پاکستان میں ژالہ باری سے گاڑیوں یا سولر پینلز کو نقصان پہنچنے کے واقعات سامنے نہیں آتے یہی وجہ ہے کہ کبھی کسی فرد نے اپنی گاڑیوں اور سولر پینلز کو ژالہ باری سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کرنے کا سوچا بھی نہ تھا، 2 روز قبل اسلام آباد میں شدید ژالہ باری ہوئی جس سے سینکڑوں گاڑیوں اور گھروں کی چھتوں پر لگے سولر پینلز کو نقصان پہنچا، بعض گاڑیاں اور سولر پینلز اس ژالہ باری سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں:تیز آندھی طوفان، شدید بارش اور ژالہ باری کا الرٹ جاری

پھر سے ژالہ باری

اسلام آباد اور اس کے گردونواح میں محکمہ موسمیات نے آج پھر سے ژالہ باری کی پیشنگوئی کر رکھی ہے، وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ایسے کون سے حفاظتی اقدامات ہیں کہ جن کے ذریعے ژالہ باری کے دوران سولر پینلز اور گاڑیوں کو نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔

ژالہ باری کا ٹیسٹ

پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے رہنما وقاص ہارون نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ژالہ باری سے سولر پینلز کو ہونے والے نقصانات اب سامنے آرہے ہیں،  مارکیٹ میں مختلف قسم کے سولر پینلز دستیاب ہیں جو اچھے سولر پینلز ہیں ان پر 4 انچ کا ژالہ باری کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور 4 انچ تک کے اولے برسنے پر وہ محفوظ رہتے ہیں، پاکستان میں ویسے تو انشورنس کرانے کا رواج نہیں ہے لیکن اگر اپ سولرز پینلز کو ایسی آفات سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے انشورنس کرانا ضروری ہے، اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔

سولر پینلز کو ژالہ باری سے بچانا زیادہ ممکن نہیں

وقاص ہارون نے کہا سولر پینلز کو ژالہ باری سے بچانا زیادہ ممکن نہیں ہے، لیکن تیز ہوا سے ہونے والے نقصانات سے بچایا جا سکتا ہے، سولر پینلز کا ہر 3 ماہ بعد معائنہ کرانا چاہیے کہ سسٹم محفوظ لگا ہوا ہے اور کسی قسم کا کوئی معمولی یا چھوٹا نقص تو نہیں ہے۔

جالی، کمبل اور موٹا کپڑا

گرین ٹیک سولر کے مالک فواد احمد شیخ نے کہا کہ سولر پینلز کو ژالہ باری کے نقصانات سے بچانا بہت مشکل ہے، اگر آپ سولر پینلز کے اوپر ایک نیا فریم بنا کر اس پر جالی لگا لیں تو اس طرح سولر پینلز کو محفوظ تو کیا جا سکتا ہے، لیکن ایک تو اس پر خرچ آتا ہے اور اور دوسرا چونکہ جالی سے سورج کی روشنی بھی رک جائے گی جس سے سولر پینلز کی کارکردگی بھی کچھ متاثر ہو گی۔ سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ژالہ باری کی پیشنگوئی کو دیکھتے ہوئے سولر پینلز پر کوئی کمبل یا موٹا کپڑا کچھ دیر کے لیے رکھ دیا جائے، اس سے نقصان نہ ہونے یا بالکل کم ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔

پینلز مکمل تباہ نہیں ہوتے

فواد احمد شیخ نے کہا کہ سولر سسٹم میں سولر پینلز کی قیمت میں 65 فیصد ہوتی ہے، اگر پینلز کو نقصان پہنچے تو اس سے لاگت میں بڑا اضافہ ہو جاتا ہے، ژالہ باری سے اگر پینلز کا نقصان ہو بھی جائے تو وہ مکمل طور پر تباہ نہیں ہوتے ہیں، اگر ایک سولر پلیٹ میں ژالہ باری کے باعث ایک یا 2 سوراخ ہو بھی جائیں تو بھی وہ بجلی بناتا ہے البتہ اس کی کارکردگی میں 10 سے 15 فیصد کمی آ جاتی ہے۔

