پاکستان کامیابی کے ساتھ شاہ بلوط کے درختوں کی کاشت کر رہا ہے. ویلتھ پاک
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 اپریل ۔2025 )شاہ بلوط، شمالی نصف کرہ سے تعلق رکھنے والا ایک قیمتی پھل کا درخت، پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کی جانب سے شمالی پاکستان میں کامیابی کے ساتھ کاشت کیا گیا ہے، یہ بات پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کراپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، شھرہ مانکی کے پرنسپل سائنٹفک آفیسر ڈاکٹر فیاض احمد نے بتائی ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ شاہ بلوط ان کی اقتصادی قدر، غذائیت سے بھرپور اور خوشبودار گری دار میوے، قیمتی لکڑی، اور زرعی جنگلات کے نظام میں کردار کی وجہ سے قابل قدر ہیں.
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ شاہ بلوط کو پاکستان میں پھلوں کی نئی فصل کے طور پر متعارف کروانے سے ملک کے پھلوں کے جراثیم کے وسائل کو وسعت ملے گی اور مقامی منڈیوں اور بین الاقوامی برآمدات کے لیے نئے مواقع پیدا ہوں گے انہوں نے کہا کہ نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کراپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل نے تقریبا چار سال قبل خیبر پختونخواہ کے شمالی علاقوں میں ہزارہ اور مالاکنڈ ڈویژن کے مناسب علاقوں میں شاہ بلوط کی تین اقسام کی کاشت کے لیے تحقیق اور ترقی کی کوششیں شروع کی تھیں . ڈاکٹر فیاض کے مطابق شاہ بلوط خیبر پختونخواہ کے معتدل آب و ہوا کے زرعی جنگلات کے نظام میں پروان چڑھتے ہیں، جو کہ غذائیت سے بھرپور گری دار میوے اور قیمتی لکڑی دونوں کی پیداوار کے ذریعے کسانوں کو معاشی فوائد فراہم کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ مقامی حالات میں اوسط پیداوار 45 سے 60 کلو گرام گری دار میوے فی درخت ہے انہوں نے کہا کہ پیداواری ٹیکنالوجی کی ترقی اور منتخب جراثیم سے شاہ بلوط کے پودوں کی فراہمی سے کسانوں کو اس پھل کو اپنانے میں مدد ملے گی، جو مقامی کمیونٹیز کے لیے آمدنی کے نئے سلسلے میں حصہ ڈالیں گے. انہوں نے کہا کہ ہم نے بیج اور گرافٹنگ دونوں تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے 1,000 پودوں کی نرسری کاشت کی ہے ڈاکٹر فیاض نے بتایا کہ شاہ بلوط مختلف اقسام میں آتا ہے، جن میں چینی شاہ بلوط، جاپانی شاہ بلوط، امریکی شاہ بلوط، اور جنوبی یورپی شاہ بلوط شامل ہیں، یہ سب اپنی معاشی اہمیت کی وجہ سے کاشت کیے جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ درخت عام طور پر سطح سمندر سے 1,800 میٹر تک کی بلندیوں پر اگتے ہیں انہوں نے کہا کہ شاہ بلوط اپنی منفرد غذائی خصوصیات کی وجہ سے نمایاں ہیں جو انہیں مختلف پکوانوں میں ایک مقبول جزو بناتے ہیں اور انہیں بھوننے یا پروسیسنگ کے بعد کھایا جا سکتا ہے. ڈاکٹر فیاض نے کہا کہ شاہ بلوط کی کیمیائی ساخت پر تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں کیلوریز اور چکنائی