آئی پی ایل؛ اسپاٹ فکسنگ کے خطرات، حیدرآباد کے کاروباری شخص سے دور رہنے کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
کراچی:
حیدرآباد دکن کے مبینہ کاروباری فرد سے متعلق بھارتی کرکٹ بورڈ نے آئی پی ایل کی ٹیموں، پلیئرز، کوچز اور دیگر تمام اسٹیک ہولڈر کو آگاہ کرتے ہوئے اس سے محتاط رہنے کی ہدایت کر دی ہے۔
بورڈ کے اینٹی کرپشن سیکیورٹی یونٹ کے مطابق مذکورہ شخص کے روابط پنٹرز، بکیز اور ماضی میں سزا یافتہ افراد سے دیکھے گئے ہیں، وہ دوبارہ آئی پی ایل میں منفی سرگرمیوں کے لیے کوشش کر سکتے ہیں۔
لیگ سے جڑے تمام آفیشلز اور اسٹاف کو اس سے دور رہنے کی ہدایت دی گئی ہے، وہ انھیں بیش قیمت تحائف دے کر جھانسے میں اتار سکتا ہے۔
کئی افراد کے ساتھ کاروباری شخص کے قریبی تعلق ہونے کی رپورٹ کی گئی ہے، اسے ٹیم ہوٹل اور دیگر مقامات پر ان کے قریب دیکھا گیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پہلگام حملہ: اسکرپٹ، ہدایت کاری، اداکاری کی غلطیاں
پہلگام میں 2 درجن افراد کو ہلاک کرکے اس کا الزام پاکستان پر عائد کرنے کا مںصوبہ ناکام ہوا ہے تو اس میں بے چارے نریندر مودی کا کیا قصور؟ انہیں اسکرپٹ رائٹر اچھے ملے ہیں نہ ڈائریکٹر، اور نہ ہی اداکار۔
منصوبہ بھارتی وزیر اعظم اور بھارتی وزیر داخلہ نے خوب سر جوڑ کر بنایا تھا کہ جب مودی جی سعودی عرب میں اور امریکی نائب صدر جے ڈی وینس بھارت میں ہوں تو ریاست جموں و کشمیر کے سب سے پر امن مقام پر کارروائی ڈالنی ہے۔
ایسا منصوبہ پہلی بار نہیں بنایا گیا تھا۔ اس سے پہلے، جب بھی کوئی امریکی صدر بھارت آیا، دہشتگردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوا۔ بعدازاں یہ راز بھی کھل گیا کہ ایسے واقعات خود بھارتی ایجنسیاں کچھ مقاصد حاصل کرنے کے لیے کرواتی رہیں۔ مثلاً سن 2000 میں ہونے والا چھٹی سنگھ پورہ کا سانحہ، جس میں ایک ہی وقت میں 35 سکھوں کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا تھا۔ اس کا الزام بھی پاکستان پر عائد کیا گیا تاہم بعد ازاں معاملہ کسی دوسرے انداز میں کھلا۔
بھارتی آرمی کے سابق جنرل ایس کے گل کہتے ہیں کہ اس واقعے کا مقصد بھارت کے دورے پر آئے ہوئے بل کلنٹن کے سامنے پاکستان کے خلاف پرواپیگنڈا کرنا تھا کہ دیکھیں! پاکستان کیا کررہا ہے۔ انھوں نے واضح طور پر کہا کہ یہ منصوبہ بی جے پی نے تیار کیا تھا۔
خیر ! پہلگام حملہ پلان کا مقصد بہت واضح تھا جو کسی بھی طفل مکتب کو سمجھ آ سکتا ہے کہ اس واقعے کے بعد مودی جی سعودی عرب میں اور امیت شاہ بھارت میں بین ڈالتے، اپنے سر کے بال نوچتے، ان میں راکھ ڈالتے کہ پاکستان نے کشمیر میں دہشتگردی شروع کردی۔
تاہم بُرا ہو بھارتی فوجی افسران کا جو پرلے د رجے کے چغد نکلے، وہ اپنے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی امیدوں پر پورا نہ اتر سکے۔ اسکرپٹ میں غلطیاں، ہدایت کاری میں غلطیاں اور اداکاری بھی غلطیوں سے بھرپور۔ ایسے میں سارے منصوبے کا ستیاناس ہوگیا۔
مثلاً سہ پہر 3 بجے ’حملہ‘ ہوا اور تین بج کر تین منٹ پر سوشل میڈیا پر ایک جیسے الفاظ کے ساتھ پوسٹس شائع ہونا شروع ہوگئیں، جن میں حملہ کا الزام پاکستان پر عائد کردیا گیا۔ ارے بھائی! حملے اور پوسٹس میں تھوڑا سا وقفہ ہی ڈال لیتے تاکہ اس سارے ’ڈرامہ‘ پر کچھ نہ کچھ ’ حقیقت‘ کا گمان ہوتا۔
