Nawaiwaqt:
2025-04-25@02:27:05 GMT

کیا 9 مئی پر ادارے نے کسی کا احتساب کیا؟ جسٹس حسن اظہر رضوی

اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT

کیا 9 مئی پر ادارے نے کسی کا احتساب کیا؟ جسٹس حسن اظہر رضوی

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں زیر سماعت فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل مکمل کرلیے. جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کیا 9 مئی پر ادارے نے کسی کا احتساب کیا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا اس سوال کا جواب اٹارنی جنرل دیں گے۔سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کے حوالے سے وزارت دفاع کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث پیش ہوئے تو عدالت نے انہیں آج دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔دوران سماعت جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ پک اینڈ چوز کس طرح سے کیا گیا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ پک اینڈ چوز والی بات نہیں ہے، جو جرم ہوں اس کے مطابق دیکھا جاتا ہے، کیس نوعیت مطابق انسداد دہشت گردی عدالت یا ملٹری کورٹ میں بھیجا جاتا ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 8 (3) میں کیا ہے؟ کیا سویلین اس کے زمرے میں آتے ہیں؟ یہاں پر بات صرف فورسز کے ممبر کو ڈسپلن میں رکھنے کے لیے ہے.

جہاں پر کلئیر ہو کہ یہ صرف ممبرز کے لیے وہاں پر مزید کیا ہونا ہے؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال اٹھایا کہ اگر کوئی سویلین فوجی تنصیبات پر حملہ کرتا ہے تو اس کا اس سے کیا تعلق ہے؟جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے یہ صرف ممبرز کے لیے ہے اور اگر اس میں سویلین کو لانا ہوتا تو پھر اس میں الگ سے لکھا جاتا. 73 کے آئین میں بہت سی چیزیں پہلے والے 2 آئینوں کی چیزیں ویسے کی ویسی ہی آ گئی ہیں، مارشل لا ادوار میں 1973 کے آئین میں بہت سی چیزیں شامل کی گئیں. آئینی ترمیم کر کے مارشل لا ادوار کی چیزیں تبدیل کرکے آئین کو اصل شکل میں واپس لایا گیا. لیکن اس میں بھی آرمی ایکٹ کے حوالے سے چیزوں کو نہیں چھیڑا گیا۔خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ اسلامی قانون میں حدود آرڈیننس کی سزا متعین کی جاتی ہے، جرم آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ہوا یا نہیں، یہ بھی پک اینڈ چوز نہیں ہے. فیصل صدیقی نے اس کیس میں 1995 کے قانون کا حوالہ دیا تھا، ہمارا کیس 1995 میں فال ہی نہیں کرتا۔خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ 2 (1)(ڈی) میں جرم کی نوعیت بھی بتا دی گئی ہے. آرمی ایکٹ میں جو جرائم اسپیسیفائے ہیں وہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں آتے ہیں.جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا اگر سول جرائم بھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں آئیں تو سب کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو سکتا ہے؟ اغوا کی مثال لے لیں، اگر اغوا دہشت گردی کے مقصد سے کیا گیا ہو تو ٹرائل انسداد دہشت گردی قانون کے تحت چلے گا، اگر اغوا تاوان کے مقصد سے کیا گیا ہو تو وہ تعزیرات پاکستان کے تحت چلے گا۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا آرمی ایکٹ میں ممبر ریلیٹیڈ ٹو آرمڈ فورسز ہے. اس کا کیا مطلب ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیےکہ جب کہہ دیا گیا کہ ممبر آف آرمڈ فورسز تو کیا بچ گیا؟خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ لا ریلیٹیڈ ٹو ممبر آف آرمڈ فورسز ایک مکمل قانون ہے. ممبر ریلیٹیڈ ٹو آرمڈ فورسز ایک پرویشن ہے مکمل قانون نہیں ہے، آئین ملٹری کورٹ کی کارروائی کی توثیق کرتا ہے، کورٹ مارشل آئینی طور پر تسلیم شدہ ہے. کورٹ مارشل زمانہ جنگ نہیں زمانہ امن میں بھی ہوتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب ایسا نہ ہو نمازیں بخشوانے آئے اور روزے گلے پڑ جائیں. جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ سیکشن 2 (1) (ڈی) (ون) 1967 میں شامل کیا گیا. یہ سیکشن 1962 کے آئین کے نیچے بنایا گیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 202 کے تحت دو طرح کی عدالتیں ہیں، ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ ملٹری کا قانون آئین سے ٹکراتا ہے؟ ہمارا 1973 کا آئین بڑا مضبوط ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ فیئرٹرائل کورٹ مارشل کارروائی میں بھی ہوتا ہے، پریذائیڈنگ افسران قانونی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں. جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ ملٹری کی 12، 13 تنصیبات پر حملے ہوئے. ملٹری تنصیبات پر وہ حملے سیکیورٹی کی ناکامی تھی. اس وقت ملٹری افسران کے خلاف کارروائی کی گئی تھی. کیا 9 مئی پر کسی کا ادارے نے احتساب کیا؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا اس سوال کا جواب اٹارنی جنرل دیں گے. دوران سماعت خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے خواجہ حارث کا شکریہ ادا کیا۔عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت 28 اپریل تک ملتوی کردی. 28 اپریل کو اٹارنی جنرل دلائل دیں گے۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: جسٹس حسن اظہر رضوی نے جسٹس مسرت ہلالی نے نے ریمارکس دیے کہ نے استفسار کیا خواجہ حارث نے اٹارنی جنرل آرمڈ فورسز میں سویلین ایکٹ میں میں بھی کے آئین کیا گیا کے تحت سے کیا

