اسلام آباد ہائیکورٹ بار کا ٹرانسفر ججز کیخلاف درخواست واپس لینے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
اسلام آباد:ہائی کورٹ بار کی جانب سے ٹرانسفر ججز کے خلاف درخواست واپس لینے کا فیصلہ کرلیا گیا۔
نجی ٹی وی کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے ٹرانسفر ججز کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر آئینی درخواست واپس لینے کا فیصلہ کرلیا ہےا ور اس سلسلے میں آئینی پٹیشن واپس لینے کے لیے اتھارٹی لیٹر بھی جاری کر دیا ہے۔
ہائی کورٹ بار نے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ انیس محمد شہزاد کو آئینی درخواست واپس لینے کا اختیار دے دیا۔ بار کے صدر واجد گیلانی اور سیکرٹری منظور ججہ کے دستخط سے اتھارٹی لیٹر جاری کر دیا گیا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق کابینہ نے آئینی درخواست دائر کی تھی۔
ججز سنیارٹی کیس
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ججز سنیارٹی کیس میں آئینی درخواست واپس لینے کی درخواست داخل کر دی ۔ آئینی درخواست واپس لینے کا فیصلہ اسلام آباد بار کی مجلس عاملہ کے فیصلے کی روشنی کیا گیا ۔
درخواست کے متن کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل ججوں نے خود آئینی درخواست داخل کر دی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ متاثرہ فریق نہیں، لہذا سابق باڈی کی جانب سے دائر آئینی درخواست واپس کی جائے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کا 5رکنی آئینی بینچ 17اپریل کو ججز تبادلہ و سنیارٹی کیس کی سماعت کرے گا۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: درخواست واپس لینے کا فیصلہ آئینی درخواست واپس لینے اسلام آباد ہائی کورٹ ہائی کورٹ بار
پڑھیں:
اپیلز کورٹ: ٹرمپ کا پیدائشی شہریت ختم کرنے کا صدارتی حکم غیر آئینی قرار
وفاقی اپیلز کورٹ نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیدائشی شہریت (birthright citizenship) ختم کرنے سے متعلق صدارتی حکم نامے کو آئین سے متصادم قرار دے دیا ہے۔
یو ایس نائنتھ سرکٹ کورٹ آف اپیلز نے 2 کے مقابلے میں ایک جج کے اکثریتی فیصلے سے حکم جاری کیا۔
اگرچہ اس حکم نامے کو پہلے ہی عدالتوں نے معطل کر رکھا تھا، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ کسی اپیلز کورٹ نے اس صدارتی حکم کے قانونی جواز کا باقاعدہ جائزہ لیا ہے۔
تین رکنی بینچ نے فیصلے میں لکھاکہ’ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ صدارتی حکم نامہ 14ویں آئینی ترمیم کی واضح زبان سے متصادم ہے، جو کہ امریکا میں پیدا ہونے والے اور امریکی دائرہ اختیار میں آنے والے تمام افراد’ کو شہریت دینے کی ضمانت دیتا ہے‘۔
فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے جج پیٹرک بوماتائے، جو کہ ٹرمپ کے نامزد کردہ ہیں، نے کہا کہ ’ریاستوں کے پاس یہ مقدمہ دائر کرنے کا قانونی اختیار (standing) ہی نہیں تھا‘۔
پس منظر: صدارتی حکم اور اس کے خلاف مقدماتڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے پہلے ہی دن 20 جنوری کو یہ صدارتی حکم نامہ جاری کیا تھا، جس کے بعد متعدد ریاستوں اور شہری حقوق کی تنظیموں نے عدالت میں اسے چیلنج کیا۔
14ویں آئینی ترمیم 1868 میں خانہ جنگی کے بعد منظور کی گئی تھی، جس کا مقصد امریکا میں پیدا ہونے والے تمام افراد کو شہریت دینا تھا،چاہے ان کے والدین غلام رہے ہوں یا غیر شہری۔
لیکن ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف رہا کہ اس ترمیم کی تنگ تشریح ہونی چاہیے، اور اگر بچے کے والدین غیر قانونی تارکین وطن ہوں یا عارضی ویزوں (مثلاً ورک یا اسٹوڈنٹ ویزا) پر ہوں تو ایسے بچوں کو پیدائشی شہریت نہ ملے۔
ٹرمپ، جنہوں نے انتخابی مہم میں امیگریشن کے خلاف سخت مؤقف اپنایا تھا، اس پیدائشی حق کو ختم کرنے کا وعدہ کرتے آئے ہیں — حالانکہ قانونی ماہرین نے ہمیشہ اس اقدام پر تحفظات ظاہر کیے۔
ریاستوں کا مؤقف اور قانونی پیش رفتواشنگٹن، اوریگن، ایریزونا اور الی نوائے نے 21 جنوری کو صدارتی حکم نامے کے خلاف درخواست دائر کی، جس پر فروری میں ابتدائی حکم امتناعی جاری ہوا۔
گزشتہ ماہ ایک علیحدہ مقدمے میں سپریم کورٹ نے ایک محدود فتح ٹرمپ کو دی، جب اس نے فیصلہ دیا کہ ضلع عدالتیں صدر کے خلاف قومی سطح پر حکم امتناعی جاری نہیں کر سکتیں، البتہ اجتماعی مقدمات (class action) میں یہ ممکن ہے۔
اسی بنیاد پر نیو ہیمپشائر کی ایک وفاقی عدالت نے مقدمے کو اجتماعی حیثیت دے دی اور ٹرمپ کے حکم پر دوبارہ ابتدائی حکم امتناعی نافذ کر دیا۔
واشنگٹن کے اٹارنی جنرل کا ردعملواشنگٹن کے اٹارنی جنرل نِک براؤن نے اپنے بیان میں کہا کہ عدالت اس بات سے متفق ہے کہ ایک صدر محض قلم کی جنبش سے امریکی شناخت کی تعریف تبدیل نہیں کر سکتا۔
وہ ان بچوں کے حقوق، آزادیاں اور تحفظات ختم نہیں کر سکتا جو ہماری سرزمین پر پیدا ہوئے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں