افغانستان: غذائی قلت کا شکار بچے امریکی امداد کے بغیر موت کے خطرے سے دوچار
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اپریل 2025ء) افغانستان کے دارالحکومت میں غذائی قلت کے علاج کے ایک مرکز میں بچوں کے رونے کی آوازیں اب نہیں آتیں کیونکہ امریکی امداد میں کٹوتی کی وجہ سے مریضوں کو واپس بھیج دیا گیا ہے اور طبی عملے کو فارغ کر دیا گیا ہے۔
مکمل طور پر واشنگٹن کی مالی اعانت سے چلنے والے اس منصوبے کو اس وقت بند کرنا پڑا جب امریکہ نے تمام غیر ملکی امداد منجمد کردی، ، جو حال ہی میں افغانستان میں سب سے زیادہ امداد فراہم کرنے والا ملک تھا۔
کابل کے مغرب میں کلینک کا انتظام سنبھالنے والی غیر سرکاری تنظیم ایکشن اگینسٹ ہنگر (اے سی ایف) کی کنٹری ڈائریکٹر کوبی رِیٹویلڈ نے کہا کہ اس مرکز میں بچوں کا اب علاج نہیں کیا جائے گا۔
(جاری ہے)
انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''اگر ان کا علاج نہیں ہوا تو ان کی موت کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔‘‘
نئی فنڈنگ کے بغیر، بچوں کے لیے کھلونوں اور دیگر اشیا کو ہٹا دیا گیا اور مارچ میں آخری مریض کے چلے جانے کے بعد فارمیسی کو بھی تالا لگا دیا گیا۔
چیف ڈاکٹر فرید احمد بارکزئی کے بقول، ''جب غذائی قلت کے مریض ہمارے کلینک میں آتے ہیں تو ہمارے عملے کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے کہ وہ انہیں صورتحال کی وضاحت کریں اور انہیں بتائیں کہ انہیں مناسب علاج کے لیے کہیں اور جانا پڑے گا۔‘‘
اقوام متحدہ کے مطابق چار دہائیوں کی جنگ اور بحرانوں کے بعد افغانستان کو جنگ زدہ سوڈان کے بعد دنیا کے دوسرے سب سے بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے۔
کلینک میں ہر ماہ اوسطاﹰ 65 بچوں کا علاج کیا جاتا تھا جو شدید غذائی قلت اور صحت کی پیچیدگیوں کا شکار ہوتے تھے۔
وہ اپنی ماؤں کے ساتھ کئی دنوں تک وہاں رہتے تاکہ نہ صرف انہیں کھانا کھلایا جا سکے بلکہ انہیں بیماری میں مبتلا ہونے سے بچایا جا سکے۔
ریٹویلڈ کے مطابق ''ہر انفیکشن جو ایک بچے کو ہو سکتا ہے، غذائی قلت کا شکار بچہ بھی اس کا شکار ہو جائے گا، جس سے مرنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
‘‘ریٹویلڈ نے مزید کہا کہ عملے کے لیے، جو اپنے کام کے آخری دن مکمل کر رہا ہے''تکلیف دہ‘‘ ہے کہ ''انہیں ایسے مریضوں کو کہیں اور بھیجنا پڑتا ہے جہاں ان کے لیے خصوصی علاج موجود نہیں ہے۔‘‘
افغان آبادی غذائی قلت اور قحط کے دہانے پرافغانستان میں، جہاں 45 فیصد آبادی 14 سال سے کم عمر ہے، بچوں کی غذائی قلت سب سے اہم چیلنجوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہ طویل مدت میں پوری نسل کو متاثر کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے تقریبا 35 لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
بالغ افراد بھی غذائی متاثر ہوئے ہیں اور 15 ملین افغان اس وقت غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، جن میں سے 3.
گزشتہ ہفتے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا تھا کہ امریکہ نے افغانستان میں اپنے کام کے لیے فنڈنگ بند کر دی ہے۔
(اے سی ایف) کی کنٹری ڈائریکٹر ریٹویلڈ کے مطابق، ''میرے دفتر میں لوگ رو رہے ہیں… ہم سنتے ہیں، مدد کی پیشکش کرتے ہیں، لیکن ہم انہیں نوکری نہیں دلا سکتے۔‘‘
ریٹویلڈ نے کہا کہ امریکی فنڈنگ کی بندش کے بعد، جو اے سی ایف کے مقامی بجٹ کا 30 فیصد بنتا ہے، یہ تنظیم ''تجاویز لکھنے کے عمل میں ہے‘‘ اور ''عطیہ دہندگان کے ساتھ تبادلہ خیال‘‘ کر رہی ہے: ''لیکن مجھے نہیں لگتا کہ دوسرے عطیہ دہندگان اس خلا کو پر کر سکتے ہیں۔‘‘
ادارت: شکور رحیم
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے غذائی قلت کے مطابق کا شکار دیا گیا کے لیے کے بعد
پڑھیں:
محاذ آرائی ترک کیے بغیر پی ٹی آئی کے لیے موجودہ بحران سے نکلنا ممکن نہیں، فواد چوہدری
سابق پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم کرنا ناگزیر ہوچکا ہے اور سیاسی جماعتوں سے مفاہمت اور مکالمہ ہی مسائل کا حل ہے، پی ٹی آئی کے لیے محاذ آرائی ترک کیے بغیر موجودہ بحران سے نکلنا ممکن نہیں۔
فواد چوہدری نے جہلم میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ پیدائشی سیاستدان ہیں اور سیاسی مسائل کا حل سیاست ہی میں دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق مسلسل محاذ آرائی کے نتیجے میں صورتحال بند گلی کی طرف جارہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کرائے پر لائی گئی ہے، فواد چوہدری
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ ان کی ہمیشہ اولین ترجیح عمران خان کی رہائی رہی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پارٹی کی موجودہ قیادت میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ عمران خان کو رہا کرا سکے، اسی لیے وہ مسلسل مفاہمت کی بات کر رہے ہیں۔
فواد چوہدری کے مطابق مفاہمت، تلخی کم کرنے اور خودغرض سوشل میڈیا بیانیے کو خاموش کرانے میں ہی پی ٹی آئی کی بقا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سے وابستہ کچھ سوشل میڈیا اکاؤنٹس صرف مقبولیت حاصل کرنے کے لیے جذبات بھڑکا رہے ہیں، مگر یہ طرزعمل پارٹی کے لیے نقصان دہ ہے، فواد کے مطابق ہر نئی اشتعال انگیز ویڈیو یا تجزیہ پارٹی کی سیاسی گنجائش کم کررہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شاہ محمود قریشی اسپتال منتقل،کن سابق ساتھیوں نے ملاقات کی، معاملہ کیا ہے؟
سوال کے جواب میں انہوں نے فوری طور پر کہا کہ اگر وہ پی ٹی آئی سے باہر ہوتے تو آج کسی حکومت کا حصہ ہوتے، جیسے کئی اور رہنما بنے۔
پی ٹی آئی میں نئے سیاسی گروپ کی خبریںحال ہی میں سامنے آنے والی رپورٹس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے پرانے رہنما ایک نیا سیاسی پلیٹ فارم بنا کر عمران خان کی رہائی کی مہم شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ رپورٹس میں فواد چوہدری، اسد عمر، عمران اسماعیل، محمود مولوی اور سبتین خان کے نام شامل تھے۔
پی ٹی آئی کی وضاحت: فیصلے صرف عمران خان کےپی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے اس تاثر کو مسترد کر دیا کہ پرانے رہنما کوئی نئی سیاسی سرگرمی شروع کرنے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق پارٹی میں فیصلے کا واحد مرکز عمران خان ہیں اور باقی تمام آراء غیر اہم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ فقط خود کو متعلقہ رکھنے کے لیے ایسی خبریں پھیلا رہے ہیں، مگر ان کا پارٹی پر کوئی اثر نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news پی ٹی آئی شیخ وقاص اکرم فواد چوہدری