این اے 213 عمرکوٹ میں ضمنی الیکشن کیلئے پولنگ کا آغاز، سخت سکیورٹی انتظامات
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
عمرکوٹ(ڈیلی پاکستان آن لائن) حلقہ این اے 213 عمرکوٹ میں ضمنی الیکشن کیلئے پولنگ کا آغاز ہوگیا، اس موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق حکام الیکشن کمیشن کے مطابق پولنگ صبح 8 بجے شروع ہوئی جو کہ شام 5 بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہے گی۔
پیپلزپارٹی کی صبا تالپر اور اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار لال چند مالہی میں کڑا مقابلہ متوقع ہے، پی ٹی آئی، جی ڈی اے، جے یو آئی اور جماعت اسلامی سمیت 18 امیدوار میدان میں ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 6 لاکھ 8 ہزار 997 ہے، حلقے میں کل پولنگ سٹیشنز کی تعداد 498 ہے، 269 پولنگ سٹیشنز کو حساس اور 91 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے، امن وامان برقرار رکھنے کیلئے پولیس اور رینجرز کے دستے تعینات کئے گئے ہیں۔
ایران میں قتل کئے جانے والے 8 پاکستانیوں کی لاشیں بہاولپور پہنچا دی گئیں
ضمنی انتخاب کے باعث عمر کوٹ ضلع بھر میں آج عام تعطیل کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ نشست پیپلزپارٹی کے نواب یوسف تالپر کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی۔
ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ؛ پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
سوشل میڈیا پر حساس اداروں اور سربراہ کے خلاف توہین آمیز پوسٹ کرنے پر شہری کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
اندراج مقدمہ کے بعد پولیس نے مزید قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا۔
دوسری جانب، پیکا ایکٹ ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس جواد احسان اللہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔
عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کر دیا۔
درخواست گزار کے وکیل نعمان محب کاکا خیل کا موقف تھا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کرکے غلط اور جھوٹی خبروں پر سزائیں متعارف کروا دی گئی ہیں، پیکا ایکٹ کے سیکشن 26 اے سمیت متعدد سیکشنز میں ترمیم کی گئی ہے لیکن ترمیم مبہم ہے اور فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی کہ فیک نیوز کونسی ہوگی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ترمیم میں خلاف ورزی پر بڑی بڑی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ ترمیم میں جج، اراکین اسمبلی اور دیگر اداروں کے خلاف کوئی بھی بات کرنے پر سزا مقرر کی گئی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے خلاف ہے کیونکہ آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، یہ ترمیم جمہوریت اور انسانی حقوق اور احتساب پر وار ہے، یہ ترمیم اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لیے کی گئی ہے۔
عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے ایک ماہ کے اندر جواب طلب کر لیا۔