاہا کہ حسبِ معمول عیدین پر ماقبل لکھے گئے اپنے ہی مضامین سے استفادے کی بجائے آغاز میں کوئی نئی چیز پیش کی جائے، سو اَپنے عالم دوست حافظ سلمان رضا صدیقی فریدی مصباحی، خطیب (مسقط ،عُمان ) کا ایک عمدہ کلام قارئین کی نذرکرتا ہوں۔ (حافظ صاحب بارہ بنکی، ہندوستان سے تعلق رکھنے والے زُودگو شاعر ہیں مگر اُن کے موضوعات فقط دینی ہوتے ہیں جن میں حالاتِ حاضرہ سے متعلق بعض مواد بھی شامل ہوتا ہے۔ کچھ عرصے سے رابطہ منقطع ہے، ویسے وہ میری ’بزم زباں فہمی‘ کے خاموش رُکن ہیں)۔ ملاحظہ فرمائیں کہ اُنھوں نے کس طرح بقرعید کے موقع پر اسلامی تعلیمات کا خلاصہ نظم کیا ہے:

ہم اپنی ساری غفلت کو چلو قربان کر ڈالیں

مزاجِ بے مُرَوَّت کو چلو قربان کر ڈالیں

نہ ہوں ہم مطمئن، بس جانور قربان کرنے سے

بدی کرنے کی عادت کو چلو قربان کر ڈالیں

بتاتی ہے ہمیں یہ ’’لَن یَّنَالَ اللّہ‘‘ کی آیت

غَرَض آلُود نِیّت کو چلو قربان کر ڈالیں

رضائے رب، رضائے مصطفٰی (ﷺ) سب سے مقدم ہو

یہاں ہم اپنی چاہت کو چلو قربان کر ڈالیں

 گَلا کاٹیں، اِسی قربانی میں اپنی ’’اَنَا‘‘ کا بھی

تکبر اور نَخوت کو چلو قربان کر ڈالیں

ہمارے واسطے یہ درس لے کر بقرعید آئی

کہ ہر دنیاوی رغبت کو چلو قربان کر ڈالیں

ہماری اپنی مرضی کا نہ کوئی دخل ہو اِس میں

شریعت پر طبیعت کو چلو قربان کرڈالیں

اگر چلنا ہے ابراہیمؑ و اسماعیلؑؑ کے رستے

زمانے کی ہر الفت کو چلو قربان کرڈا لیں

چلو ہم مُتّحِد ہوکر، کریں باطل کی سر کوبی

ہر اک شکوہ شکایت کو چلو قربان کر ڈالیں

کھڑے ہوں جرأتوں سے قوم وملت کی مدد کو ہم

خموشی اور دہشت کو چلو قربان کرڈالیں

دلیری اور خودداری میں پنہاں ہے وقار اپنا

تَمَلُّق اور لَجاجَت کو چلو قربان کرڈالیں

ہمارا ہر عمل، اخلاص ہی کے دائرے میں ہو

ریاکاری کی فطرت کو چلو قربان کرڈالیں

بَراہیمی صفت پیدا کریں کردار کے اندر

جہاں کی ہر محبت کو چلو قربان کر ڈالیں

ذبیحُ اللّہ سے سیکھیں اطاعت آشنائی ہم

کہ جان و دل کی ثَروت کو چلو قربان کر ڈالیں

ہمارا جینا مرنا، ہو فقط اللہ کی خاطر

ہر اک خواہش کو، لذت کو چلو قربان کر ڈالیں

فریدی! عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ کر ہم

خِرَد کی ساری حُجَّت کو چلو قربان کر ڈالیں

(حافظ سلمان رضا صدیقی نے اس دل نشیں کلام میں ’دُنیاوی‘ لکھا ہے جو درحقیقت ’دُنیَوی ‘ ہے، مگر غالباً اُن کے پیش نظر غلط العام ہی ہوگا اور عروضی اعتبار سے سقم کا بھی خدشہ ہوگا)

عیدالاضحیٰ کے لسانی موضوعات متعدد ہیں جن پر یہ خاکسار خامہ فرسائی کرتا رہا ہے، مگر اعادہ بھی ضروری سمجھتا ہے۔ نکتہ وار عرض کرتا ہوں:

ا)۔ اس تہوار (اگر قبلہ مفتی اعظم پاکستان پروفیسر مفتی منیب الرحمٰن صاحب، اس لفظ کے استعمال پر بُرانہ مانیں تو) کا نام بھی بہت تنوع کے ساتھ مشہور ہے۔ ہرچندکہ یہ معروف معنیٰ میں تہوار (تیوہار) نہیں، مگر کیا کریں صاحبو! کوئی اور لفظ سُوجھتا بھی نہیں۔ خیر! تو جناب ہم اسے بقرہ عید کہہ کر گائے سے منسوب کرتے ہیں اور یوں بھی کم از کم پاکستان میں گائے کی قربانی کا رواج بوجوہ بہت زیادہ ہے۔ بقرہ کے نام پر سورۃ البقرہ ہے جو قرآن مجید کی دوسری سورت ہے اور احکام کے لحاظ سے بہت اہم بھی۔ پھر اِس کا ایک مختصر نام ’بقرعید‘ ہے ، لیکن یہ نام ’بکراعید‘ کیسے ہوا، اس بابت دوم مختلف ومتضاد آراء سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اصل نام ’بقرہ عید‘ سے بگڑکر ’بکرا عید‘ بنا، (عوام تو بقرِید، بکرِید اور بخرِید بھی بولتے ہیں)، دوسری یہ کہ بقول بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق صاحب، یہ بکرے کی نسبت سے بکرا عید ہی ہے۔

راقم نے اس سے قبل بھی اس بارے میں اظہارِخیال کیا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ مولوی موصوف نے انگریز سرکار کے عہد میں، گائے کے ذبیحہ پر شروع کیے جانے والے، ہندومسلم فسادات کے بعد، گائے کی قربانی کے رجحان میں کمی اور پھر اس کے خاتمے ہی کا سارا منظرنامہ پیش نظر رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان انگریز کی حکومت سے قبل، اپنی مرضی سے گائے کی قربانی کیا کرتے تھے، ہندوؤں کو کوئی اعتراض نہیں تھا، پھر جب انگریز نے ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کے اصول کے تحت ان دو قوموں کو مذہب او ر زبان کی بنیاد پر ایک دوسرے کا دشمن بنادیا تو یہ مسئلہ اس قدر سنگین ہوگیا کہ ایک مرتبہ ایم اے او کالج، علی گڑھ میں مسلمان طلبہ نے چندہ کرکے ایک گائے خریدی کہ بقرعید پر قربان کریں گے۔ سرسید کو معلوم ہوا تو وہ اپنی بیماری کے باوجود، فوراً موقع پر پہنچے اور لڑکوں کو ڈانٹ پھٹکار کرکے گائے لے جاکر قسائی کو واپس کی اور آئندہ کے لیے سخت تنبیہ کی۔

’حیاتِ جاوید‘ میں مذکور اِس واقعے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ سرسید ہر قیمت پر ہندومسلم یک جہتی چاہتے تھے، کیونکہ اُن کے نزدیک یہ دونوں ایک ہندوستانی قوم کے حصے تھے اور اُنھیں کسی صورت ہندوؤں کی دل آزاری گوارا نہ تھی، حالانکہ یہ مسئلہ مسلم عہداقتدار میں کبھی پیدا نہیں ہوا کہ مسلمان اپنی دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے محض اس لیے گریز کریں کہ دوسرے مذہب کا مقلد ناراض ہوجائے گا۔ ہندومسلم فساد ات (درحقیقت مُسلم کُش فسادات) کا سلسلہ بھی انگریز ہی کے دور میں شروع ہوا۔    

ب)۔ عید کے موقع پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ میں ’قسائی‘ شامل اور نمایاں ہے جسے سہواً قصائی لکھا جاتا ہے۔ اس بابت راقم اور سید اطہرعلی ہاشمی مرحوم نیز اُن کے شاگر درشید جناب احمد حاطب صدیقی کے کالم اور مضامین موجودہیں، انٹرنیٹ پر دیکھے جاسکتے ہیں، خلاصہ کلام یہ ہے کہ لسانی تحقیق کے مطابق یہ لفظ ’قصّاب‘ سے بگڑ کر ’قصائی‘ نہیں بنا بلکہ ’قساوت ‘ سے مشتق ہے، اس لیے قسائی صحیح ہے۔

اوروں کو چھوڑیں، نامور انگریز ماہرلغات فیلن S. W.Fallon] [ نے اس باب میں ٹھوکر کھائی ہے۔

[Fallon, S. W. A new Hindustani-English dictionary, with illustrations from Hindustani literature and folk-lore. Banaras, London: Printed at the Medical Hall Press; Trubner and Co., 1879].