موٹی تہہ والا فوم

اسلام اباد میں گاڑیوں کی ڈینٹنگ کے شعبے سے منسلک شباب آٹوز کے مالک چوہدری منظور نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ژالہ باری سے ہونے والے نقصانات کو موقع پر تو نہیں البتہ پہلے سے حفاظتی اقدامات کر کے بچایا جا سکتا ہے، جب کبھی موسم خراب ہو یا ژالہ باری کی پیشنگوئی ہو تو اپنی گاڑی کو کسی چھت یا کسی گھنے درخت کے نیچے کھڑی کریں اور اگر اپ نے کہیں باہر گاڑی کھڑی کرنی ہوتی ہے تو اس کے لیے گاڑی کے کور کے اندر ایک موٹی تہہ والا فوم لگوا لیں اور اسی گاڑی میں رکھ لیں اور جب کبھی گاڑی کہیں باہر کھڑی کرنی ہو اور موسم خراب یا ژالہ باری کی پیشگوئی ہو تو اس کور کو گاڑی پر لازمی لگائیں۔

 چوہدری منظور نے کہا ژالہ باری کے دوران زیادہ نقصانات اس وجہ سے بھی ہوتے ہیں کہ لوگ گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں، جیسے ہی ژالہ کا آغاز ہو اور آپ گاڑی چلا رہے ہو تو گاڑی کو سائیڈ پر کھڑا کر دیں اور کوشش کریں کہ کسی درخت ، کسی شیڈ کے نیچے یا کسی پل کے نیچے کھڑے ہوں لیکن گاڑی ہرگز نہ چلائیں کیونکہ گاڑی کی اسپیڈ میں ہونے سے نقصان ہونے کا خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

چوہدری منظور ژالہ باری سولر پینل شباب آٹوز فواد احمد شیخ گرین ٹیک سولر ونڈ اسکرین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: چوہدری منظور ژالہ باری سولر پینل شباب ا ٹوز فواد احمد شیخ گرین ٹیک سولر ژالہ باری کی ژالہ باری سے ژالہ باری کے جا سکتا ہے کو نقصان نہیں ہے نے کہا کے لیے کہا کہ

پڑھیں:

مولانا نے اتحاد کیوں نہیں بنایا

تحریک انصاف کو ایک اور سیاسی دھچکا ملا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت جے یو آئی (ف) نے فی الحال تحریک انصاف کے ساتھ کسی بھی قسم کا سیاسی اتحاد نہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کا گرینڈ اپوزیشن الائنس بنانے کا خواب بھی ٹوٹ گیا۔ اگر دیکھا جائے تو مولانا کے انکار نے تحریک انصاف کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس سے تحریک انصاف کے سیاسی وزن میں کمی ہوگی۔ اور ان کی سیاسی تنہائی میں اضافہ ہوگا۔

تحریک انصاف کے سیاسی نقصان پر بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے اس پہلو پر غور کریں کہ اگر گرینڈا پوزیشن الائنس بن جاتا؟ تحریک انصاف اور جے یو آئی (ف) کا سیاسی اتحاد بن جاتا تو کیا ہوتا؟ یہ پاکستان کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی ہوتی۔ پی ٹی آئی کے سیاسی وزن میں بہت اضافہ ہوتا۔ حکومت کے مقابلہ میں اپوزیشن مضبوط ہوتی۔ میں ابھی احتجاجی سیاست کی بات نہیں کر رہا۔ یہ اتحا د نہ بننے سے تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اپوزیشن تقسیم رہے گی۔

آپ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلا س کی مثال سامنے رکھ لیں۔ مولانا اجلا س میں پہنچ گئے۔ حکومت کے مطابق اپوزیشن کی نمائندگی موجود تھی۔ تحریک انصاف کے بائیکاٹ کا وہ اثر نہیں تھا۔ جو مشترکہ بائیکاٹ کا ہو سکتا تھا۔ اسی طرح 26ویں آئینی ترمیم کی ساکھ بھی تب بہتر ہوئی جب اس کو اپوزیشن نے بھی ووٹ ڈالے۔ چاہے مولانا نے ہی ڈالے۔ اس لیے میری رائے میں مولانا کے اتحاد نہ کرنے کے فیصلے کا تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کو بھی کافی نقصان ہوگا۔

وہ بھی کمزور ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تو پہلے ہی کئی دن سے اس اتحاد کے نہ بننے کا اعلان کر رہے ہیں۔ وہ بار بار بیان دے رہے تھے کہ اگر مولانا نے اتحاد نہیں کرنا تو نہ کریں، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسے بیانات بنتے اتحاد کو بھی توڑ دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف کے اندر ایک دھڑا جہاں یہ اتحاد بنانے کی کوشش کر رہا تھا، وہاں تحریک انصاف کا ہی ایک اور دھڑا روز اس اتحاد کو بننے سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اگر اسد قیصر اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے تھے تو گنڈا پور اور عمر ایوب اس کے حق میں نہیں تھے۔

جے یو آئی (ف) کے رہنما کامران مرتضیٰ کا بہت سادہ موقف سامنے آیا ہے۔ان کے مطابق اسد قیصر جو اس اتحاد کے لیے تحریک انصاف کی طرف سے فوکل پرسن مقرر ہو ئے تھے، وہ لندن چلے گئے اور سیاسی طو رپر بھی خاموش ہو گئے۔ جب اعظم سواتی نے اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کے بیانات دیے تو کامران مرتضیٰ نے فوری بیان دیا کہ تحریک انصاف سے یہ بات طے ہوئی ہے کہ دونوں جماعتوں میں سے کوئی اکیلا اسٹبلشمنٹ سے بات نہیں کرے گا۔ جب بھی بات کی جائے مشترکہ بات کی جائے گی، آپ دیکھیں ابھی باقاعدہ اتحاد بنا ہی نہیں ہے اور تحریک انصاف کی طرف سے طے شدہ اصولوں سے انحراف شروع ہو گیا۔

جے یو آئی (ف) کے بیانات کہتے رہے اسد قیصر وضاحت کریں۔ ہم صرف ان کی وضاحت قبول کریں گے۔ کامران مرتضیٰ بیان دیتے رہے کہ وضاحت دیں ۔ لیکن اسد قیصر چپ رہے۔ ہ لندن سے واپس بھی نہیں آئے۔ ان کے علاوہ کسی نے (جے یو آئی ف )سے ملاقات کی کوشش بھی نہیں کی۔ ایسے میں آپ دیکھیں جے یو آئی (ف) کے پاس کیا آپشن رہ جاتے ہیں۔ وہ ایسے میں اتحاد نہ بنانے کا اعلان کرنے کے سوا کیا فیصلہ کر سکتے تھے۔

تحریک انصاف کا وہ دھڑا جو اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت چاہتا ہے۔ وہ اس اتحاد کی راہ میں رکاوٹ نظر آرہا تھا۔ وہ دھڑا جو کے پی میں حکومت میں ہے، وہ اس اتحادکے حق میں نظر نہیں آرہا تھا۔ عمر ایوب بھی زیادہ پرجوش نہیں تھے۔ یہ سب سامنے نظر آرہا تھا۔

یہ اتحاد نہ بننے سے تحریک انصاف کا سڑکیں گرم کرنے کا خواب بھی چکنا چورہو گیا ہے۔ تحریک انصاف اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اب اس میں سڑکیں گرم کرنے طاقت نہیں رہی ہے۔ پنجاب میں مزاحمتی طاقت ختم ہو گئی ہے۔

کے پی میں تقسیم بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لیے اگر مولانا ساتھ مل جاتے اور احتجاجی تحریک شروع کی جاتی تواس میں زیادہ طاقت ہوتی۔ مولانا کا ورکر زیادہ طاقتور ہے۔ مولانا کی احتجاجی سیاست کی طاقت آج بھی تحریک انصاف سے زیادہ ہے۔ لیکن یہ بھی تو تسلیم کریں کہ مولانا نے اگر اپنا ورکر باہر نکالنا ہے تو تحریک انصاف سے کچھ طے ہونا ہے۔ جے یو آئی کا ورکرکوئی کرائے کا ورکر تو نہیں جو تحریک انصاف کو کرائے پر دے دیا جائے۔

