لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 17 اپریل 2025ء ) اربوں روپے ناجائز ریفنڈز دینے پر کارروائی کرنے کی ہدایت دی۔ ہر پالیسی کم از کم پانچ سال تک جاری رکھنے کی سفارش کریں گے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 153 کے غلط استعمال کو روکا گیا ہے، کیونکہ اس کے تحت ملازمین کو چھ لاکھ روپے تک کی انکم پر ٹیکس میں چھوٹ سے محروم کیا جاتا ہے۔ کنٹریکٹ ملازمین سے 22 فیصد تک ٹیکس لیا جا رہا ہے جسے شکایت ملنے پر قانون کے مطابق ریلیف دیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے کہا کہ ڈیلی ویجز ملازمین کو چھ لاکھ روپے تک ٹیکس میں ریلیف نہ دینے کا بھی نوٹس لیا ہے، ان ملازمین سے انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 149 کے تحت ٹیکس لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ٹیکس محتسب نے اربوں روپے کے ناجائز ریفنڈز کی تحقیقات کی ، سرکاری خزانے میں اربوں روپے جمع ہوئے۔

(جاری ہے)

پراپرٹی ٹیکس میں ردوبدل کی سفارشات بھی تیار کی جا رہی ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ کسٹم میں اربوں روپے کا مال ضائع ہو رہا ہے، انہوں نے کہا کہ اس کا دو مرتبہ نوٹس لیا گیا ہے۔ جن پر عمل کرنے سے کئی ارب روپے سرکاری خزانے میں جمع ہوئے۔ مزید بھی نوٹس لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اربوں روپے کی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے غلط استعمال کو روکا گیا ہے، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی تعداد خیبر پختونخوا میں ایک لاکھ بتائی گئی تھی جس پر ایف ٹی او نے سفارشات پیش کیں۔

گاڑیوں اور دیگر سامان کی نیلامی سے حکومت کو اربوں روپے ملے۔۔ صدر ایوانِ صنعت و تجارت لاہور ابو ذر شاد نے کہا کہ وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے کرپٹو کرنسی کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی سفارشات انتہائی اہم ہیں۔ یہ شعبہ ملک کی معیشت کو گھن کی طرح چاٹ رہا تھا۔ اس شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی تجاویز انتہائی اہم ہیں ان پر عمل درآمد سے موجود ٹیکس دہندگان پر مالی بوجھ کم ہو گا اور قومی معیشت میں کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے کہا کہ انہوں نے ایف ٹی او کو ایسا ادارہ بنانے کی کوشش کی کہ لوگ دوسرے قانونی ذرائع کی بجائے ایف ٹی او کو ترجیح دیں۔ ہمارے ہاں مقدمات دادا سے پوتے تک چلتے ہیں۔ ہم نے 65 دن میں فیصلہ کرنے کی قانونی مدد صرف 39 دن کردی۔ کمشنر اور چیف کلکٹر کو ایک فون کرنے سے مسئلے حل کروائے۔ ہم حقیقی، جائز ریفنڈز دلواتے ہیں ورنہ ایف ٹی او نے جعلی اور فلائنگ انوائسز کے کیسز پر ایف بی آر کے بعض افسران کے خلاف بھی کارروائی کرنے کی سفارشات پیش کیں۔

کرپٹو کرنسی کے ذریعے بلیک منی کو وائٹ کروایا جا رہا ہے۔ اس شعبے میں ٹیکس چوری روکنے کی ہدایت کی ہے۔ ہم بڑے ٹیکس دہندگان کو وی آئی پی کا درجہ دینے اور کچھ سہولتیں دینے کی سفارشات پیش کریں گے۔ وفاقی ٹیکس محتسب کو بے شمار بجٹ تجاویز موصول ہوئی ہیں جنہیں سکروٹنی کے بعد وزارت کو بھیجا جا رہا ہے۔ ایک ٹیکس دہندہ کو 2333 روپے واپس نہ ملنے پر سابق صدر نے ان سے معذرت کی تھی۔

