Islam Times:
2025-11-03@14:46:09 GMT

رہبر معظم انقلاب اسلامی کی سفارتی حکمت عملی

اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT

رہبر معظم انقلاب اسلامی کی سفارتی حکمت عملی

اسلام ٹائمز: آرٹیکل کا اختتام رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے اس موقف سے کرتے ہیں، جو انہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اختیار کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: "میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ گفتگو (مذاکرات)، وزارت خارجہ کے دسیوں کاموں میں سے ایک ہے۔ یعنی وزارت خارجہ دسیوں کام کر رہی ہے اور انہیں میں سے ایک یہ عمان کی گفتگو ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں، جو ابھی حال ہی میں سامنے آئے ہیں۔ کوشش کریں کہ ملک کے مسائل کو ان مذاکرات سے نہ جوڑیں۔ یہ میری تاکید ہے۔ جو غلطی جامع ایٹمی معاہدے میں کی، اس کی تکرار نہ کریں۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

گذشتہ ہفتے ایران کی خارجہ پالیسی امریکہ اور سعودی عرب سے روس تک فعال رہی۔ اہم سفارتی واقعات رونماء ہوئے اس اسٹریٹجک تحرک میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ  نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی کی اس حکمت عملی کو چند نکات میں بیان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک: رہبر معظم انقلاب اسلامی کا پہلا بڑا قدم ٹرمپ کے خط کے جواب میں ایسی تدبیر اختیار کرنا تھا، جس سے سانپ کو مار کر لاٹھی بھی بچانا تھا۔ اس حوالے سے  امریکہ پر مذاکرات کے مقام کو مسلط کرنا، مذاکرات کو بالواسطہ بنانا اور سفارت کاری اور اقتدار آمیز فوجی پیغامات کے ذریعے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے عمل کو کم کرنا تھا۔

دو: رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا دوسرا اہم قدم روسی صدر کو مکتوب پیغام بھیجنا تھا۔ اگرچہ پوٹن کو بھیجے گئے پیغام کی تفصیلات عام نہیں کی گئیں، لیکن ایران اور امریکہ کے بالواسطہ مذاکرات کے آغاز کے پیش نظر، روس کے ساتھ تعلقات میں یہ اضافہ اس بات کا اشارہ ہوسکتا ہے کہ رہبر انقلاب نے بڑی ہوشیاری سے مشرقی طاقتوں کے ساتھ اتحاد کے عمل کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے دور اور آزاد رکھنا ضروری سمجھا اور آپ اس عمل سے یہ پیغام  دینا چاہتے ہیں کہ وہ  مشرق کے اسٹریٹجک محور کو مذاکرات کے اہم دنوں میں فعال اور مثبت حوصلہ افزائی کے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ وقت ضرورت ان تعلقات سے فائدہ اٹھانے کا امکان باقی رہے۔

اس کے علاوہ، یہ گذشتہ دور کے مذاکرات میں خارجہ پالیسی کے یک طرفہ ہونے کے تجربے اور خطرے کو بھی ایرانی حکومت سے دور کرتا ہے، جس میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے نتائج پر حد سے زیادہ انحصار تھا۔ تین: تیسرا اہم واقعہ سعودی عرب کے وزیر دفاع کی رہبر انقلاب سے ملاقات تھی۔ اس ملاقات کا پیغام یہ ہے کہ ایران ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور توسیع کو ایک خاص رفتار کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ ان بہتر تعلقات میں اہم اقتصادی اور سلامتی کے اہداف شامل ہیں، لیکن واضح طور پر یہ خطے میں اسرائیل پر سلامتی اور سیاسی  حوالے سے دباؤ کو بڑھا سکتا ہے۔

چار: آیت اللہ خامنہ ای نے ایران کی خارجہ پالیسی میں عملاً ایک وسیع سفارت کاری کا میدان فعال کر دیا ہے۔ اس تیار کردہ میدان میں امریکہ کے مقابلے میں آزادانہ عمل کیا جاسکتا ہے، اس سے ایرانی مذاکرات کاروں کی سفارتی صلاحیت کو بڑھاوا ملا ہے اور وہ امریکی فریق کے اسٹریٹجک حسابات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اس سفارتی حکمت عملی سے اگر مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں، تو ایران کے پاس مشرق اور مغرب دونوں کی صلاحیتیں موجود ہوں گی اور اگر کسی بھی وجہ سے مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں، تو مشرقی طاقتوں کے ساتھ اسٹریٹجک اتحاد کا عمل اور ملک کی خارجہ پالیسی کے دیگر اقدامات معطل نہیں ہوں گے۔