پڑھیں:

عمران کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: سپریم کورٹ

اسلام آباد(خصوصی رپورٹر +نوائے وقت رپورٹ)سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر حکومت پنجاب کی اپیلیں نمٹا دیں جب کہ دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ  نے ریمارکس دیے ہیں کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کے لیے دائر حکومت پنجاب کی اپیلوں پر سماعت کے دوران کہا کہ پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، بانی پی ٹی آئی کے وکلا دراخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ جسٹس ہاشم کاکڑ  نے ریمارکس دیئے کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی  نے کہا کہ ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں، جسمانی ریمانڈ کی تھی۔ جسٹس صلاح الدین پنور نے کہا کہ  کسی عام قتل کیس میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ڈیڑھ سال بعد جسمانی ریمانڈ کیوں یاد آیا، اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی  نے مؤقف اپنایا کہ ملزم بانی پی ٹی آئی نے تعاون نہیں کیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ جیل میں زیر حراست ملزم سے مزید کیسا تعاون چاہیے، میرا ہی ایک فیصلہ ہے کہ ایک ہزار سے زائد سپلیمنٹری چلان بھی پیش ہو سکتے ہیں، ٹرائل کورٹ سے اجازت لیکر ٹیسٹ کروا لیں۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ استغاثہ قتل کے عام مقدمات میں اتنی متحرک کیوں نہیں ہوتی۔اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے استدلال کیا کہ 14 جولائی 2024 کو ٹیم بانی پی ٹی آئی سے تفتیش کرنے جیل گئی لیکن ملزم نے انکار کردیا، ریکارڈ میں بانی پی ٹی آئی کے فیس بک، ٹیوٹر اور اسٹاگرام پر ایسے پیغامات ہیں جن میں کیا گیا اگر بانی پی ٹی کی گرفتاری ہوئی تو احتجاج ہوگا۔جسٹس صلاح الدین پنور نے کہا کہ  اگر یہ سارے بیانات یو ایس بی میں ہیں تو جاکر فرانزک ٹیسٹ کروائیں، اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے مؤقف اپنایا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں ہمارے ساتھ تعاون کیا جائے۔عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ  اب پانی سر سے گزر چکا ہے، 26 گواہان کے بیانات قلمبند ہو چکے ہیں۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اگر ہم نے کوئی آبزرویشن دیدی تو ٹرائل متاثر ہوگا، ہم استغاثہ اور ملزم کے وکیل کی باہمی رضامندی سے حکمنامہ لکھوا دیتے ہیں۔ذوالفقار نقوی نے کہا کہ  میں اسپیشل پراسیکیوٹر ہوں، میرے اختیارات محدود ہیں، میں ہدایات لیے بغیر رضامندی کا اظہار نہیں کر سکتا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ چلیں ہم ایسے ہی آرڈر دے دیتے ہیں، ہم چھوٹے صوبوں سے آئے ہوئے ججز ہیں، ہمارے دل بہت صاف ہوتے ہیں،  پانچ دن پہلے ایک فوجداری کیس سنا، نامزد ملزم کی اپیل 2017 میں ابتدائی سماعت کیلئے منظور ہوئی۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ کیس میں نامزد ملزم سات سال تک ڈیتھ سیل میں رہا جسے باعزت بری کیا گیا، تین ماہ کے وقت میں فوجداری کیسز ختم کر دیں گے۔عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا کہ  بانی پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر کی گئی اپیلیں دو بنیادوں پر نمٹائی جاتی ہیں، استغاثہ بانی پی ٹی آئی کے پولی گرافک ٹیسٹ، فوٹو گرافک ٹیسٹ اور وائس میچنگ ٹیسٹ کیلئے ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے میں آزاد ہے۔حکمنامہ کے مطابق بانی پی ٹی کی قانونی ٹیم ٹرائل کورٹ میں ایسی درخواست آنے پر لیگل اور فیکچویل اعتراض اٹھا سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • عمران کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا ، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، سپریم کورٹ
  • عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر اپیلیں نمٹادی گئیں
  • عمران خان کا جسمانی ریمانڈ دینے کی پنجاب حکومت کی استدعا مسترد
  • ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • ایک سال بعد جرم یاد آنا حیران کن ہے، ناانصافی پر عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