ملتان ڈویژن میں ایک اسٹنٹ کمشنر کے اوپر تلے نوٹسز ٹیکس دہندہ کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ یہ مسئلہ حل کروایا۔ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر شکایت درج کرائی جا سکتی ہے۔ سابق صدر چیمبر کاشف انور نے ایف ٹی او کے اختیارات میں اضافے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ہر سرکاری پالیسی کم از کم پانچ سال جاری رہنا چاہیے۔ انہوں نے پی او ایس میں رجسٹریشن کے لیے رقم بڑھا کر ایک کروڑ روپے کرنے کی تجویز دی۔

انہوں نے ہر دو ماہ بعد پاسورڈ تبدیل کرنے کا فیصلہ واپس لینے اور ایک دکان کے مالک کا نام پوائنٹ آف سیل سے نکالنے کی سفارشات پیش کی۔ خواجہ خرم نے کہا کہ مجھے شکایت کرنے کے لیے انکم ٹیکس آرڈیننس میں دی گئی دو سال کی مدت کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف ٹی او میں درخواست دینے والوں کے کھاتے کھول دئیے جاتے ہیں۔ وفاقی ٹیکس محتسب نے کہا کہ ہماری ایف بی آر کے ساتھ یہ تحریری انڈرسٹینڈنگ موجود ہے کہ شکایت کنندہ کا کوئی پرانا کھاتا نہیں کھولا جائے گا۔

انہوں نے اس دستاویز کی کاپی مہیا کرنے کی ہدایت دی۔ رجسٹرار ایف ٹی او خالد جاوید نے کہا کہ انتقامی کارروائی جہاں بھی ظاہر ہو، اس کے خلاف فوری کارروائی کی جاتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں رجسٹرار خالد جاوید نے کہا کہ ایف ٹی او میں شکایت پر اگر.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سفارشات پیش اربوں روپے ٹیکس محتسب کی سفارشات ڈاکٹر آصف ایف ٹی او جا رہا ہے نے کہا کہ کی ہدایت انہوں نے کرنے کی

پڑھیں:

ڈاکٹر، مگر کونسا؟

آج عید کا دن ہے یعنی خاص دن سو صاحب آج کا کالم بھی خاص ہی ہونا چاہیے!

ہم سے بہت لوگ پوچھتے ہیں کہ کسی بھی بیماری کا علاج کروانے سے پہلے ڈاکٹر کا انتخاب کیسے کیا جائے؟ مشکل سوال ہے جناب اور جواب ڈھونڈنا اس سے بھی مشکل۔

پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ جس طرح ڈرائیونگ کی کتاب پڑھنے سے کوئی اچھا ڈرائیور نہیں بنتا یا فلائنگ لائسنس لینے سے اچھا پائلٹ نہیں بنتا بالکل اسی طرح ڈگریاں لینے سے کوئی بھی اچھا ڈاکٹر نہیں بنتا لیکن جس طرح جہاز اڑانے کے لیے لائسنس ہونا ضروری ہے اسی طرح مریض کا علاج کرنے کے لیے ڈگریاں اور لائسنس دونوں ضروری ہیں، سو ڈاکٹر کی قابلیت کا نمبر بعد میں آئے گا ۔

پہلے ڈگریوں کی بات کر لیں۔

ایم بی بی ایس مخفف ہے بیچلر آف سرجری / بیچلر آف میڈیسن۔ 5 برس کے اس کورس میں سرجری، میڈیسن، گائنی، ای این ٹی، آئی، سکن، میڈیکو لیگل، اناٹومی، فزیالوجی، بائیو کیمسٹری، پیتھالوجی، کمیونٹی میڈیسن، فارماکالوجی، جنیٹکس، ریسرچ  اور پیڈیٹرکس کی بنیادیں پڑھائی جاتی ہیں۔ ساتھ ساتھ اسپتال میں ہسٹری لینا اور مریض کا معائنہ کرنا سکھایا جاتا ہے۔ کورس اتنا وسیع ہے کہ کوئی بھی طالب علم اسے مکمل طور پہ نہیں پڑھ سکتا۔ بہت اچھے طالب علم بھی 70، 75 فیصد تک محدود رہتے ہیں۔