آرٹیکل کا اختتام رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے اس موقف سے کرتے ہیں، جو انہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اختیار کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: "میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ گفتگو (مذاکرات)، وزارت خارجہ کے دسیوں کاموں میں سے ایک ہے۔ یعنی وزارت خارجہ دسیوں کام کر رہی ہے اور انہیں میں سے ایک یہ عمان کی گفتگو ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں، جو ابھی حال ہی میں سامنے آئے ہیں۔ کوشش کریں کہ ملک کے مسائل کو ان مذاکرات سے نہ جوڑیں۔ یہ میری تاکید ہے۔ جو غلطی جامع ایٹمی معاہدے میں کی، اس کی تکرار نہ کریں۔ اس وقت ہم نے ہر چیز مذاکرات میں پیشرفت پر منحصر کر دی تھی۔ یعنی ملک کو مشروط حالت میں پہنچا دیا۔ جب ملک مذاکرات سے مشروط ہو جائے تو سرمایہ کار، سرمایہ کاری نہیں کرتا۔ یہ بات ظاہر ہے، کہتا ہے کہ دیکھیں کہ مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔

یہ مذاکرات بھی جملہ امور میں سے ایک ہے۔ ایک بات ہے، ان بہت سے کاموں میں سے ایک ہے، جو وزارت خارجہ انجام دے رہی ہے۔ ملک کو مختلف شعبوں میں اپنا کام کرنا چاہیئے۔ صنعت میں، زراعت میں، مختلف اور گوناگوں خدمات کے شعبوں میں، ثقافت کے شعبے میں، تعمیراتی شعبوں میں، خاص موضوعات میں جن کی خاص تعریف کی گئی ہے، جیسے یہی جنوب مشرق کے مسائل ہیں۔ ان پر سنجیدگی سے کام کریں۔ ان مذاکرات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، جو عمان میں شروع ہوئے ہیں۔ یہ ایک مسئلہ ہے۔ اسی کے ساتھ، ہمیں نہ مذاکرات کے حوالے سے نہ بہت زیادہ خوش فہمی میں رہنا چاہئے اور نہ ہی بہت زیادہ بدگمان رہنا چاہیئے۔

بہرحال یہ بھی ایک کام ہے، ایک اقدام ہے، ایک فیصلہ کیا گیا ہے، اس پر عمل کیا جا رہا ہے اور ابتدائی مرحلے میں بہت اچھی طرح عمل ہوا ہے۔ اس کے بعد بھی پوری دقت نظر کے ساتھ عمل کیا جائے، ممنوعہ خطوط (ریڈ لائنیں) فریق مقابل کے لئے بھی واضح ہیں اور ہمارے لئے بھی۔ مذاکرات اچھی طرح انجام دیئے جائيں۔ ممکن ہے کہ نتیجہ خیز ہوں اور ممکن ہے کہ نتیجہ بخش نہ ہوں۔ ہم نہ بہت زیادہ خوش فہمی میں ہیں اور نہ ہی بہت زیادہ بدگمان ہیں۔ البتہ فریق مقابل سے بہت بدگمان ہیں،  فریق مقابل ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے، ہم فریق مقابل کو پہچانتے ہیں۔ لیکن اپنی توانائیوں پر ہمیں پورا اعتماد ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہم بہت سے امور انجام دے سکتے ہیں، اچھے طریقوں سے بھی واقف ہیں۔"

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: رہبر انقلاب اسلامی حضرت ا یت اللہ العظمی امریکہ کے ساتھ مذاکرات سید علی خامنہ خارجہ پالیسی میں سے ایک ہے مذاکرات سے مذاکرات کے دسیوں کام بہت زیادہ حوالے سے خامنہ ای کام کر ہے اور

پڑھیں:

افغانستان سفارتی روابط اور علاقائی مفاہمت کے لیے پرعزم ہے، امیر خان متقی

بیان میں کہا گیا ہے کہ خطے کے ممالک خصوصاً ازبکستان کے ساتھ مثبت روابط، افغانستان کے اُس رویے کی عکاسی کرتے ہیں جو استحکام، اقتصادی شراکت، اور علاقائی ہم آہنگی کے فروغ پر مبنی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ عبوری افغان طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ نے ازبکستان کے وزیرِ خارجہ سے ٹیلی فونک گفتگو میں اقتصادی تعاون کے فروغ اور سفارت کاری، باہمی احترام، اور تعمیری تعلقات پر افغانستان کے عزم پر زور دیا۔ طالبان کی وزارتِ خارجہ کے دفتر نے اطلاع دی کہ وزیرِ خارجہ امارتِ اسلامی افغانستان امیر خان متقی نے ازبکستان کے وزیرِ خارجہ بختیار سعیدوف سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔ اس گفتگو میں دونوں وزراء نے افغانستان اور ازبکستان کے دو طرفہ تعلقات کے فروغ، اقتصادی تعاون کے استحکام، اور علاقائی صورتحال پر تبادلۂ خیال کیا۔ 

بیان کے مطابق امیر خان متقی نے کہا کہ افغانستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں سفارت کاری، مفاہمت، اور علاقائی تعاون کو اولین ترجیح دی ہے، افغانستان تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ باہمی احترام، عدمِ مداخلت، اور تعمیری روابط پر مبنی تعلقات کا خواہاں ہے، خطے کے ممالک خصوصاً ازبکستان کے ساتھ مثبت روابط، افغانستان کے اُس رویے کی عکاسی کرتے ہیں جو استحکام، اقتصادی شراکت، اور علاقائی ہم آہنگی کے فروغ پر مبنی ہے۔ جواب میں بختیار سعیدوف نے کابل کے تعمیری مؤقف کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ازبکستان سمجھتا ہے کہ علاقائی استحکام تمام ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مداخلت کے بجائے اعتماد سازی، اقتصادی تعاون، اور مکالمے کو فروغ دینا چاہیے۔ واضح رہے کہ 2021 میں طالبان کی واپسی کے بعد، افغانستان اور ازبکستان کے تعلقات مجموعی طور پر استحکام کے ساتھ جاری رہے ہیں۔ ازبکستان نے سیاسی تبدیلیوں کے بعد بھی کابل سے اپنے سفارتی و تجارتی روابط برقرار رکھے۔ تاشکند اس وقت علاقائی توانائی و بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں، جیسے کاسا-1000 بجلی کی ترسیل اور مزار شریف ترمذ ریلوے لائن میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، اور دونوں ممالک کے حکام بارہا اقتصادی اور ٹرانزٹ تعاون کے تسلسل پر زور دے چکے ہیں۔  

متعلقہ مضامین

  • افغانستان سفارتی روابط اور علاقائی مفاہمت کے لیے پرعزم ہے، امیر خان متقی
  • امریکا بھارت معاہدہ پاکستان کی سفارتی ناکامی ہے،صاحبزادہ ابوالخیر زبیر
  • ایران اور امریکہ جوہری معاملے پر دوبارہ مذاکرات شروع کریں، بحرین
  • کینیڈا اور فلپائن کا دفاعی معاہدہ، چین کو روکنے کی نئی حکمتِ عملی
  • پاک افغان مذاکرات کی اگلی نشست سے قبل اسحاق ڈار کا ترکیہ دورہ متوقع
  • مذاکرات کے تناظر میں لاہور سے انقرہ کا دورہ ، نائب وزیرِ اعظم ترکی روانہ
  • پاک افغان مذاکرات سے قبل اہم سفارتی سرگرمیاں، نائب وزیراعظم ترکی جائیں گے
  • وزارت خارجہ اور سفارتی مشننز  میں بڑے پیمانے پر تعیناتیاں
  • افغانستان سے کشیدگی نہیں،دراندازی بند کی جائے، دفتر خارجہ
  • افغان طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے اگلے مرحلے کے مثبت نتائج کے بارے میں پرامید ہیں، دفتر خارجہ