میں سمجھتا ہوں شاید اسٹبلشمنٹ مولانا کو تو اس اتحاد بنانے سے نہیں روک سکتی تھی لیکن اس لیے تحریک انصاف ہی کو استعمال کر کے اس اتحاد کو بننے سے روکا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے اس اتحاد کے خدو خال بھی واضح نہیں کیے تھے۔

تحریک انصاف نے اگر قائد حزب اختلاف کے عہدے اپنے پاس رکھنے تھے تو کم از کم اتحاد کی سربراہی کی پیشکش مولانا کو کی جانی چاہیے تھی۔ کیا تحریک انصاف چاہتی تھی کہ وہ اپوزیشن کو ملنے والے تمام عہدے بھی اپنے پاس رکھے اور مولانا سڑکیں بھی گرم کر دیں۔ مجھے لگتا ہے کہ تحریک انصاف میں لوگوں کو یہ خوف پڑ گیا کہ اگر مولانا آگئے تو ان کا عہدہ چلا جائے گا۔ کے پی خوف میں آگئے کہ مولانا کی جماعت کو اقتدار میں حصہ دینا ہوگا۔ قومی اسمبلی سینیٹ میں تحریک انصاف کی قیادت اپنے خوف میں پڑ گئی۔ اس لیے تحریک انصاف نے یہ اتحاد نہ بننے کی راہ خود ہموار کی۔

ایک اور بات جو جے یو آئی (ف) کے لیے شدید تشویش کی بات تھی کہ بانی تحریک انصاف نے ابھی تک اس اتحاد کو بنانے اور مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ ان کی پالیسی اور سوچ واضح نہیں تھی۔

بانی تحریک انصاف مولانا کے بارے میں خاموش ہیں۔ وہ نہ حق میں بات کر رہے ہیں نہ خلاف بیان کر رہے ہیں۔ جے یو آئی چاہتی تھی کہ کم از کم اس اتحاد کو بنانے کے لیے بانی کا خط ہی آجائے کہ وہ مولانا کو اتحاد بنانے کی دعوت دیں۔ اس بات کی کیا گارنٹی تھی کل بانی تحریک انصاف کہہ دیں کہ میں نے تو اس اتحاد کی منظوری نہیں دی تھی۔ میں نہیں مانتا۔ ایسا کئی مواقع پر ہو بھی چکا ہے۔ لیکن تحریک انصاف بانی تحریک انصاف کا خط لانے میں بھی ناکام رہی۔ اسد قیصر باہر تھے۔ خط آیا نہیں، کوئی ملنے کو تیار نہیں تھا، پھر اتحاد کیسے بنتا۔

متعلقہ مضامین

  • مریم اورنگزیب کی گاڑی کو حادثہ، محفوظ رہیں
  • سورج آگ برسانے کو تیار، کراچی سمیت سندھ کے کئی شہروں میں ہیٹ ویو الرٹ
  • ہمارے شہریوں کو کچھ ہوا تو بھارتی شہری بھی محفوظ نہیں رہیں گے، وفاقی وزرا
  • این ڈی ایم اے قائمہ کمیٹی کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیتا: اجلاس میں شکوہ
  • امریکا کا جنوب مشرقی ایشیا سے سولر پینلز کی درآمد پر 3500 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ
  • حکومتی کارکردگی کو کیسے بہتر بنایا جائے؟ وزیراعظم نے کمیٹی بنادی
  • مولانا نے اتحاد کیوں نہیں بنایا
  • تشدد کے ذریعے کسی بھی تحریک کو کامیاب نہیں بنایا جا سکتا، انوارالحق کاکٹر
  • تشدد کے ذریعے کسی بھی تحریک کو کامیاب نہیں بنایا جا سکتا : انوار الحق کاکڑ
  • پی ایس ایل میچ کے دوران ٹیچر کی گراؤنڈ میں پیپرز چیک کرنے کی ویڈیو وائرل