سیریزاسکوئڈ گیم کی بے انتہا مقبولیت کے پیچھے چھپے راز سے پردہ اٹھا دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
نیٹ فلکس کی تاریخ کا سب سے مقبول اور کامیاب شو ”اسکوئڈ گیم“ نے ناظرین کو اپنے منفرد انداز، سنسنی خیز کہانی اور جذباتی گہرائی سے نہ صرف مسحور کیا بلکہ اسٹریمنگ پلیٹ فارم کے لیے ریکارڈ توڑ کامیابی بھی سمیٹی۔
حالیہ ایک میڈیا ایونٹ میں نیٹ فلکس ایشیا کی نائب صدر منیونگ کم نے اس بلاک بسٹر شو کے پسِ پردہ حکمتِ عملی پر روشنی ڈالتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس منصوبے کی کامیابی کا اصل راز ’مقامی کہانیوں پر توجہ‘ ہے۔منیونگ کم کا کہنا تھا، ”جب ہم نے اسکوئڈ گیم پر کام شروع کیا، ہمارا مقصد کوئی بین الاقوامی دھماکہ خیز ہٹ بنانا نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی کہانی سنانا تھا جو کورین معاشرے، ثقافت اور جذبات سے جُڑی ہو۔“
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ نیٹ فلکس ہمیشہ ایسے مواد کی تلاش میں رہتا ہے جو ناظرین کو ان کے روزمرہ زندگی اور جذبات سے جوڑ دے۔ ایسی کہانیاں جو صرف دکھاوے کی بجائے حقیقت کے قریب ہوں۔منیونگ کم نے کہا کہ اسکوئڈ گیم کی مقامی سچائی، ثقافتی گہرائی اور جذباتی جڑت ہی وہ عناصر تھے جنہوں نے ناظرین کو ہر خطے میں متاثر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مقامی کورین سیریز عالمی اسکرینوں پر چھا گئی۔
منیونگ کم نے اس موقع پر نیٹ فلکس کے وژن کو دہرایا کہ، ”ہم صرف ہٹ شوز بنانے کے لیے کام نہیں کرتے، بلکہ ہم وہ کہانیاں تلاش کرتے ہیں جو کسی بھی معاشرے کے دل کی آواز ہوں، چاہے وہ کوریا ہو، بھارت ہو یا پاکستان۔“اسکوئڈ گیم کی زبردست کامیابی نے نہ صرف نیٹ فلکس کے سبسکرائبرز کی تعداد میں بے مثال اضافہ کیا، بلکہ دنیا بھر کے مواد تخلیق کاروں کو یہ پیغام دیا کہ ”اصل طاقت اپنی شناخت اور کہانی میں چھپی ہوتی ہے۔“
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسکوئڈ گیم منیونگ کم نیٹ فلکس
پڑھیں:
پاکستان میں جگر کے ایک ہزار ٹرانسپلانٹس مکمل کرکے پی کے ایل آئی نے تاریخ رقم کردی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ (پی کے ایل آئی) نے طبّی تاریخ میں شاندار سنگِ میل عبور کرلیا ہے۔
ادارے نے جگر کے ایک ہزار کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل کر کے نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے صفِ اول کے ٹرانسپلانٹ مراکز میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ یہ کامیابی پاکستان کے شعبۂ صحت کے لیے غیر معمولی پیش رفت اور عالمی سطح پر ملک کی ساکھ میں اضافہ ہے۔
پی کے ایل آئی کے قیام کا خواب 2017 میں اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے دیکھا تھا۔ ان کا مقصد ایسا عالمی معیار کا اسپتال قائم کرنا تھا جہاں عام شہریوں کو گردے اور جگر کے امراض کا علاج جدید سہولتوں کے ساتھ مفت فراہم کیا جا سکے۔ آج وہ خواب عملی شکل اختیار کر چکا ہے اور ہزاروں مریضوں کی زندگیاں بچائی جا چکی ہیں۔
ترجمان کے مطابق ادارے نے اب تک جگر کے 1000، گردے کے 1100 اور بون میرو کے 14 کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل کیے ہیں۔ مزید بتایا گیا کہ 40 لاکھ سے زائد مریض پی کے ایل آئی کی سہولتوں سے استفادہ کر چکے ہیں، جن میں سے تقریباً 80 فیصد کو عالمی معیار کے مطابق بالکل مفت علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔
اسی طرح استطاعت رکھنے والے مریضوں کے لیے جگر کے ٹرانسپلانٹ کی لاگت تقریباً 60 لاکھ روپے ہے، جو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔
ترجمان نے انکشاف کیا کہ سابق حکومت کے دور میں ادارے کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا، فنڈز منجمد کیے گئے اور غیر ضروری تحقیقات میں الجھایا گیا، جس کے باعث ٹرانسپلانٹس کا عمل تقریباً رک گیا تھا، تاہم 2022 میں شہباز شریف کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد پی کے ایل آئی کو مکمل بحالی ملی۔
اس کے بعد ادارہ ایک بار پھر اپنے اصل مشن کی جانب لوٹا اور ریکارڈ رفتار سے ٹرانسپلانٹس انجام دیے۔ صرف 2022 میں 211، 2023 میں 213، 2024 میں 259 اور 2025 میں اب تک 200 سے زائد جگر کے کامیاب آپریشنز مکمل کیے جا چکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق بیرونِ ملک جگر کا ٹرانسپلانٹ 70 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ امریکی ڈالر میں ہوتا ہے، جب کہ پہلے ہر سال تقریباً 500 پاکستانی مریض بھارت کا رخ کرتے تھے۔ پی کے ایل آئی نے نہ صرف ان اخراجات کا بوجھ ختم کیا بلکہ قیمتی زرمبادلہ بھی ملک میں محفوظ رکھا۔
یہ منفرد اور مثالی ادارہ اب صرف ٹرانسپلانٹ تک محدود نہیں رہا بلکہ یورالوجی، گیسٹروانٹرولوجی، نیفرو لوجی، انٹروینشنل ریڈیالوجی، ایڈوانس اینڈوسکوپی اور روبوٹک سرجری جیسے جدید شعبوں میں بھی عالمی معیار پر خدمات انجام دے رہا ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی خصوصی سرپرستی اور حکومت کے تعاون سے پی کے ایل آئی تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور اب یہ اسپتال محض ایک طبی ادارہ نہیں بلکہ قومی فخر، خود انحصاری اور انسانیت کی خدمت کی علامت بن چکا ہے۔