وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک ذاتی اپیل
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
محترم وزیر اعظم،یہ کسی سیاسی جماعت کا منشور نہیں، بلکہ ایک انسان کی پکار ہے۔یہ ایک قوم کی فریاد نہیں، بلکہ ان دریاؤں کے گواہ کی صدا ہے،جو پلوں پر یقین رکھتا ہے، دیواروں پر نہیں۔23 اپریل 2025 کو، ہندوستان نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا۔ایک ایسا معاہدہ جو جنگوں، بموں اور دہائیوں کی دشمنی کے باوجود قائم رہا۔پینسٹھ برس تک اس نے یہ ثابت کیا کہ دشمنی کے سائے میں بھی انسانیت زندہ رہ سکتی ہے، مگر اب ایک ہی فیصلے نے اس پل کو توڑ دیا۔آپ جانتے ہوں گے، وزیر اعظم صاحب، تاریخ میں کبھی کسی مہذب قوم نے دریا کو ہتھیار نہیں بنایا۔کسی جمہوریت نے، کسی آئین پسند ریاست نے، بغیر تحقیق، بغیر قانونی عمل اور بغیر اخلاقی جواز کے،دو سو بیس ملین انسانوں کا پانی نہیں روکا۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی مثال ہے اور خطرناک بھی ہے۔ پانی ہتھیار نہیں، یہ ایک امانت ہے۔پانی صرف ایک وسیلہ نہیں بلکہ یہ زندگی ہے،یہ مقدس ہے،یہ ہماری تہذیب کی روح ہے۔سَرَسوتی سے سندھ، گنگا سے چناب تک ۔۔ ہمارے خمیر میں یہی پانی رواں دواں ہے۔اسے انتقام کے جذبے میں روک دینا طاقت نہیں بلکہ اخلاقی زوال ہے۔کربلا کو یاد کیجئے۔جب حسین ابن علیؑ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں پر دریا بند کیا گیا،تو یہ صرف انسانوں کے خلاف جرم نہ تھابلکہ یہ ضمیر کے خلاف ایک بغاوت تھی۔ ظالموں نے جنگ جیتی ہو گی،مگر تاریخ نے ہمیشہ پیاسوں کا ساتھ دینے والوں کو یاد رکھا ہے۔ آج بھی ہم کربلا کا ماتم صرف خون کے لیے نہیں کرتے بلکہ اس پیاس کے لیے کرتے ہیں جس پر حق والوں کو پانی نہ دیا گیا،اور ان لوگوں کو سلام کرتے ہیں جنہوں نے خود پانی نہیں پیا جب تک مظلوم پیاسے تھے۔ تو پھر ایک مبینہ دہشت گرد کی سزا دو سو بیس ملین انسانوں کو کیوں؟
آپ کے پاس کشمیر میں پانچ لاکھ فوجی ہیں،پہلگام جانے والے راستے پر بارہ چیک پوسٹس ہیں۔ اگر نظام ناکام ہوا، تو اس کی سزا پوری قوم کو کیوں؟تحقیقات کہاں ہیں؟ ثبوت کہاں ہے؟کیا اب ہر حملے کے بعد اجتماعی قحط معمول بنے گا؟ کیا ریاست کی سیکیورٹی کی ناکامی پورے خطے کو سزا دینے کا جواز ہے؟ یہ کوئی قومی دفاع نہیں ہے بلکہ ریاستی انتقام ہے اور تاریخ میں یہ عمل قابل فخر نہیں ہو سکتا۔دریاؤں کی جنگ میں کوئی فتح نہیں ہوتی۔آپ ان دریاؤں کو نہ جغرافیائی لحاظ سے قید کر سکتے ہیں،نہ اخلاقی لحاظ سے۔نہ آپ کے پاس مکمل بند، نہ ذخیرہ، نہ اخلاقی جواز، مگر ایک چیز ضرور ہے اور وہ ہے دنیا میں ہندوستان کی ساکھ۔ کیا آپ ایک لمحے کی تالیاں سننے کے لیےیہ مقام داؤ پر لگائیں گے؟جنیوا کنونشن، ویانا معاہدہ، اور عالمی بینک کے تحت سندھ طاس معاہدہ اسی لیے بنائے گئے تھےکہ انتقام کو لگام دی جائے،جذبات کو قانون نہ بننے دیا جائے،تہذیب کو غصے کے ہاتھوں برباد ہونے سے بچایا جائے۔ وزیر اعظم صاحب،ایسا قدم اٹھائیے کہ تاریخ آپ کو یاد رکھے، بطور ایک رہنما، جس نے دشمن کو سزا نہیں دی بلکہ انسانیت کا ساتھ دیا۔ دریائوں کو رواں کیجئے۔ معاہدے کو بحال کیجئے۔ بلندی کا راستہ اپنائیے، کیونکہ امن کمزوری نہیں۔ عظمت ہے۔ امن وہ طاقت ہے جو صبر سے جنم لیتی ہے۔ امن ہی سے تہذیبیں باقی رہتی ہیں۔ دعا ہے کہ تاریخ اس مہینے کو وہ مہینہ نہ لکھے جب بھارت نے دریاؤں کو روکا بلکہ وہ لمحہ یاد رکھے جب اس کا وزیر اعظم روشنی کی طرف پلٹا۔ باادب،خطے کا بیٹا، دریاؤں کا طالب علم۔انتقام نہیں۔۔ انصاف کا قائل۔
(اقبال لطیف کے انگریزی مضمون سے ترجمہ )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دریاو ں
پڑھیں:
الحمرا، پبلک ریلیشنز کا جدید 360° ماڈل، ایک کامیاب مثال!
ثقافت محض رنگ، روشنی اور فن کی نمود نہیں، بلکہ قوموں کی فکری پہچان اور تہذیبی تشخص کی علامت ہوتی ہے۔ لاہور آرٹس کونسل الحمرا نے اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی پبلک ریلیشنز حکمتِ عملی میں جدیدیت اور مؤثریت کو ہم آہنگ کیا ہے۔
محکمہ اطلاعات و ثقافت پنجاب کے زیرِ اہتمام منعقدہ پنجاب ماس انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹیول اس بات کا عملی مظہر ہے کہ جب Integrated Strategic Communication (ISC) 360° Model کو سمجھ بوجھ کے ساتھ بروئے کار لایا جائے تو اس کے نتائج نہ صرف نمایاں بلکہ دیرپا ہوتے ہیں۔
پری ایونٹ کمیونیکیشن Public Anticipation کا قیامفیسٹیول سے قبل الحمرا کی PR ٹیم نے مؤثر pre-event communication strategy اختیار کی۔ تھیٹر فیسٹیول کی تیاریوں سے متعلق پریس ریلیزز کا تسلسل عوامی دلچسپی کا باعث بنا۔
جب تیاریوں کی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں تو لوگوں کی توجہ الحمرا کی جانب مبذول ہوئی اور فیسٹیول کے لیے ایک cultural anticipation نے جنم لیا۔
بعد ازاں، فیسٹیول کا شیڈول جاری کرنے پر عوامی ردعمل نہایت مثبت رہا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہزاروں افراد نے اسے شیئر کیا، تبصرے کیے، اور اپنے پروگرام ترتیب دیے۔
کثیرالجہتی کمیونیکیشن Multi-Layered Engagementاسی اسٹریٹیجک ماڈل کے تحت، صرف ڈراموں پر نہیں بلکہ فیسٹیول کی متنوع سرگرمیوں پر بھی فوکس رکھا گیا۔ پریس ریلیزز اور پوسٹس میں فوڈ اسٹالز، روایتی دستکاری، ملبوسات اور فوک کلچر کے اجزا کو اجاگر کیا گیا، جس سے عوامی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا۔
یہی نہیں، 7 ممالک کی شرکت اور بین الاقوامی ورکشاپس کا ذکر ایک global narrative کے طور پر پیش کیا گیا، تاکہ عوام کو احساس ہو کہ یہ فیسٹیول صرف ایک ثقافتی تقریب نہیں بلکہ ایک international cultural dialogue ہے۔
ڈیجیٹل اور الیکٹرانک میڈیا کا مربوط استعمالفیسٹیول کے دوران الحمرا کی PR ٹیم نے real-time communication کو یقینی بنایا۔ ہر روز صبح پریس ریلیز، دوپہر کو ٹی وی ٹکرز، اور شام کو social media updates جاری کی گئیں۔
ہر سیشن اور ڈرامے کے دوران ریلز، فوٹوز، اور شکریہ پیغامات نشر کیے گئے، جس سے عوامی دلچسپی برقرار رہی۔ یہی وہ پہلو ہے جو modern PR model کو کامیاب بناتا ہے۔ یعنی continuous public engagement۔
پوسٹ ایونٹ امپلیفکیشن Sustained Visibilityجب فیسٹیول اختتام پذیر ہوا تو میڈیا کوریج نے اس کامیابی کو دوام بخشا۔ قومی اخبارات مثلاً ڈان،نیوز،نیشن، نوائے وقت، جنگ اور دیگر بڑے میڈیا گروپس نے الحمرا کے فیسٹیول کو نمایاں جگہ دی۔
پورے کے پورے ایڈیشنز، رپورٹس، تصاویر، اور کالمز شائع ہوئے، جنہوں نے الحمرا کے مؤثر PR نظام کو ایک case study کی حیثیت دے دی۔
سوشل میڈیا پر وی لاگرز، کلچرل رپورٹرز، اور عام شہریوں نے ہزاروں پوسٹس شیئر کیں، جس سے organic reach لاکھوں میں جا پہنچی۔
نتائج A Quantifiable SuccessIntegrated 360° PR Model کے اطلاق کا سب سے نمایاں نتیجہ یہ نکلا کہ فیسٹیول میں 26,000 سے زائد افراد نے شرکت کی۔
یہ محض تعداد نہیں بلکہ عوامی اعتماد اور PR کی کامیابی کا پیمانہ ہے۔
عوام نے نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی تھیٹر پرفارمنسز سے لطف اندوزی حاصل کی بلکہ مکالماتی نشستوں میں فعال شرکت بھی کی۔
الحمرا کا وژنPR کی نئی سمتالحمرا آرٹس کونسل نہ صرف فنونِ لطیفہ کی ترویج میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے بلکہ Public Relations Dynamics کو بھی عالمی معیار پر استوار کر رہی ہے۔
یہ ادارہ محض پریس ریلیز تک محدود نہیں، بلکہ audience psychology، content storytelling، digital integration اور community engagement جیسے جدید تصورات کو اپناتے ہوئے ایک ایسا PR فریم ورک تشکیل دے چکا ہے، جو کسی بھی عالمی ثقافتی ادارے کے ہم پلہ ہے۔
یہ کہنا بجا ہوگا کہ لاہور آرٹس کونسل الحمرا نے PR کے شعبے میں جو Integrated Strategic Communication 360° Model اختیار کیا ہے، وہ پاکستان میں ثقافتی اداروں کے لیے ایک benchmark بن چکا ہے۔
یہ ماڈل صرف ایک پالیسی نہیں بلکہ ایک dynamic communication ecosystem ہے، جو فن، عوام اور میڈیا — تینوں کو ایک ربط میں لے آتا ہے۔
الحمرا کی یہ حکمتِ عملی نہ صرف وقت کے تقاضوں کے مطابق ہے بلکہ اس بات کی بھی مظہر ہے کہ پاکستان کا ثقافتی شعبہ عالمی سطح پر اپنی شناخت مضبوطی سے قائم کر رہا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں