Daily Ausaf:
2025-09-18@13:53:22 GMT

اگر ہم چاہیں تو!

اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT

یہ بات حق و سچ ہے کہ ہم یقیناً امریکہ سمیت دنیا بھر سے ملنے والی امداد کے بغیر جی نہیں سکتے ہیں اگر ہم اور حکمران چاہیں تو یہ یقیناً ممکن ہے کہ ہم ان امداد کےبغیر جی بھی سکتے ہیں اور ترقی بھی کرسکتے ہیں۔ اس سوال کا پہلا مختصر ترین جواب تو یہ ہے۔ اگر ہم اصل حقائق پر نظر ڈالیں تو حقیقت کھل کر ہم سب کے سامنے آجائے گئی۔ سب سے پہلے تو اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا اور اس پر کامل ایمان بھی لانا کی ضرورت ہے کہ پاکستان ایک خالص اسلامی مملکت ہے یہ اٹھانوے فیصد مسلمان آبادی والا ملک ہے جسے خالص اسلام اور اللہ کے نام پر قائم کیا گیا تھا اور ہمارا نعرہ بھی یہی تھا اور اب بھی ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ اللہ، کوئی نہیں ہمارا معبود سوائے اللہ کے۔ کتنی حیرت کا مقام ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اور پاکستانی، واحد اور احد اللہ کے ماننے والے ہوکر اپنے پروردگار سے مانگنے، اس کے آگے دستِ سوال دراز کرنے کے بجائے امریکہ سمیت دنیا بھر سے مانگتے ہوئے نظر آرہے ہوتے ہیں۔
جیسا کہ ہم سب کے علم میں یہ بات واضح ہی کہ امریکہ معیشت و اقتصادیات پر یہودی تاجروں کا قبضہ ہے اور وہ اپنی تجارت اپنے اصولوں، انداز و طریقوں سے ہی کرنے کے عادی رہے ہیں، ان کی تو نسل در نسل بے ایمان ہے۔ قرآن ان کی بد معاملگی اور بے ایمانی پر گواہ ہے، وہ اپنی تجارت کو سود در سود پر چمکانے کے عادی ہیں اور ہمیشہ سے رہے ہیں۔ بے ایمانی اور کرپشن ان کا وتیرہ اورکاروباری اصول رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کی معیشت اور اقتصادیات پر اپنے ان ہی اصولوں کے تحت حملہ کرکے قابض ہو بیٹھے ہیں اور اس میں ہم اس طرح جکڑ کر رہ گئے ہیں کہ چاہ کر بھی ہم اس سے جان نہیں چھڑا سکیں گے بلکہ اس کے کئی نقصانات بھی عوام اور ملک کو اٹھانے بھی پڑ رہے ہیں اور وطن عزیز کے حکمران اور سیاست دان فائدہ اٹھاتے ہوئے نظر آرہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی یہ لوگ یہ بات بھول بیٹھتے ہیں کہ اس واحد اور احد رب کی ’’لاٹھی‘‘ بے آواز پڑتی ہیں اور جب وہ رحیم احد رب ’’رسی کھینچتا‘‘ ہے تو انسان کتنے خسارے میں تب جاکر پتا چل جاتا ہے۔
آئی ایم ایف ہو یا عالمی بنک، یہ عالمی سطح کے بنک ہیں جو افراد سے نہیں ممالک سے ڈیل کرتے ہیں اور ممالک کو اس کے حکمران چلاتے ہیں وہی دست سوال دراز کرتے ہیں اور ان تمام ممالک کو جو قرضوں کے ضرورت مند ہوتے ہیں۔ انہیں یہ دونوں عالمی ادارے اپنی شرائط سے باندھے رکھنے کے لیے اپنی من مانی شرائط پر ہی قرضے فراہم کرتے ہیں اور اپنی شرائط منوانے کے لیے قرض خواہ ممالک کے سربراہان اور متعلقہ افراد کو وہ مطلوبہ رقوم کا تقریباً چالیس فیصد تک کک بیک یا کمیشن کے بطور ادا کرکے ان کے منہ کو خون لگا دیتے ہیں کہ یہی ان کا سنہری اور تجارتی اصول ہے۔ باقی ماندہ ساٹھ فیصد میں سے پندرہ سے بیس فیصد خود ان اداروں کے ان افراد کی کمیشن ہوتی ہے جو ان ممالک کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ باقی پینتالیس فیصد تک بچ رہ جانے والی رقم وہ بھی کئی قسطوں میں سخت ترین شرائط سے بندھی ہوتی ملتی رہتی ہے۔ اگر انہیں منظور ہوتا ہے ورنہ تو درمیان میں مزید کوئی شرائط لاگو ہوسکتی ہیں۔ جبکہ مقروض ملک کو نا صرف پوری سو فیصد رقم ادا کرنا ہوتی ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کا سود در سود بھی ادا کرنا ہوتا ہے اور یوں کوئی بھی مقروض ملک ان کے شکنجے میں ایسا جکڑتا ہے کہ بے بس قید پرندے کی مانند لیکن کسی اسلامی ملک اور خصوصاً پاکستان کے ساتھ ان عالمی اداروں کا خصوصی معاملہ ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کریلا بھی ہے اور نیم چڑھا بھی… کیونکہ پاکستان اوّل تو مسلمان ملک ہے اور ساتھ ہی اس نے اپنے طور اپنی قوت اور ارادے کو بروئے کار لاتے ہوئے جوہری قوت بھی حاصل کرلی ہے جو تمام غیر مسلم دنیا کی آنکھوں میں نا صرف کھٹک رہی ہے بلکہ ان کے حلق میں ہڈی بن کر اٹک بھی گئی ہے کیونکہ انہیں شدید خطرہ پاکستان اور پاکستانی قوم سے لاحق رہتا ہے کہ کہیں یہ کسی اور معاملے میں اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہو جائے اور کہیں عالمی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا اہل نہ ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اس کے تمام حواری اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ پاکستان کسی بھی طرح ان کے چُنگل سے نہ نکل پائے۔
اگر آج ایک فیصلہ کرلیں کہ ہم اپنے رب سے رجوع کریں گے، صرف اسی کے آگے ہاتھ پھیلائیں گے تو یہ تمام سازشیں عناصر اپنی موت آپ مر جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستانی قوم پر بڑا احسان اور فضل کیا ہوا ہے کہ اہلِ وطن کو ایسی سر زمین عطا فرمائی ہے جو ہر قسم کی نعمتوں سے مالا مال ہے ۔ یہ ہماری نا اہلی ہے کہ ہم اللہ کی ان نعمتوں کو ٹھکرا رہے ہیں۔ اگر ہم آج فیصلہ کرلیں کہ ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے تو دنیا کی کون سی طاقت ہوگی جو ہمارا راستہ روک سکے گی؟اس کے علاوہ اللہ نے ہمیں پانی اور زرخیز زمین جو سونا اگلتی ہے، عطا فرمائی ہے۔ ہمارے چار سُو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہی نعمتیں ہیں، اگر ہم ان ملنے والی نعمتوں سے خود فائدہ اٹھانا چاہیں تو کون ہےجو ہمیں روک پائے لیکن افسوس صد افسوس ہم نے تو خود کو یہودی تاجروں کے یہاں گروی رکھوا دیا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کہ پاکستان ہوتے ہیں ہے کہ ہم ہیں اور رہے ہیں اگر ہم ہیں کہ ہے اور

پڑھیں:

پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح صفر ہو جانے کا خدشہ

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 ستمبر2025ء) مشیر خزانہ خیبرپختونخواہ مزمل اسلم نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح صفر ہو جانے کا خدشہ، حالات اتنے خراب ہیں کہ یہ دنیا کے دس بدترین معیشت کے ملکوں میں آچکے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق مشیر خزانہ و بین الصوبائی رابطہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے زراعت ایمرجنسی کا اعلان محض ایک نمائشی قدم ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چار برسوں سے پاکستان کی زرعی معیشت کو مسلسل تباہی کا سامنا ہے۔

مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ موجودہ وزیراعظم کے دور میں دوسرا سیلاب آگیا انکے پاس زرعی اور ماحولیاتی نمائشی ایمرجنسی کے علاؤہ کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔ مزمل اسلم نے کہا کہ زراعت ایمرجنسی لگانے سے کیا ہوگا جب پچھلے چار سال سے کسان کو ختم کیا جا رہا ہو، زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سکیمیں بن رہی ہوں اور ملک خوراک کی کمی کے بحران میں داخل ہو چکا ہے۔

(جاری ہے)

ملک میں گندم اور آٹے کا بحران ہے اور ملک میں تاریخ کی سب سے مہنگی کھاد ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان اب غذائی عدم تحفظ کے شکار ملک کی شکل اختیار کر چکا ہے جہاں پیداوار مسلسل گر رہی ہے اور حکومتوں کی توجہ صرف نمائشی اعلانات پر مرکوز ہے۔ خیبرپختونخوا ہاؤس اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مزمل اسلم نے کہا کہ پوری دنیا میں پاکستان کیلئے شرم کا مقام ہے کہ صرف چار فیصد رقبے پر پاکستان میں جنگلات ہیں جبکہ پاکستان کے کل جنگلات کا 45 فیصد خیبرپختونخوا میں ہے۔

وزیراعظم بتائیں یہ انکی چوتھی حکومت ہے اورملک میں اور پنجاب میں کتنے درخت لگائے ہیں۔ مزمل اسلم نے سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رواں مالی سال میں ملک کی شرح نمو ممکنہ طور پر صفر فیصد تک گر سکتی ہے جو معیشت کی مکمل ناکامی کا اعلان ہے۔مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ عمران خان کو اسلئے ہٹا دیا کہ معیشت ٹھیک کرسکے حال یہ ہے کہ ان کے دور حکومت میں پہلے سال شرح نمو منفی 0.5 فیصد رہی دوسرے سال شرح نمو 2.4 فیصد رہی جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ جعلی طریقے سے حاصل کی گئی ہے۔

تیسرے سال شرح نمو 2.7 فیصد قرار دیا گیا جس پر میں نے وزیراعظم کو بتایا کہ ایسا نہیں ہے جس پر وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ ڈیٹا غلط ہے چوتھے سال کیلئے یہ کہہ رہے ہیں کہ 4.2 فیصد ہدف ہے لیکن حالات اتنے خراب ہیں کہ یہ دنیا کے دس بدترین معیشت کے ملکوں میں آچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو صرف تین سال دیے گئے لیکن موجودہ حکومت ساڑھے تین سال سے برسراقتدار ہے اور اب تک کوئی احتساب نہیں ہوا، ہماری حکومت پر ہر دن تنقید ہوتی تھی مگر نواز شریف، شہباز شریف، زرداری یا بلاول سے کوئی سوال نہیں کرتا۔

مزمل اسلم نے بلاول بھٹو اور حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں 2010 کے سیلاب کے دوران زرداری نے ایڈ نہیں، ٹریڈ کا نعرہ لگایا تھا مگر آج بھی یہی حکمران عالمی امداد کے سہارے حکومت چلا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 2022 کے سیلاب کا حوالہ دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ اس وقت بطور وزیر خارجہ بلاول نے جس عالمی امداد کے دعوے کیے تھے، وہ کہاں گئی مزمل اسلم نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں صوبوں کے درمیان غیر منصفانہ تقسیم پر بھی سوالات اٹھائے اور کہا کہ پنجاب کے 46 لاکھ افراد کو بی آئی ایس پی فنڈز دیے جا رہے ہیں، سندھ میں 26 لاکھ افراد کو 100 ارب روپے دیے گئے جبکہ خیبرپختونخوا کو صرف 72 ارب اور بلوچستان کو محض 5 ارب روپے دیے گئے۔

متعلقہ مضامین

  • میچ ریفری تنازع، اندازہ نہیں تھا کیا فیصلہ ہوگا، اللہ نے پاکستان کی عزت رکھی،محسن نقوی
  • اللہ نے پاکستان کی عزت رکھی، چیئرمین پی سی بی محسن نقوی
  • جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ
  • وفاقی حکومت نے سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال کو اسلام آباد کلب کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • مودی سرکار نے مذموم سیاسی ایجنڈے کیلیے اپنی فوج کو پروپیگنڈے کا ہتھیار بنا دیا
  • ملک میں عاصم لا کے سوا سب قانون ختم ہو چکے،عمران خان
  • پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح صفر ہو جانے کا خدشہ
  • پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام کی حمایت جاری رکھے گا، عطاء اللہ تارڑ
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