کم ہوتی ہے لیکن اس میں نشاستہ، ٹریس عناصر، وٹامنز اور فائٹونیوٹرینٹس ہوتے ہیں جو اسے صحت مند کھانے کے انتخاب کے طور پر رکھتے ہیں انہوں نے کہا کہ دیگر گری دار میوے کے برعکس، شاہ بلوط بنیادی طور پر کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل ہوتے ہیں جو ان کی غذائیت کا پروفائل میٹھے آلو، مکئی اور آلو جیسے اہم کھانوں سے موازنہ کرتا ہے . انہوں نے کہا کہ شاہ بلوط وٹامن سی کا ایک بہترین ذریعہ ہے جو دانتوں، ہڈیوں اور خون کی نالیوں کی صحت کو سہارا دیتا ہے انہوں نے کہا کہ وہ بی وٹامنز سے بھی بھرپور ہوتے ہیں، جن میں نیاسین، وٹامن بی-6، تھامین اور رائبوفلاوین شامل ہیں ڈاکٹر فیاض نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ شاہ بلوط کے درخت سردی سے سخت اور خشک سالی کے خلاف مزاحم ہوتے ہیں، جو سستی کے دوران منفی 25 ڈگری سینٹی گریڈ تک کم درجہ حرارت پر زندہ رہنے کے قابل ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ درخت معتدل آب و ہوا میں پروان چڑھتے ہیں، مناسب بڈ پھٹنے، پھول آنے اور پھلوں کی پختگی کے لیے ٹھنڈی سردیوں کی ضرورت ہوتی ہے. انہوں نے کہا کہ شاہ بلوط اپنی جینیاتی اور جسمانی خصوصیات کی بدولت ٹھنڈے اور گیلے علاقوں سے لے کر گرم، خشک ماحول تک وسیع پیمانے پر موسمی حالات کے مطابق ڈھال سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ درخت آزاد کشمیر اور مری میں بھی اگائے جا سکتے ہیں ڈاکٹر فیاض نے کہا کہ درخت 40 فٹ اونچے تک بڑھ سکتے ہیں اور ان کے بڑے طواف کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے 30 فٹ کے فاصلے پر لگائے جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ جب ان کا پھل پک جاتا ہے تو قدرتی طور پر زمین پر گر جاتا ہے، جس سے دستی کٹائی کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ہیں انہوں نے کہا کہ ہوتے ہیں کے لیے
پڑھیں:
ترکیہ کے رنگ میں رنگا پاکستان
فاروق بھائی، فلم دیکھیں گے؟
برادرِ محترم ڈاکٹر خلیل طوقار نے یہ سوال پوچھا تو میں چونک گیا۔ احباب جانتے ہیں کہ ڈاکٹر خلیل طوقار سنجیدہ فکر ادیب اور محقق ہیں اتنے سنجیدہ کہ افسانہ و ناول کو بھی ان کی توجہ پانے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ یہ پس منظر تھا جب انھوں نے فلم دیکھنے کی دعوت دی تو میں چونکا۔ یہ گزشتہ ہفتے کی بات ہے جب پاکستان میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کے اعلان کے مطابق ہفتہ ترکیہ منایا جا رہا تھا۔
ترکیہ کی قومی تاریخ میں اکتوبر کا مہینہ غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے موقع پر عالمی استعماری طاقتوں نے نہ صرف سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کیے بلکہ استنبول پر بھی قبضہ کر لیا۔ یوں ترکیہ کی آزادی ہی داؤ پر لگ گئی۔
یہ بڑا مشکل زمانہ تھا، مگر ترکیہ کی قومی فوج نے غازی مصطفی کمال اتاترک کی قیادت میں استعماری قوتوں کے خلاف کامیابی سے جنگ لڑی اور اپنے ملک کی آزادی برقرار رکھی۔ اکتوبر 1915 میں چناق قلعے کا معرکہ ہوا جس میں اتحادی فوج کو فیصلہ کن شکست ہوئی، اور 29 اکتوبر 1923 کو غازی مصطفی کمال اتاترک نے انقرہ کو دارالحکومت قرار دے کر جدید جمہوریہ ترکیہ کے قیام کا اعلان کیا۔ ہمارے ترک بھائی یہ دن بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں۔ اسی تاریخی پس منظر پر مبنی وہ فلم تھی جسے دیکھنے کی دعوت مجھے ڈاکٹر خلیل طوقار نے دی۔
فلم کا نام ہے آخری خط۔ یہ سلطنتِ عثمانیہ کی فضائیہ کے ایک بہادر پائلٹ صالح کی سرفروشی اور محبت کی کہانی ہے۔ ترکیہ میں میرا آنا جانا بہت رہا ہے۔ استنبول میں قیام کے دوران استقلال جادہ سی پر جانا ہمیشہ ایک خوش گوار تجربہ رہا۔ وہاں ہر وقت ہزاروں سیاح مٹرگشت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ان ہی گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے ترکیہ کی فلم انڈسٹری سے بھی تعارف ہوتا ہے۔ جگہ جگہ بڑے بڑے پوسٹر نظر آتے ہیں، جیسے کبھی ہماری فلموں کے ہوا کرتے تھے۔ مجھے ایک فلم کا نام یاد ہے بابا میراثی۔ یہ نام دیکھ کر میں چونکا کہ کیا ترکیہ میں بھی میراثی ہوتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ یہاں میراثی سے مراد صاحبِ میراث ہے، نہ کہ ہمارے روایتی قصہ گو۔ہمارا میراثی تو امتدادِ زمانہ سے بے حال ہو چکا ہے، ورنہ ماضی میں وہ عزت دار شخص تھا جو خاندان کے شجرے کا ریکارڈ رکھا کرتا تھا۔ اگر آج بھی کوئی برگزیدہ میراثی مل جائے تو وہ اپنی بے نظیر یادداشت کے سہارے ایسے دل چسپ انداز میں شجرہ سناتا ہے کہ سننے والا مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے۔
بات کسی اور طرف جا نکلی۔ استقلال جادہ سی میں فلموں کے اشتہار دیکھ کر میری رائے بنی تھی کہ ترکیہ کی فلمیں بھی ہماری فلموں جیسی ہی ہیں۔ اگر کبھی ترکیہ میں کوئی فلم دیکھنے کا موقع ملتا تو شاید یہ خیال بدل جاتا، مگر ایسا کوئی موقع میسر نہ آ سکا۔ اب کئی برس کے بعد ڈاکٹر خلیل طوقار کی دعوت پر یہ فلم دیکھی تو اندازہ ہوا کہ ترکیہ کی فلم انڈسٹری تو معیار کے اعتبار سے ہالی ووڈ کو شرماتی ہے۔فلم دیکھ کر دوہری خوشی ہوئی: ایک فلم کے اعلی معیار کی، اور دوسری وزیرِ اعظم کے اس فیصلے کی۔ اگر انھوں نے ہفت ترکیہ منانے کا اعلان نہ کیا ہوتا تو شاید یہ فلم دیکھنے کا موقع ہی نہ ملتا۔
کچھ عرصہ قبل سردیوں کی ایک خوش گوار شب ڈاکٹر خلیل طوقار نے عشائیے کا اہتمام کیا۔ ان کے مہمان دو تھے: برادرِ محترم پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک اور ان سطور کا لکھنے والا۔ ڈاکٹر طوقار ترکیہ کے ثقافتی مرکز یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کی پاکستان شاخ کے سربراہ ہیں۔ پاکستان ان کے لیے اجنبی ملک نہیں ۔وہ اس کے داماد بھی ہیں اور فرزندِ اردو بھی۔ انھوں نے گزشتہ پینتیس چالیس برس میں اردو زبان و ادب کو مالا مال کر دیا ہے۔ تیس چالیس کتابوں کے مصنف ہیں اور ہندکو زبان کی گرامر بھی انھوں نے مرتب کی ہے۔
یوں وہ پاکستان میں ہوں یا ترکیہ میں، ہمارے لیے اجنبی نہیں لیکن وہ چوں کہ ایک سرکاری اسائنمنٹ پر یہاں ہیں، اس لیے انھیں بھی یہ احساس تھا اور ہمیں بھی کہ جیسے ہی وہ واپس جائیں گے، ان کے دم قدم سے قائم یہاں تہذیبی رونقیں ماند پڑ جائیں گی۔ یہی احساس تھا جس نے اس رات کے کھانے کو یادگار بنا دیا، کیونکہ اسی نشست میں تجویز ہوا کہ پاک ترکیہ دوستی اور ثقافتی رشتوں میں مزید گہرائی پیدا کرنے کے لیے ایک تنظیم قائم کی جائے۔
یہ تنظیم آج بنے یا کل، ان ہی باتوں میں کافی وقت گزر گیا یہاں تک کہ ڈاکٹر یوسف خشک شاہ عبد اللطیف بھٹائی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن کر خیرپور جا پہنچے۔ اس پیش رفت نے احساسِ زیاں کو بڑھا دیا۔ یوں مشاورت کا دائرہ وسیع کر دیا گیا جس میں جناب خورشید احمد ندیم، ڈاکٹر مجیب میمن، ڈاکٹر زاہد مجید، محترمہ نعیم فاطمہ علوی، ڈاکٹر محمد کامران اور ڈاکٹر صدف نقوی سمیت دیگر احباب شامل ہوئے۔ مکمل اتفاقِ رائے سے دوست کے نام سے پاک ترکیہ فرینڈشپ فورم قائم کیا گیا۔اس فورم کے قیام کا اعلان 30 اکتوبر کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں کیا گیا جو ہفتہ ترکیہ کے سلسلے میں یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کے اشتراک سے منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں شہر کی مختلف جامعات اور کالجوں کے اساتذہ و طلبہ امڈ آئے۔
ہفت ترکیہ کی تقریبات بھرپور رہیں۔ پی این سی اے کے تعاون سے ترک موسیقی کی محفل ہوئی، فلم شو کا ذکر آ چکا۔ لوک ورثہ میں بحیرہ اسود کے معروف رقص ہورون کا مظاہرہ ہوا۔ ترکوں کے مختلف خطوں میں الگ الگ رقص رائج ہیں جو اپنے اپنے علاقوں کی ثقافت اور روایت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ تہذیبی مظاہر میں نظم و ترتیب کے کیا معنی ہیں۔ ہورون ان سب سے بڑھ کر ہے۔
ہفتہ ترکیہ ہر اعتبار سے کامیاب اور شاندار رہا، پاکستانیوں اور ترک بھائیوں، سب نے مل کر ہفت ترکیہ پورے جوش و خروش سے منایا۔ اس موقع پر اسلام آباد میں چھ تصویری نمائشوں کے علاوہ خیر پور اور جامعہ کراچی میں ایک ایک تصویری نمائش کا اہتمام کیا گیا ۔ ان مواقع پر حاضرین کی تواضع ترک کافی سے کی گئی۔ اس گہما گہمی کے پیچھے ایک بڑی قوت محرکہ یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کی تھی جس کے ان تھک سربراہ ڈاکٹر خلیل طوقار ہیں جو ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلو سفیر کی حیثیت سے اسلام آباد تشریف لائے ہیں۔ ترکیہ کے تمام سفیر متحرک ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلو کے عوامی انداز نے ترک سفارت خانے کو بہت متحرک کر دیا ہے یہی سبب ہے کہ اس ہفتے کی رونقیں صرف وفاقی دارالحکومت میں نہیں بلکہ خیرپور کی شاہ عبد اللطیف بھٹائی یونیورسٹی جیسے دور دراز علاقوں میں بھی دیکھی گئیں۔ہم اب تک یومِ پاکستان اور یومِ آزادی کے موقع پر آبنائے باسفورس کے اساطیری پل کو پاکستان کے رنگ میں رنگا دیکھتے آئے تھے مگر اس بار پورا پاکستان ترکیہ کے رنگ میں رنگا گیا۔