پاکستان: افغان پناہ گزینوں کی خصوصی پرواز سے جرمنی روانگی
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اپریل 2025ء) جرمن حکومت کی جانب سے بھجوائے گئے ایک خصوصی طیارے نے آج 16 اپریل بروز بدھ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے ان افغان پناہ گزینوں کو لے اڑان بھری، جنھیں جرمنی میں داخلے کی اجازت دی گئی ہے۔ جرمن دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ تمام مسافروں کو قانونی طور پر جرمنی میں داخلےکی اجازت دی گئی ہے۔
یہ طیارہ بدھ کے روز کسی وقت مشرقی جرمنی کے شہر لائپزگ میں اترے گا۔ اس کے بعد مسافروں کو وسطی جرمنی کے ایک کیمپ میں لے جایا جائے گا، جہاں انہیں دو ہفتوں تک رکھنے کے بعد وفاقی ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ جرمن دفتر خارجہ کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 2600 افغان باشندے اس وقت پاکستان سے جرمنی میں داخلے کے منتظر ہیں۔
(جاری ہے)
ان افراد میں میں افغانستان میں جرمن اداروں کا سابق عملہ اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ وہ افغان باشندے بھی شامل ہیں، جو سابقہ افغان حکومت میں بطور وکیل یا صحافی انسانی حقوق کےعلمبردار رہے ہیں، اور اب انہیں طالبان کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کا خدشہ ہے۔
جرمنی کی آئندہ حکومت پناہ گزینوں کے لیے داخلے کے پروگراموں کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس نے آئندہ اتحادی حکومت کے قیام سے قبل جاری کردہ معاہدے میں کہہ رکھا ہے۔، ''ہم جہاں تک ممکن ہو (مثلاً افغانستان سے) رضاکارانہ وفاقی داخلہ پروگرام ختم کریں گے اور کوئی نیا پروگرام شروع نہیں کریں گے۔‘‘
وہ افغان جو جرمنی یا دیگر ممالک جانے کے لیے اب بھی اسلام آباد چھوڑنے کے منتظر ہیں وہ جلد ہی سخت دباؤ میں آ سکتے ہیں کیونکہ پاکستان نے اپریل کے آغاز میں افغان مہاجرین کی ملک بدری کی ایک نئی لہر شروع کی تھی۔
اسلام آباد حکومت کے اس اقدام کا مقصد طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت 30 لاکھ افغانوں کو اپنے ملک سے بے دخل کرنا ہے۔پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ امور طلال چوہدری نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ مئی سے ملک بدری ان افغانوں کو بھی متاثر کرے گی، جو مغربی ممالک جانے کے لیے پاکستان میں انتظار کر رہے ہیں۔
شکور رحیم ڈی پی اے کے ساتھ
ادارت: افسر اعوان
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
افغان طالبان کو اب ماسکو میں اپنے سفیر کی تعیناتی کی اجازت
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) روسی دارالحکومت سے جمعرات 24 اپریل کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ماسکو حکومت نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان انتظامیہ کو یہ باقاعدہ اجازت دے رہی ہے کہ وہ روس میں اپنا سفیر تعینات کر سکتے ہیں۔
روس نے ابھی چند روز پہلے ہی ایک عسکریت پسند گروپ کے طور پر افغان طالبان کا نام 'دہشت گرد‘ قرار دی گئی تنظیموں کی روسی فہرست سے خارج کر دیا تھا۔
ماسکو کے یہ دونوں نئے اقدامات اس کی ان کوششوں کا حصہ ہیں، جن کے ذریعے وہ ہندوکش کی اس ریاست پر حکومت کرنے والی سخت گیر مذہبی سیاسی تحریک کے ساتھ اپنے روابط اب معمول پر لانا چاہتا ہے۔ افغان طالبان کے لیے ایک سفارتی کامیابیافغانستان میں طالبان 2021ء میں کابل پر قبضے کے ساتھ اس وقت دوبارہ اقتدار میں آ گئے تھے، جب کئی سالہ موجودگی کے بعد اس ملک سے آخری امریکی فوجی بھی واپس جا رہے تھے۔
(جاری ہے)
ازبکستان نے طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے
کئی ماہرین ماسکو کی طرف سے طالبان تحریک کا نام دہشت گرد تنظیموں کی روسی فہرست سے خارج کیے جانے اور افغان طالبان کو ماسکو میں اپنا سفیر تعینات کرنے کی اجازت دیے جانے کو کابل میں موجودہ حکمرانوں کے لیے ایک سفارتی کامیابی کا نام دے رہے ہیں۔
ماسکو میں اس بارے میں بدھ کی رات کیے گئے اعلان کے ساتھ ہی روسی وزارت خارجہ نے بتایا کہ روسی حکام نے افغانستان میں طالبان انتظامیہ کے وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ سے مذاکرات بھی کیے ہیں۔
روسی حکومت کے مطابق ماسکو میں طالبان کے سفیر کی تعیناتی کی اجازت دیے جانے پر افغان فریق کی طرف سے ''گہرے تشکر کا اظہار بھی کیا گیا۔‘‘
افغانستان: تین افراد کی سزائے موت پر سر عام عمل درآمد
روسی وزارت خارجہ کا بیاناس پیش رفت کے بارے میں روسی وزارت خارجہ کی طرف سے ماسکو میں جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ''افغان قیادت کے نمائندوں کو بتا دیا گیا ہے کہ روسی سپریم کورٹ کے طالبان تحریک پر لگائی گئی پابندی کو معطل کرنے کے حالیہ فیصلے کے بعدروس نے فیصلہ کیا ہے کہ ماسکو میں افغان سفارتی نمائندگی کا درجہ بڑھا کر سفیر کی تعیناتی کی سطح تک کر دیا جائے۔
‘‘روس افغانستان میں طالبان حکام کو اپنے لیے ممکنہ اقتصادی شراکت داروں کے طور پر دیکھتا ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ گزشتہ ہفتے جب روسی سپریم کورٹ نے طالبان تحریک کی 'دہشت گرد‘ تنظیم کی حیثیت ختم کی تھی، تو کابل میں طالبان انتظامیہ نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے سراہا تھا۔
حالیہ برسوں میں کئی اعلیٰ طالبان نمائندے اور حکومتی عہدیدار مختلف مواقع پر روس کے دورے کر چکے ہیں۔
طالبان حکومت کو ابھی تک باقاعدہ تسلیم نہیں کیا، لاوروفروس کا کہنا ہے کہ طالبان تحریک کے نام کے 'دہشت گرد‘ تنظیموں کی روسی فہرست سے اخراج کا مطلب یہ نہیں کہ ماسکو نے کابل میں طالبان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم کر لیا ہے، جس کی یہ خواہش اپنی جگہ ہے کہ بین الاقوامی برادری اسے باضابطہ طور پر تسلیم کرے۔
اس بارے میں روسی نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے بدھ کے روز کہا، ''کابل میں متقدر انتظامیہ ایک حقیقت ہے۔
‘‘ لاوروف نے صحافیوں کو بتایا، ''ہمیں اس حقیقت کو اپنی عملیت پسندی کی پالیسی پر عمل درآمد کے لیے لازمی طور پر پیش نظر رکھنا ہو گا۔‘‘کابل میں طالبان کی حکومت کو ابھی تک دنیا کے کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا جبکہ اقوام متحدہ کی طرف سے بھی کابل میں طالبان انتظامیہ کا ذکر کرتے ہوئے اس کے لیے ''طالبان کے ڈی فیکٹو حکام‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
ادارت: امتیاز احمد