الجولانی کیجانب سے قابض اسرائیلی رژیم کیساتھ دوستانہ تعلقات کا پہلا اشارہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
جہاں ایکطرف خطے بھر میں غاصب صیہونی رژیم کے منحوس اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے علاقائی کوششیں جاری ہیں، وہیں خبر رساں ذرائع نے غاصب اسرائیلی رژیم کیساتھ "دوستانہ تعلقات" کی استواری پر مبنی شامی باغیوں کی تگ و دو سے بھی پردہ اٹھا دیا ہے! اسلام ٹائمز۔ امریکی رکن کانگریس مارلین اسٹٹزمین (Marlin Stutzman) نے غاصب اسرائیلی رژیم کے ٹیلیویژن چینل I24 کو بتایا ہے کہ شامی باغی رہنما ابو محمد الجولانی نے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے لئے معاہدے میں شامل ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی رکن کانگریس نے جاری ہفتے ہی شامی باغی رہنما محمد الجولانی کے ساتھ ملاقات کے لئے ایک دوسرے امریکی پارلیمنٹیرین کوری ملز (Cory Mills) کے ہمراہ دمشق کا دورہ بھی کیا تھا۔
اس بارے کوری ملز کا نیویارک ٹائمز کو بتانا تھا کہ میں ابو محمد الجولانی کا پیغام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک پہنچاؤں گا۔ آئی 24 کے مطابق، غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے بدلے الجولانی نے شام پر ہونے والے جارحانہ اسرائیلی حملوں کو بند کرنے اور ملک کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچانے کا مطالبہ کیا ہے! I24 نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ شامی باغی رہنما نے شامی سرزمین پر غاصب اسرائیلی فوج کی عدم موجودگی پر تل ابیب کے ساتھ معاہدے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ اسرائیلی چینل کا مزید کہنا ہے کہ شامی باغی رہنما نے امریکہ سے، شام پر عائد پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ بھی کیا ہے لیکن مارلین اسٹٹزمین کے مطابق، واشنگٹن نے مذکورہ پابندیاں ہٹانے کے لئے شرائط رکھی ہیں کہ جن میں اسرائیل و امریکہ سمیت مشرق وسطی کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی "اچھے تعلقات" قائم کرنا بھی شامل ہے۔
واضح رہے کہ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ جب انتہاء پسند امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ناروے کے وزیر اعظم جوناس گہر سٹور کے ساتھ ملاقات کے دوران دعوی کیا تھا کہ بہت سے ممالک (غاصب اسرائیلی رژیم کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی استواری پر مبنی) "ابراہم معاہدے" میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور ہم جلد ہی ایسا کر دیں گے!!
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ساتھ دوستانہ تعلقات اسرائیلی رژیم غاصب اسرائیلی کا مطالبہ رژیم کے کے ساتھ
پڑھیں:
موضوع: عراق کے حساس انتخابات کا جائزہ، اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جس میں تازہ ترین مسائل کے بارے میں نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کی جاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںہفتہ وار تجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع: عراق کے حساس انتخابات کا جائزہ، اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
مہمان تجزیہ نگار: علامہ ڈاکٹر میثم رضا ہمدانی
میزبان: سید انجم رضا
پیش کش: آئی ٹائمز ٹی وی اسلام ٹائمز اردو
خلاصہ گفتگو و اہم نکات
عراق اپنے تاریخی پس منظر کے ساتھ دنیا بھر کےمسلمانوں کے لئے اپنے مقامامات مقدسہ کی وجہ سے عقیدت کا مظہر ہے
عراق خاص طور پہ مکتب اہل بیت تشیع کے لئے بہت محترم سرزمین ہے
داعش کے فتنہ کی سرکوبی میں بھی عراقی عوام نے بہت جرات اور دلیری کا مظاہرہ کیا
عراق کی اہمیت زمانہ میں حال میں مقاومت حوالے سے بھی نمایاں ہے
مقاومت کوئی علیحدہ سے چیز نہیں بلکہ خطے میں امریکی آلہ کاروں کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف مزاحمت بھی ہے
گزشتہ دو برس میں طوفان الاقصیٰ اور اس کے بعد خطے میں سیکورٹی صورت حال بہت اہم ہوچکی ہے
اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے عراقی عوام نے ہمیشہ اس کی مذمت کی
طوفان الاقصیٰ کے حوالے عراقی عوام اور حکومت نے غزہ کے فلسطینی عوام کی حمایت کو مقدم جانا
صیہونی حکومت کے اپنی جارحیت کو جمہوری سلامی ایران پہ مسلط کرنے کے دوران بھی عراقی کردار بہت مثبت رہا
موجودہ حالات میں عراق میں نومبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے
استعماری قوتیں ان انتخابات میں بیرونی اور اندرونی طور پہ اثر انداز ہونے کی مذموم کوششوں میں ہیں
ایک اہم فیکٹر غزہ میں جنگ بندی کی شرائط میں ح م ا س اور ح زب کو غیر مسلح کرنا ہے
عراق میں ح ش د ال ش ع ب ی کو بھی غیر مسلح کرنے کا منصوبہ بھی اسی پلان کا حصہ تھا
مگر عراقی پارلیمنٹ نے قانون سازی کرکے ان گروہوں کو اپنی فوج کا حصہ بنالیا
امریکہ آج بھی عراق کے بہت سے علاقوں میں موجود ہے، اور بہت سے سیکورٹی زونز پہ امریکہ قابض ہے
صدام ملعون جیسے آلہ کارکے سقوط کے بعدبھی امریکہ خود کو عراق پہ مسلط رکھنا چاہتا ہے
حاج سردار کو عراقی کمانڈر کے ہمراہ بغداد کے سویلین ایرپورٹ پہ حملہ کرکے شہید کردیا جانا امریکی مداخلت کا واضح ثبوت ہے
اتنی مداخلت کے باوجود عراقی قوم کو جب بھی ذرا سی مہلت ملتی ہے وہ امریکی تسلط کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں
عراقی قوم ابھی تک کسی استعماری طاقت خصوصا امریکہ کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوئے
ٖٹرمپ نے مارک ساوایا کو سازشی منصوبوں کے لئے عراق میں اپنا خصوصی ایلچی مقرر کیا ہے
عراقی، عیسائی تاجر کو ایلچی بنانے کا مقصد عراق کے سیاسی کھیل کو امریکہ کے حق میں موڑنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا
ساوایا کو ایلچی بنانے سے عراق کی سیاست میں امریکی مداخلت کے نئے دور سے پردہ ہٹنا شروع بھی ہوگیا ہے
مارک ساوایا بھنگ کا تاجر ہے، اس کے ساتھ پراپرٹی کا کاروبار بھی کرتا ہے، سفارتی لحاظ سے کسی بھی قسم کی صلاحیت پائی نہیں جاتی
لگتا یہ ہے کہ کہ مارک ساوایا عراق کے حالات کو اسی طرح بگاڑیں گا جس طرح سے زلمئی خلیل زاد نے افغانستان میں خلفشار پیدا کیا تھا یا پھر جس طرح سے لبنان میں ٹرمپ کے ایلچی ٹام باراک نے بیروت میں کشیدگی میں اضافہ کیا۔
عراق میں 11 نومبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات محض داخلی مسئلہ نہیں، بلکہ اس میں کئی علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں اپنے مفادات کے تحت اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔
موجودہ انتخابات میں شیعہ اکثریتی علاقوں میں الیکشن فہرستوں اور اتحادوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
ابھی تک کی صورت حال کے مطابق مقتدا صدر، جنہوں نے انتخابات میں حصہ لینے سے پرہیز کیا ہے۔
مرجع عالی قدر آیت اللہ سیستانی نے عوام کو الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کی تاکید کی ہے۔
عراق ایک تشیع کا اکثریتی ملک ہے، عراق میں فساد کے لئے منحرفین کا حربہ بہت استعمال کیا جانے کا خدشہ ہے'
عراقی قوم کا سماجی بیانیہ رواداری اور اتحاد بین المسلمین کا ہے، قبائل مسلکی اختلافات پہ زیادہ حساس نہیں ہوتے
الیکشن کے نتائج سے توقع ہے کی ایک ایسی حکومت بنے گی جو عراق کی سالمیت پہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی