ملتان پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مفتی منیب الرحمن صاحب کی طرف سے جاری کیے گئے فتوی جہاد کی مکمل حمایت کرتے ہیں، اب مسلم ریاستوں کو مشترکہ طور پر اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کرنا چاہئیے، ہمیں 57 مسلم ممالک کے بے حس حکمرانوں سے کوئی امید نہیں لیکن "مجھے ہے حکم اذاں" کے تحت اپنی ذمہ داری پوری کرتے رہیں گے۔  اسلام ٹائمز۔ عالمی حالات تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں اور ہم بطور مسلم اور پاکستانی اس صورتحال سے لاتعلق نہیں رہ سکتے، ہم چاہیں یا نا چاہیں جلد یا بدیر ہمیں اس جنگ کا حصہ بننا پڑے گا، ہماری خاموشی ملک و ملت اور عالم اسلام کے لیے ایک مجرمانہ اقدام ہوگا، اسرائیل اسلام دشمنی میں تمام حدیں پار کر چکا ہے اور غزہ میں کھلی دہشتگردی کرکے مسلسل نسل کشی کررہا ہے، ان خیالات کا اظہار سربراہ پاکستان سنی تحریک محمد شاداب رضا نقشبندی نے ملتان پریس کلب میں پرہجوم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور اس کے سرپرست و معاون ممالک اسرائیل سے بڑے مجرم ہیں، غزہ وفلسطین میں مسلمانوں پر زمین تنگ کردی گئی ہے، ان تک کسی بھی قسم کی امداد بھی نہیں پہنچنے دی جا رہی، اسرائیل سے ہمدردی رکھنے والے میر جعفر اور میر صادق ہیں جو اسلام کے خلاف سازش اور مسلمانوں کی نسل کشی کے جرم میں برابر کے شریک ہیں، اسرائیل کے دہشتگردانہ حملوں اور انسانیت سوز مظالم کا ساتھ دینے والوں کا شمار بھی اسلام کے دشمنوں میں کیا جائے گا۔

 انہوں نے کہا کہ پاکستان سنی تحریک مفتی منیب الرحمن صاحب کی طرف سے جاری کیے گئے فتوی جہاد کی مکمل حمایت کرتے ہیں، اب مسلم ریاستوں کو مشترکہ طور پر اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کرنا چاہئیے، ہمیں 57 مسلم ممالک کے بے حس حکمرانوں سے کوئی امید نہیں لیکن "مجھے ہے حکم اذاں" کے تحت اپنی ذمہ داری پوری کرتے رہیں گے، ہم نے پاکستان کے اہل اقتدار کو بیدار کرنے کی کوشش کے تحت ایک کھلا خط جاری کیا ہے جس میں قرآن و حدیث اور قائد اعظم کے فرمان کی روشنی میں پوری دنیا بلخصوص غزہ کے مظلوم عوام کے لیے ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے اپنا دینی فریضہ سر انجام دیا ہے، ملک بھر میں ہمارے تنظیمی ذمہ داران تمام ایم این ایز تک یہ کھلا خط پہنچا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ امریکہ، یورپ اور ایشیا سمیت دنیا بھر میں عوام الناس غزہ کے مظلوموں کے آواز بلند کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی و امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم تیز ہوتی جا رہی ہے، پاکستان کے عوام فلسطین کے حق میں کھڑے ہیں اور ان سے یکجہتی کا مظاہرہ کررہے ہیں، اسرائیل کی بربادی اس کا مقدر بن چکی ہے، اسرائیل غزہ میں خیمہ بستیوں اور نہتے لوگوں پر بمباری کررہا ہے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کے قوانین اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو پاوں تلے روند دیا ہے، اس پر عالمی ادارے کاروائی کرنے سے بھی قاصر ہیں، غزہ کی صورتحال انتہائی تشویناک ہو چکی ہے، اسرائیل کو مظالم سے روکنے کیلئے طاقت کا استعمال کرنا ہوگا، عالمی قوانین اور انصاف کی بالادستی کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے اسرائیل کو عالمی سطح پر پوری طاقت سے فلسطینیوں کی نسل کشی سے روکا جائے، اسرائیل جنگی جرائم کا عادی مجرم بن چکا ہے، عالمی برادری تعصب کا چشمہ اتار کر عالمی قوانین اور انصاف کی بالادستی کیلئے مثبت کردار ادا کرے، پوری دنیا کے لوگ اسرائیل و امریکہ کا معاشی بائیکاٹ کر ہی ظلم کا جواب دے سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کے ترقی اور مہنگائی ختم کرنے دعوے محض دعوے ہی لگ رہے ہیں، جب تک معاشی استحکام نہیں آتا اور اس کے مثبت اثرات عوام تک نہیں پہنچتے عوام ان دعوو ں کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ رہے ہیں اور ان

پڑھیں:

غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-2

 

اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے وہ حقیقت بے نقاب کر دی ہے جو دنیا کی طاقتور حکومتیں برسوں سے چھپاتی آرہی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں گزشتہ دو برسوں کے دوران ہونے والی نسل کشی صرف اسرائیل کی کارروائی نہیں تھی بلکہ تریسٹھ ممالک اس جرم میں شریک یا معاون رہے۔ ان میں امریکا، برطانیہ، جرمنی جیسے وہ ممالک شامل ہیں جو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کہتے نہیں تھکتے۔ رپورٹ نے واضح کیا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف جو وحشیانہ کارروائیاں کیں، وہ کسی ایک ملک کی طاقت سے ممکن نہ تھیں بلکہ ایک عالمی شراکت ِ جرم کے نظام کے تحت انجام پائیں۔ یہ رپورٹ مغرب اور بے ضمیر حکمرانوں کا اصل چہرہ عیاں کرتی ہے۔ دو برسوں میں غزہ کی زمین خون میں نہا گئی، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں بچے اور عورتیں شہید ہوئیں اور پورا خطہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، مگر عالمی ضمیر خاموش رہا۔ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کے چارٹر اور اقوام متحدہ کے وعدے سب اس وقت بے معنی ہو گئے۔ فرانسسکا البانیز کی رپورٹ نے بتا دیا کہ عالمی طاقتوں نے اسرائیل کے ظلم کو روکنے کے بجائے اسے معمول کا حصہ بنا دیا۔ امریکا نے نہ صرف اسرائیل کو مسلسل عسکری امداد فراہم کی بلکہ سلامتی کونسل میں اس کے خلاف آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر کے اسے مکمل تحفظ دیا۔ برطانیہ نے اپنے اڈے اسرائیلی جنگی مشین کے لیے استعمال ہونے دیے، جرمنی اور اٹلی نے اسلحے کی سپلائی جاری رکھی، اور یورپی ممالک نے اسرائیلی تجارت میں اضافہ کر کے اس کے معیشتی ڈھانچے کو مزید مضبوط کیا۔ حیرت انگیز طور پر انہی ممالک نے غزہ میں انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ بند کر دی، یوں انہوں نے مظلوموں سے امداد چھین کر ظالم کو سہارا دیا۔ یہ رویہ صرف دوغلا پن نہیں بلکہ کھلی شراکت ِ جرم ہے۔ رپورٹ نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیل نے انسانی امداد کو جنگی ہتھیار بنا دیا۔ محاصرہ، قحط، دوا اور خوراک کی بندش کے ذریعے فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دی گئی، اور دنیا کے بڑے ممالک اس جرم پر خاموش تماشائی بنے رہے۔ فضائی امداد کی نام نہاد کوششوں نے اصل مسئلے کو چھپانے کا کام کیا، یہ دراصل اسرائیلی ناکہ بندی کو جواز فراہم کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق عرب اور مسلم ممالک نے اگرچہ فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اٹھائی، مگر ان کی کوششیں فیصلہ کن ثابت نہ ہو سکیں۔ صرف چند ممالک نے جنوبی افریقا کے کیس میں شامل ہو کر عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کی حمایت کی، جب کہ بیش تر مسلم ممالک بیانات اور قراردادوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ کمزوری بھی فلسطینیوں کو انصاف کی فراہمی میں روکاٹ رہی اور اس طرح وہ حکمران بھی شریک جرم ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ نے عالمی دوہرے معیار کو برہنہ کر دیا ہے۔ روس یا کسی اور ملک کے خلاف پابندیاں لگانے والی مغربی دنیا اسرائیل کے معاملے میں خاموش ہے۔ یہ خاموشی دراصل ظلم کی حمایت ہے۔ جب انسانی حقوق کی دہائی دینے والے ملک خود ظالم کے معاون بن جائیں، تو یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے نظام پر سوال اُٹھاتا ہے بلکہ پوری تہذیب کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا دیتا ہے۔ رپورٹ نے واضح سفارش کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی، تجارتی اور سفارتی تعلقات فوری طور پر معطل کیے جائیں، غزہ کا محاصرہ ختم کر کے انسانی امداد کے راستے کھولے جائیں، اور اسرائیل کی رکنیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت معطل کی جائے۔ عالمی عدالتوں کو فعال بنا کر ان ممالک کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے نسل کشی میں براہِ راست یا بالواسطہ کردار ادا کیا۔ غزہ میں اب تک اڑسٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ہر روز نئے ملبے کے نیچے سے انسانی لاشیں برآمد ہوتی ہیں، مگر عالمی طاقتیں اب بھی امن کی بات صرف بیانات میں کرتی ہیں۔ درحقیقت یہ امن نہیں بلکہ ظلم کے تسلسل کو وقت دینا ہے۔ فلسطینیوں کی قربانی انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ جب غزہ جل رہا تھا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دبے تھے، جب بھوک اور پیاس کو ہتھیار بنایا گیا تھا، تب تم کہاں تھے؟

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • درانی کی سہیل آفریدی کی تعریف،شہباز شریف پر تنقید
  • عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کے معاشی استحکام کا اعتراف کیا ہے؛ وزیر خزانہ
  • بنیادی  انفرا اسٹرکچر کے بغیر ای چالان سسٹم کا نفاذ: کراچی کی سڑکوں پر سوالیہ نشان
  • 9مئی واقعات میں ملوث ہونے پر سہیل آفریدی کی عوامی عہدے کے لیے اہلیت سوالیہ نشان ہے، اختیار ولی خان
  • آزاد کشمیر ہمیں جہاد سے ملا اور باقی کشمیر کی آزادی کا بھی یہ ہی راستہ ہے، شاداب نقشبندی
  • فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • محمد آصف عالمی اسنوکر چیمپئن شپ میں اپنے اعزاز کا دفاع کریں گے
  • محمد آصف عالمی اسنوکر چیمپئن شپ میں اپنے اعزاز کا دفاع کرینگے
  • ای چالان کو سکھر، لاڑکانہ حیدر آباد و دیگر شہروں میں بھی نافذ کیا جائے، شاداب نقشبندی