میانمار زلزلہ: ہزاروں متاثرین ایک ماہ بعد بھی خیموں میں رہنے پر مجبور
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 26 اپریل 2025ء) میانمار میں زلزلہ آنے سے ایک ماہ بعد بھی ہزاروں متاثرین عارضی خیموں میں مقیم ہیں جنہیں ابتدائی مون سون کے طوفانوں اور مچھروں سے زندگی و صحت کے خطرات لاحق ہیں۔
ملک کے وسطی علاقے زلزلے سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں جہاں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور اقوام متحدہ کے دیگر امدادی ادارے لوگوں کو مدد پہنچانے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں لیکن بڑے پیمانے پر ضروریات سے نمٹںے کے لیے مزید امداد کی ضرورت ہے۔
Tweet URLملک میں 'ڈبلیو ایچ او' کے نمائندے ڈاکٹر تھوشارا فرنانڈو نے کہا ہے کہ بارش میں متاثرین کے لیے سونا ممکن نہیں ہوتا اور جب بارش تھم جاتی ہے تو انہیں تیز ہوا میں اپنے خیمے اکھڑ جانے کا خطرہ رہتا ہے۔
(جاری ہے)
زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں سیوریج کا نظام تباہ ہونے کے نتیجے میں جا بجا گندا پانی جمع ہو رہا ہے جس سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔اسہال پھیلنے کا خطرہانہوں نے بتایا ہے کہ زلزلہ متاثرین کے پاس مچھر دانیاں نہیں ہیں۔ پانی کے ذرائع آلودہ ہو گئے ہیں اور مختلف مقامات پر بڑی تعداد میں بنائے گئے عارضی بیت الخلا بڑی تعداد میں متاثرین کے لیے کافی نہیں۔
کم از کم دو متاثرہ مقامات پر اسہال پھیلنے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ چند ماہ قبل ملک میں ہیضے کی وبا بھی پھیل گئی تھی۔'ڈبلیو ایچ او' کے مطابق، میانمار میں 28 مارچ کو آنے والے زلزلے میں کم از کم 3,700 افراد ہلاک اور 5,100 سے زیادہ زخمی اور 114 لاپتہ ہو گئے ہیں جبکہ اس تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
ڈینگی کی روک تھام کا اقدامزلزلے کے بعد اب تک اس کے 140 سے زیادہ ثانوی جھٹکے محسوس کیے جا چکے ہیں جن میں بعض کی شدت 5.
'ڈبلیو ایچ او' نے 450,000 لوگوں کے لیے 170 ٹن ہنگامی طبی سازوسامان بھیجا ہے جس سے تین ماہ کی ضروریات ہی پوری ہو سکیں گی۔ ادارے نے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں 220 ہنگامی طبی ٹیمیں بھی روانہ کی ہیں جبکہ قومی و مقامی سطح کے شراکت داروں کے تعاون سے ڈینگی کی روک تھام کا اقدام بھی شروع کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں نچلی سطح پر کام کرنے والے طبی کارکنوں میں ڈینگی کی فوری تشخیص کے لیے استعمال ہونے والا سامان مہیا کیا گیا ہے اور زلزلے سے بری طرح متاثرہ علاقے منڈلے میں لوگوں کو تحفظ دینے کے لیے خصوصی مچھردانیاں تقسیم کی گئی ہیں۔
بچوں میں غذائی قلتڈاکٹر فرنانڈو نے بتایا ہے کہ ادارہ زلزلے میں زخمی ہونے والوں کو علاج کی فراہمی اور متاثرین کو ذہنی و نفسیاتی صحت کی خدمات مہیا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
تاہم، وسائل کی قلت کے باعث یہ سرگرمیاں بہت محدود ہیں۔ امدادی وسائل کی ہنگامی بنیادوں پر اور متواتر فراہمی کے بغیر متاثرہ علاقوں میں صحت کا بحران جنم لے سکتا ہے۔میانمار میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کی ترجمان ایلینا ڈریکوپولس نے کہا ہے کہ خوراک اور ضروری خدمات تک رسائی میں خلل آیا ہے جس سے خاص طور پر بچوں کو غذائیت کی کمی لاحق ہونے کا اندیشہ ہے۔ تمام بچوں کو حفاظتی ٹیکے میسر نہ آنے سے ناقابل انسداد بیماریوں کے پھیلاؤ کا خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے جس پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈبلیو ایچ او زلزلے سے کے لیے
پڑھیں:
کولمبیا میں 6.3 شدت کا زلزلہ: عمارتیں منہدم، سڑکوں پر دراڑیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جنوبی امریکی ملک کولمبیا ایک بار پھر زلزلے کی ہولناکی کا شکار ہو گیا، جہاں 6.3 شدت کے طاقتور جھٹکوں نے درجنوں مکانات کو زمین بوس کر دیا جبکہ کئی اہم شاہراہوں پر گہری دراڑیں پڑ گئیں۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ زلزلہ صبح 8 بج کر 8 منٹ پر دارالحکومت بوگوٹا سے تقریباً 170 کلومیٹر مشرق کی سمت پیراٹیبوینو کے علاقے میں زمین کی 9 کلومیٹر گہرائی میں آیا۔ زلزلے کی شدت اس قدر تھی کہ اس کے اثرات بحرالکاہل کے ساحلی علاقوں، میڈلین اور کیلی جیسے بڑے شہروں تک محسوس کیے گئے۔
اگرچہ تاحال کسی جانی نقصان یا شدید زخمیوں کی اطلاع موصول نہیں ہوئی، تاہم حکام ملک کے مختلف دیہی علاقوں میں ہونے والے ممکنہ نقصانات کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں۔
دارالحکومت بوگوٹا جو کہ آٹھ ملین سے زائد آبادی کا حامل شہر ہے، وہاں زلزلے کے دوران خوفزدہ شہری دفاتر اور گھروں سے نکل کر پارکوں اور کھلے میدانوں کی طرف دوڑ پڑے۔
سیکیورٹی اداروں کے مطابق ریسکیو ٹیمیں فوری طور پر حرکت میں آئیں اور عمارتوں کا معائنہ کر کے ممکنہ خطرات کی نشاندہی شروع کر دی ہے۔
یاد رہے کہ 1999 میں آنے والے 6.2 شدت کے زلزلے نے تقریباً 1200 جانیں نگل لی تھیں، جس کے بعد یہ موجودہ زلزلہ خطرے کی ایک اور گھنٹی بن کر سامنے آیا ہے۔