یہاں اپنے پرانے مضمون (زباں فہمی نمبر 212بعنوان ’قصائی نہیں قسائی‘) کا اختتامی اقتباس نقل کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں:

قصائی اور قسائی کی بحث میں ایک دل چسپ اور ناقابل یقین انکشاف ہمارے ایک خُردمعاصر نے کیا۔ اُن کا خیال ہے کہ دِلّی والے ’’قصائی‘‘ کہتے اور لکھتے ہیں، جبکہ لکھنؤ والے ’’قسائی‘‘..... معلوم نہیں اُنھیں یہ اور ایسے ہی بعض دیگر نکات کس دلی والے یا لکھنؤ والے نے سُجھائے۔

اگر ایسا ہی ہوتا تو فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات اس وضاحت سے خالی نہ ہوتیں۔ بات کی بات ہے کہ یہ صاحب کچھ سال پہلے تک محض شعبہ تشہیر سے بطور ’’اخترا ع نگار‘‘ منسلک تھے (Creative Copywriter کا یہ اردو ترجمہ خاکسار نے کچھ عرصہ قبل کیا اور اپنے کالم میں استعمال بھی کیا تھا)۔ یکایک وہ اصلاح زبان کے موضوع پر خالص علمی نوعیت کے مضامین لکھنے لگے، خیر کوئی بھی لکھ سکتا ہے، پابندی نہیں، مگر مقام حیرت یہ ہے کہ وہ اہل زبان نہیں، بہرحال کوئی بات اگر مع حوالہ وسند نقل کی جائے تو غیراہل زبان کی تحریر بھی مسترد نہیں کی جاسکتی۔

ج)۔ عیدالاضحٰی کے مسائل میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم قربانی اس لیے کرتے ہیں کہ یہ اللّہ اور اُس کے رسول (ﷺ) کا حُکم ہے اور اِس میں بشرطِ استطاعت قربانی واجب ہے ;نصاب کا مسئلہ بھی بالکل واضح ہے۔ لادینیت، مذہبی بے راہ رَوی المعروف آزادخیالی یا Liberalismکے ماننے والے یہ کہہ کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ بے چارے جانوروں پر ظلم کرنے کی بجائے کسی غریب کی امداد کرنا بہتر ہے۔ یہاں مصلحتاً ایک بزرگ وکیل +سیاست داں کا ذکر بھی ناگزیر ہے جن کا ایک انٹرویو بہت مشہور ہوا تھا اور لوگ بغیر سوچے سمجھے اُن کی ہاں میں ہاں ملانے لگے تھے کہ ہمارے یہاں تو دادا کے وقت سے قربانی نہیں کی جاتی، بلکہ غریب کی مدد کرتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اُنھیں اور اُن کے اندھے مقلدوں کو اسلام کا پتا ہی نہیں، دوسری بات یہ کہ اُن کے پڑدادا نے ایک بے گناہ مسلمان کو قید اور پھانسی کی سزادِلواکر، انگریز سے انعام واکرام حاصل کیا تھا، ورنہ وہ معمولی حیثیت کے شخص تھے اور تیسری بات یہ کہ موصوف کا اسلام سے تعلق اس قدر کمزور ہے کہ اُنھیں سورۂ اخلاص بھی پڑھنی نہیں آتی، ہاں موئن جو دَڑو کی مشرکانہ تہذیب کو اَپنی تہذیب قرار دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے! جملہ معترضہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک مقدمے کی فیس ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے وصول کرنے والے ان صاحب نے کبھی کسی غریب کا مقدمہ بلامعاوضہ بھی لڑا ہے یا ساری ہمدردی محض بقرعید ہی پر یاد آتی ہے۔

د)۔ اگر بنظرِغائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ عیدالاضحٰی کے موقع پر قربانی کی مخالفت کے پیچھے بھی صہیونی یہود ی استعمار ہی کارفرما ہے۔ (یہ لفظ صہیونی ہے نہ کہ صیہونی، اس بارے میں بھی زباں فہمی کا ایک مکمل مضمون لکھ کر شائع کرواچکا ہوں، سوشل میڈیا پر پیغامات کے ذریعے بھی اس اہم سہو کی نشان دہی کئی بار کرچکا ہوں)۔ اس مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہود کے نزدیک ’ذبیح اللّہ‘ حضرت اسمٰعیل (علیہ السلام) نہیں، بلکہ حضرت اسحٰق (علیہ السلام) تھے۔ یہ بات مُحَرّف (تحریف شُدہ ) تورات میں اس طرح لکھی گئی ہے:

’’ابراہیم تُو اپنے بیٹے کو قربان کردے! ان تمام باتوں کے بعد خدا نے ابراہیم کو آزمایا۔ خدا نے آواز دی:’ابراہیم! ’ابراہیم نے جواب دیا،’میں یہاں ہوں‘۔ تب خدا نے اُس سے کہا کہ تیرا بیٹا یعنی تیرا اکلوتا بیٹا اسحاق کو، جسے تو پیار کر تا ہے موریاہ علاقے میں لے جا۔ میں تجھے جس پہاڑ پر جانے کی نشاندہی کروں گا وہاں جاکر اپنے بیٹے کو قربان کر دینا۔ (پیدائش 22) ۔اس عبارت میں اردو ترجمے کی اغلاط کے ساتھ ساتھ تاریخ کی گڑبڑ بھی توجہ طلب ہے۔ [Torah: Genesis 22- https://www.biblegateway.com]۔ بات آگے چلتی ہے تو یہ اَمر بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ وہ مسلمانوں اور اُن کے رسول (ﷺ) کے اس لیے بھی دشمن تھے یا ہیں کہ اُن کے خیال میں نبوت ورسالت کا سلسلہ بنی اسرائیل تک ہی محدود رہنا چاہیے تھا۔ {یہاں ایک اور دل چسپ انکشاف کرتا چلوں۔

دنیا بھر پر معاشی ومعاشرتی تسلط قائم کرنے کے لیے پیہم سرگرم عمل صہیونی درحقیقت مقامی (یعنی فِلَسطینی) ہیں نہ حقیقی یہودی۔ یہ ساری تحقیق اب انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ آج بھی توحیدپرست یہودیوں کا ایک فرقہ صہیونیت اور اِسرائیل کا مخالف اور مظلوم فِلَسطینیوں کا حامی ہے}۔ قربانی کے سہ روزہ عمل میں جانور فروش، قصاب، ذرائع نقل وحمل سے متعلق لوگ یعنی ٹرانسپورٹرز، کھالوں کے بیوپاری، چمڑے کے بیوپاری اور ان سب سے ذیلی طور پر مستفید ہونے والے لاتعداد مسلمانوں کو معاشی فائد ہ پہنچتا ہے۔ اندرون وبیرون ِملک سے اس موقع پر رقوم کی ترسیل کا سلسلہ بھی منفعت بخش ہے۔ ان نکات نیز اِسلامی تعلیمات کے پیش نظر، عیدالاضحی کی قربانی کا مقصد بالکل واضح ہوجاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟
  • ن لیگ عوام کو نہیں خود کو بیوقوف بنا رہی ہے: پرویز الہیٰ
  • پانی بند کرنے کی دھمکی جنگی اقدام تصور ہوگا؛ بلاول بھٹو نے مؤقف واضح کردیا
  • پنجاب میں ریسٹورنٹس اور شادی ہالز کی رجسٹریشن کا فیصلہ
  • زباں فہمی251  ؛  بقرہ عید، بقر عید۔یا۔ بکرا عید
  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام
  • نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر صائم بھی بول اُٹھے
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • انکار کیوں کیا؟