ان 5 سالوں میں وارڈوں میں ڈیوٹی ضرور لگتی ہے لیکن معاملہ ابتدائی اصول سیکھنے تک ہی رہتا ہے۔ یاد رہے کہ ان 5 برسوں میں آزادانہ طور پہ علاج کرنا سکھایا نہیں جاتا۔ جو بھی مریض داخل ہوں ان پہ کلاسیں لی جاتی ہیں لیکن ہر مریض میں سب علامات نہیں ہوتیں اور اسی طرح 5 برس گزر جاتے ہیں مگر بہت سی بیماریوں کا تذکرہ زبانی کلامی ہوتا ہے کیوں کہ ان کا مریض اس ہسپتال میں آتا ہی نہیں اور اگر کبھی آئے بھی تو جو بھی طالب علم اس دن موجود نہیں ہوں گے وہ اسے دیکھنے سے محروم رہ جائیں گے۔

یہ اور بات ہے کہ ایک بڑی تعداد زمانہ طالب علمی میں مریضوں کے پاس ہی نہیں پھٹکتی، انہیں ہسٹری اور معائنہ انتہائی بورنگ لگتا ہے۔

ایم بی بی ایس کے بعد ہاؤس جاب کرنے کی باری  آتی ہے۔ وہ لازمی ٹریننگ ہے اور اس کے بعد ہی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کسی بھی ڈاکٹر کو رجسٹر کرتی ہے۔

ہاؤس جاب کرنے کی مدت ایک سال ہے اور حالیہ برسوں میں اس کا طریقہ کار ہمارے زمانے سے بدل چکا ہے۔ ہمارے دور میں فریش گریجویٹ یہ فیصلہ کرتا تھاکہ اسے کسی ایک مضمون میں ایک سال یا کسی 2 مضامین میں 6، 6 مہینے عملی ٹریننگ کرنی ہے جن میں اس کی دل چسپی ہو اور وہ اس میں سپیشلائزیشن کر سکے۔

جیسے ہم نے 6 ماہ گائنی اور 6 ماہ میڈیسن میں ہاؤس جاب کیا۔ 36 گھنٹے کی ڈیوٹی کرنے کے بعد بھی ہم صرف اس قابل تھے کہ بغیر کسی پیچیدگی کے، انتہائی آسان سے مریض خود سے دیکھ سکیں۔ نہ تو آزادانہ تشخیص کرنے کے قابل تھے اور نہ ہی دوائیں اعتماد سے لکھ سکتے تھے۔ یاد رہے کہ ہم ان اچھے طالب علموں میں شامل تھے جو اعزاز کے ساتھ پاس ہوئے تھے اور جنہیں سیکھنے میں بے انتہا دل چسپی تھی سو اگر ہمارا یہ حال تھا تو سوچ لیجیے کہ ایک درمیانے قسم کے طالب علم کو کیا آتا ہو گا؟

آج کل ہاؤس جاب کا طریقہ بدل چکا ہے۔ دورانیہ تو ایک برس ہی ہے لیکن اب 4 مضامین میں 3، 3 ماہ کا عملی تجربہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔

5 برس ایم بی بی ایس اور ایک سال ہاؤس جاب کے بعد پی ایم ڈی سی یعنی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ڈاکٹر کو آر ایم پی بنا دیتی ہے جو ڈاکٹرز نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہوتا ہے۔ عوام اسے ایک اور ڈگری سمجھتی ہے جبکہ اس کا مطلب ہے کہ رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز۔

ملک عزیز میں یہ گریجویٹس، رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز شہر شہر پھیل جاتے ہیں اور اپنی دکان کھول کر پریکٹس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پریکٹس کی اجازت تو ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا کام بھی آتا ہے؟

جس کا اگر ایمانداری سے جواب دیاجائے تو وہ ہوگا، نہیں۔

ایم بی بی ایس کاعلم اتنا ہی ہے جتنا کسی بی اے پاس کا یعنی بیچلر آف آرٹس، یا بی بی اے کا یعنی بیچلر آف بزنس ایڈمنسٹریشن یا بی کام یعنی بیچلر آف کامرس۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ بی اے، بی بی اے یا بی کام والے اگر کوئی غلطی کریں تو صبر کیا جا سکتا ہے کہ یا حساب کتاب میں غلطی ہو گی یا کسی بزنس تیکنیک میں یا آرٹس کے مضامین میں لیکن اگر ایم بی بی ایس والا غلطی کرے تو یہ غلطی انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہے کہ اس سے انسانی جسم متاثر ہوتا ہے۔

اب آپ یہ اندازہ بھی لگا لیں کہ اگر ایم بی بی ایس والوں کا یہ حال ہے جو 6 برس کی محنت کے بعد میڈیکل کالج سے نکلے ہیں تو ڈسپنسرز، دائی یا ایل ایچ وی کا کیا عالم ہو گا جس میں کچھ مہینوں کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور ٹریننگ کے علاوہ زبانی پڑھائی جانے والے مختصر کورس کے مضامین پہ بھی دسترس نہیں ہوتی۔

اب بات کرتے ہیں اسپیشلائزیشن کرنے والے ڈاکٹرز کی۔ چونکہ ہمارا تعلق گائنی سے ہے سو اسی کی مثال دیں گے مگر اس کلیے کا سب مضمونوں پہ اطلاق ہو گا۔

وطن عزیز میں اسپیشلائزیشن کرنے کے بعد مختلف ڈگریاں دی جاتی ہیں۔ پہلے ڈگریوں کا نام بتا دیتے ہیں اور پھر ان میں دی جانے والی عملی ٹریننگ کی تفصیل بتائیں گے۔

ڈی جی او – ڈپلوما ان گائنی آبس

ایم ایس گائنی – ماسٹرز آف سرجری گائنی

ایم سی پی ایس – ممبر آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز

ایف سی پی ایس – فیلو آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز

کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان ایک ریگولیٹری ادارہ ہے جو ڈاکٹرز کی اسپیشلائزیشن کے دورانیے اور عمل کی نگرانی کرتا ہے اور پھر ٹریننگ کی مدت کے بعد امتحان لے کر پاس یا فیل کرتا ہے۔ اس ادارے سے پاس ہونے کے بعد پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ڈاکٹر کو اسپیشلسٹ یا کنسلٹنٹ کے طور پہ رجسٹر کر لیتی ہے اور ڈاکٹر کو لائنسس مل جاتا ہے کہ وہ اب اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے مطابق مریض کا علاج کرے گا۔

اس سے پہلے کہ آگے چلیں، سوال پھر وہی ہے ڈگری  لینے کے بعد قابلیت کا فیصلہ کیسے کریں؟

باقی آئندہ

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ایم بی بی ایس تشخیص ڈاکٹر طب علاج میڈیسن میڈیکل

متعلقہ مضامین

  • وفاق کو قرض دینے کی حیثیت بھی رکھتے ہیں ، وزیراعلیٰ خیبرپختونخواکادعویٰ
  • ’مناسب طریقے سے گوشت کو ذخیرہ کرکے صحت مند اور غذائیت سے بھرپور رکھا جا سکتا ہے‘
  • راولپنڈی: گوشت دینے کے بہانے گھر داخل ہو کر خاتون سے مبینہ زیادتی
  • تنخواہ داروں پر کتنا ٹیکس ہونا چاہیے؟ سابق وفاقی وزیر نے حکومت کو بجٹ تجاویز پیش کردیں
  • پنجاب میں نان رجسٹرڈ ریسٹورنٹ اور شادی ہالوں کی رجسٹریشن کا فیصلہ
  • اربوں روپے کی سرکاری تشہیر: مودی کی ناکامیاں چھپانے کی کوشش 
  • اربوں روپے کی سرکاری تشہیر: مودی کی ناکامیاں چھپانے کی کوشش
  • چیئرمین ایکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے بجٹ تجاویز پیش کردیں
  • القسام کی کارروائی بچوں و خواتین کے خون اور گھروں کی تباہی کا انتقام ہے، حماس رہنماء
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