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ واقعہ ہونے کے اگلے 24 گھنٹے تک غیر ملکی میڈیا کو جائے وقوعہ تک رسائی نہیں دی گئی۔انھیں 60 کلومیٹر دور ہی روک دیا گیا۔ یہ بات بھی شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے۔ اب ان گھامڑوں کو کون سمجھائے کہ ڈرامہ کو کامیاب کرنے کے لیے ضروری تھا کہ وہاں ’حملے‘ کے فوری بعد کچھ ایسا ماحول بنایا جاتا کہ پہلی نظر میں دیکھنے سے ہی وہ ’دہشتگردی‘ لگتا۔ پھر فوراً غیرملکی میڈیا کو یہ ’دہشتگردی‘ دکھائی جاتی۔ یوں خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی۔
لیکن یہ ہدایت کار اور اداکار اس قدر نکمے اور نااہل نکلے کہ اس واقعے کے بعد 2 دراندازوں کو ہلاک کرکے ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا کہ کنٹرول لائن سے دراندازی ہوئی۔ یعنی 400 کلومیٹر دور سے۔ اور ہلاک ہونے والے ’دراندازوں‘ کے جوتے لش پش کر رہے تھے اور جوتے بھی شادی پر پہنے جانے والے تھے نہ کہ کمانڈوز والے۔ اگر کسی کو شک ہو تو بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا میں شائع ہونے والی تصاویر ہی دیکھ لے۔
پھر ان ’دراندازوں‘ کے کپڑے بھی سلوٹوں سے پاک و صاف و شفاف تھے۔ ان کے پاس ایسا اسلحہ اور سازوسامان نہیں تھا جو گوریلا کارروائیوں میں استعمال ہوتا ہو۔
سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر شائع ہونے والی یہ ساری تصاویر ہدایت کاروں کی نااہلی کے سارے پول کھول رہی ہیں۔ اب تو ان ’دراندازوں‘ کے نام اور گاؤں کے نام بھی سامنے آ گئے ہیں۔ ثابت ہوچکا ہے کہ بھارتی فوج نے مقامی نوجوانوں کو پکڑ کر ہلاک کردیا اور انھیں ’درانداز‘ قرار دیدیا۔
مقبوضہ کشمیر دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں فوجیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ہر 11 کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی مسلط ہے۔ اس کے باوجود ایسے واقعات رونما ہونا حیران کن ہے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ حملے میں مارے جانے والوں اور زخمی ہونے والوں میں انٹیلی جنس افسران اور ان کی فیملی کے لوگ تھے۔ کیا یہ بات مانی جاسکتی ہے کہ بھارتی سیکیورٹی فورسز نے ان افسران کی حفاظت کا انتظام نہیں کیا ہوگا؟ پانچ چھ نامعلوم آئے، انھوں نے دو ڈھائی درجن لوگوں کو مارا اور آرام سکون سے واپس پلٹ گئے۔
واضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ یہ ’حملہ‘ خود بھارتی ایجنسیوں کا کیا دھرا ہے۔ کشمیر کی حریت پسند قیادت بھی اس حملے سے لاتعلقی کا اعلان کر رہی ہے اور اسے بھارتی ایجنسیوں کی کارروائی قرار دے رہی ہے۔ بھارتی ایجنسیاں اس سے پہلے بھی ایسی حرکتیں کر چکی ہیں۔
پہلگام حملہ کا عمومی مقصد پاکستان کا تاثر دنیا میں خراب کرنا تھا لیکن ایک خاص اور بڑا مقصد بھی تھا اور اب بھی ہے کہ پہلگام اور ایسے ہی دہشتگردانہ واقعات کروا کے، پھر ان کے بہانے ریاست جموں کشمیر کے باسیوں پر ایک نیا اور زیادہ سخت عذاب توڑا جائے۔ مخالفین پر کریک ڈاؤن کیے جائیں، باقی لوگوں کو بدترین پابندیوں کا شکار رکھا جائے۔ اس طرح ریاست جموں کشمیر پر بھارتی تسلط کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے۔
جب پانچ اگست 2019 کو بھارت نے ریاست جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی، تب سے اب تک کشمیری قوم شدید غم و غصے بلکہ ایک سکتے کی سی کیفیت میں ہے۔ بھارت کو خوف لاحق ہے کہ کشمیری قوم کی یہ کیفیت کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ جب یہ اضطراب طوفان کی شکل اختیار کرے گا تو بھارت کا بہت کچھ تباہ و برباد ہوجائے گا۔
چنانچہ اب حکمت عملی یہ ہے کہ ایسے دہشتگردانہ واقعات کرکے ایک طرف دنیا بھر سے ہمدردیاں سمیٹی جائیں اور دوسری طرف کشمیری قوم پر شکنجہ زیادہ سے زیادہ کس دیا جائے تاکہ وہ مستقبل بعید تک سر جھکا کر ہی جئیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں