حکومت کے آئی ٹی پروگرامز: معیار کیا ہے، مارکیٹ کتنا مستفید ہو رہی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
پاکستان بھر میں اس وقت حکومت کی جانب سے مفت آئی ٹی کورسز کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ مختلف پروگرامز کے تحت طلباء کو آئی ٹی کی فیلڈ سے متعلق مختلف کورسز کی تربیت دی جا رہی ہے جن میں سینکڑوں کی تعداد میں طلبا ہر 3 یا 6 ماہ کے بعد آئی ٹی اسکلز سیکھ کر سرٹیفیکیٹ حاصل کر رہے ہیں۔
ان کورسز میں تربیت فراہم کرنے کے لیے حکومت آئی ٹی ٹرینرز کو ہائیر کرتی ہے جنہیں اچھی خاصی اجرت پر رکھا جاتا ہے۔ اور پھر طلباء کو بھی ماہانہ وظیفے کی مد میں پیسے دیے جاتے ہیں۔ یعنی حکومت اس طرح کے آئی ٹی پروگرامز پر اربوں روپے انویسٹ کر رہی ہے۔
کیا یہ آئی ٹی کورسز واقعی طلباء کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرتے ہیں؟ کیا ان کا معیار واقعی مارکیٹ کے مطابق ہوتا ہے؟ یا ان کورسز میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے سابق چئیرمین پاشا زوہیب خان کا کہنا تھا کہ حکومتیں دھڑا دھڑ ایسے آئی ٹی کورسز لانچ کر رہی ہیں جن کی آؤٹ لائن بہت ہی ابتدائی درجے کی ہوتی ہے۔ بعض پروگرامز اچھے بھی ہوں گے لیکن زیادہ تر پروگرامز ابتدائی درجے ہی کے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت ایک مکمل پیکج کے تحت نہیں چلتی ۔ ان کورسز کے لیے جو ٹرینر ہائیر کیے جاتے ہیں، ان کی اپنی مہارت بھی صرف ایسی ابتدائی چیزوں تک محدود ہے جو آج سے تقریباً 5 برس پہلے تک مارکیٹ کی ضرورت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے صرف لیبر کو پیدا کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اس کی مارکیٹ میں گنجائش نہیں ہے۔
پاشا زوہیب خان کا کہنا ہے کہ حکومتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ اتنے طلباء کورسز کر چکے ہیں۔ فلاں طالب علم اتنے ڈالرز کمانے لگ گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے 2 سے 4 لوگوں کو پکڑ کر ان کی کامیابی کی کہانیاں بس بار بار بتائی جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو 20 سے 30 طلباء پر مشتمل کلاس ہوتی ہے، اس کلاس کے باقی طلباء کہاں جاتے ہیں؟ ان کی کس لیول کی تربیت ہوتی ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ ایک ڈیٹا بیس بنائے، تربیت یافتہ طلباء کو اس میں شامل کیا جائے۔ آئی ٹی کمپنیوں کو ان تک رسائی دی جائے تاکہ وہ ان طلباء کو مارکیٹ میں لائیں۔ کیونکہ مارکیٹ تو ان ٹرینڈ طلباء سے مستفید نہیں ہوتی۔
تربیت یافتہ طلباء کہاں جاتے ہیں۔ کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ حکومت کی جانب سے بھی سرٹیفیکیٹ دینے کے بعد انہیں خیر باد کہہ دیا جاتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کی تربیت اتنی ابتدائی سطح کی ہوتی ہے، اور انہیں اس قدر پرانی چیزیں سیکھائی جاتی ہیں جن کا مارکیٹ میں کوئی سکوپ نہیں ہیں۔ وہ بچے سمجھتے ہیں کہ ان کورسز کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ پاکستان میں نوکری نہیں ملتی۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ عالمی مارکیٹ میں موجود اداروں تک رسائی حاصل کرے، ان کے ساتھ پارٹنر شپ کرے۔ ان کی کورس آؤٹ لائنز کو فالو کرے۔ کیونکہ اب یہ ویب ڈویلپمنٹ اور گرافک ڈیزائننگ والے زمانے میں صرف 1 سال ہی باقی ہے۔ ٹیکنالوجی میں تیزی سے جدت آرہی ہے۔ اب حکومت پائتھون ڈویلپر پیدا کرے، سائبر سیکیورٹی، آئی ٹی پروڈکٹ منیجرز اور دیگر کورسز کروائے جن کا مستقبل ہے۔ حکومت روایتی کورسز کروانا چھوڑ دے کیونکہ ان میں ایڈوانس لیول کی تربیت نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے سرمایہ کاری ضائع ہو رہی ہے۔
’ یہاں کے ٹرینرز کو جو آتا ہے وہ اسی کے مطابق آؤٹ لائن بنا لیتے ہیں۔ پہلے ان ٹرینرز کو ایک معیار کے مطابق ہائیر کیا جائے، اس کے بعد اس کی ٹریننگ ان عالمی اداروں سے کروائی جائے۔ اس کے لیے ان ٹرینرز کو ان ممالک میں نہ بھیجا جائے بلکہ وہاں سے 2 سے 3 ٹرینرز بلائے جائیں۔ کیونکہ پاکستانی جہاں کسی ٹریننگ کے لیے جاتے ہیں، اگر 20 لوگ گئے ہیں تو بہ مشکل 8 لوگ واپس آتے ہیں۔‘
ایک مزید سوال پر ان کا کہنا تھا کہ طلباء کو کورس کے دوران ٹول کٹ مہیا کی جائے۔ ان کی فائنل اسسمنٹ پاکستانی ٹرینر نہیں بلکہ تھرڈ پارٹی کرے۔ اس کے بعد ہی انہیں سرٹیفیکیٹ دیا جائے۔ اور ان تربیت یافتہ طلباء کو پھر مارکیٹ میں بھیجا جائے ورنہ مارکیٹ میں بیٹھے ایکسپرٹس مایوس ہوں گے۔ اور بچہ بھی مایوس ہوگا۔ حکومت کو ورڈ پریس اور گرافک ڈیزائننگ کے زمانے سے نکلنا ہوگا ورنہ یہ سب کھیل چلتا رہے گا۔ اس پر سرمایہ کاری بھی اچھی خاصی لگتی ہے لیکن اس کا 2،4 طلباء کے علاوہ نتیجہ بھی کوئی نہیں نکلتا۔
طاہر عمر پنجاب آئی ٹی بورڈ کے پروگرامز سے 2021 سے منسلک ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آئی ٹی کورسز کے لیے پنجاب آئی ٹی بورڈ کی جانب سے ٹرینر کو منتخب کرتے ہوئے مختلف مراحل پر اس کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ انٹرویو اور مکمل تشخیص کے بعد ہی ٹرینر کو کورس کے لیے ہائیر کیا جاتا ہے۔ ان کورسز کی کامیابی کے معیار کو اسی بنا پر پرکھا جاتا ہے کہ طلباء کورسز کے دوران یا کورس مکمل کرتے ہی کمائی شروع کر دیں۔
یہ کورسز طلباء کی اسکل ڈویلپمنٹ حوالے سے کتنے کارآمد ہیں؟طاہر عمر کہتے ہیں کہ ان کورسز میں انرولمنٹ کرنے والے طلباء مختلف مائنڈ سیٹ کے ساتھ آتے ہیں۔ طلباء کی ایک تعداد وہ ہوتی ہے جو صرف اس ذہنیت کے ساتھ آتے ہیں کہ بس انہیں سرٹیفیکیٹ مل جائے گا۔ اس کی وجہ سے ان کا فوکس ٹریننگ لینا ہوتا بھی نہیں ہے۔ وہ بس چاہتے ہیں کہ سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کے جو کچھ مخصوص پیرامیٹرز ہوتے ہیں، ان کو پورا کر کے سرٹیفیکیٹ حاصل کر لیا جائے۔ دوسری جانب کچھ افراد پروفیشنلی کہیں نہ کہیں مشکلات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں، ایسے افراد کے لیے یہ ٹریننگ پروگرامز کافی مفید ثابت ہوتے ہیں۔ وہ پھر ٹریننگ میں بتائی گئی ٹپس اور ٹریکس کا استعمال اپنے فری لانس کیرئیر میں کرتے ہیں۔ اور اچھا کمانے بھی لگتے ہیں۔
طاہر عمر کہتے ہیں۔ ان 2 مائنڈ سیٹس کے طلباء کے علاوہ بھی ایک تعداد ان طلباء کی بھی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ٹریننگ کوئی ایسا پیکیج ہے جو ان کے دماغ میں انسٹال ہو گا۔ اور ٹریننگ کرتے ہی ان کے پاس ہزاروں ڈالرز آنا شروع ہو جائیں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ٹرینر ایسا کوئی جادوئی کام کر دے کہ 2 گھنٹے کی ٹریننگ کے بعد ان کو پیسے آنا شروع ہو جائیں۔
’ اس مائنڈ سیٹ کے پیچھے سوشل میڈیا بالخصوص یوٹیوب پر مس لیڈنگ ویڈیوز کا دیکھنا ہے۔ ویڈیوز بنانے والوں کا مقصد تو صرف ویوز لینا ہوتا ہے۔ یوٹیوب پر تھمب نیل ایسے ہوتے ہیں جو لوگوں کو سستی، کاہلی کی طرف لے جاتے ہیں۔ مثلاً آپ بغیر محنت کے کیسے پیسے کما سکتے ہیں؟ صرف لاگ ان کریں ڈالرز آپ کے اکاؤنٹ میں ہوں گے۔ اس طرح کے مس لیڈنگ مواد سے ان کو ویوز تو بہت مل جاتے ہیں لیکن عوام کا مائنڈ سیٹ ایسا بن جاتا ہے کہ آن لائن فیلڈ میں بغیر محنت اور بغیر کام کیے ان کو پیسے آنا شروع ہو جائیں گے۔‘
ایک اور سوال کے جواب پر ان کا کہنا تھا کہ ان کورسز کو ریفرنس کے طور پر لینے والے طلباء ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ ٹریننگ کے مواد پر پریکٹس کرتے ہیں۔ اپنی معلومات اور اسکلز کو پریکٹس کے ذریعے بڑھاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پنجاب آئی ٹی بورڈ کے تمام کورسز لائیو ہوتے ہیں، ریکارڈڈ نہیں ہوتے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جو طلباء گھروں میں جا کر پریکٹس کرتے ہیں۔ وہ اگلے دن آکر جہاں مشکل ہو رہی ہوتی ہے اس سے متعلق پوچھتے ہیں۔ اور ہر طالب علم کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے ٹرینر اس کے لیول کے مطابق سمجھاتا ہے۔ جب کے ریکارڈڈ لیکچرز میں یہ سب ممکن نہیں ہوتا۔
طاہر عمر کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ نئے اور جدید کورسز بھی طلباء کے لیے متعارف کروائے تاکہ عالمی مارکیٹ تک بھی طلباء کی رسائی ہو۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے ان کا کہنا ہے کہ ا ئی ٹی کورسز ہے کہ حکومت مارکیٹ میں ٹرینرز کو طلباء کی حکومت کو طاہر عمر ہوتے ہیں جاتے ہیں کی تربیت کرتے ہیں طلباء کے طلباء کو کے مطابق ان کورسز کے بعد ا جاتا ہے ہوتی ہے کرتے ہی رہی ہے کے لیے کیا جا ہیں کہ
پڑھیں:
گندم ایکسپورٹ کی اجازت دی جائے، پنجاب کا وفاق سے مطالبہ
لاہور:پنجاب حکومت نے نجی شعبے کو گندم اسٹوریج کی سہولت کے نظام ای ڈبلیو آرسسٹم پر لاگو ہونے والے وفاقی ٹیکسز میں رعایت کیلیے وفاقی حکومت سے مطالبہ کردیا ہے۔
پنجاب نے وفاقی حکومت کو سفارش کی ہے کہ گندم مصنوعات کی ایکسپورٹ کیلئے اجازت دی جائے۔
تفصیلات کے مطابق وزیر زراعت پنجاب اور چیئرمین عاشق کرمانی کی زیر صدارت پنجاب ایگریکلچر کمیشن کا اجلاس ہوا جس میں گندم صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