یہ بات حق و سچ ہے کہ ہم یقیناً امریکہ سمیت دنیا بھر سے ملنے والی امداد کے بغیر جی نہیں سکتے ہیں اگر ہم اور حکمران چاہیں تو یہ یقیناً ممکن ہے کہ ہم ان امداد کےبغیر جی بھی سکتے ہیں اور ترقی بھی کرسکتے ہیں۔ اس سوال کا پہلا مختصر ترین جواب تو یہ ہے۔ اگر ہم اصل حقائق پر نظر ڈالیں تو حقیقت کھل کر ہم سب کے سامنے آجائے گئی۔ سب سے پہلے تو اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا اور اس پر کامل ایمان بھی لانا کی ضرورت ہے کہ پاکستان ایک خالص اسلامی مملکت ہے یہ اٹھانوے فیصد مسلمان آبادی والا ملک ہے جسے خالص اسلام اور اللہ کے نام پر قائم کیا گیا تھا اور ہمارا نعرہ بھی یہی تھا اور اب بھی ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ اللہ، کوئی نہیں ہمارا معبود سوائے اللہ کے۔ کتنی حیرت کا مقام ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اور پاکستانی، واحد اور احد اللہ کے ماننے والے ہوکر اپنے پروردگار سے مانگنے، اس کے آگے دستِ سوال دراز کرنے کے بجائے امریکہ سمیت دنیا بھر سے مانگتے ہوئے نظر آرہے ہوتے ہیں۔
جیسا کہ ہم سب کے علم میں یہ بات واضح ہی کہ امریکہ معیشت و اقتصادیات پر یہودی تاجروں کا قبضہ ہے اور وہ اپنی تجارت اپنے اصولوں، انداز و طریقوں سے ہی کرنے کے عادی رہے ہیں، ان کی تو نسل در نسل بے ایمان ہے۔ قرآن ان کی بد معاملگی اور بے ایمانی پر گواہ ہے، وہ اپنی تجارت کو سود در سود پر چمکانے کے عادی ہیں اور ہمیشہ سے رہے ہیں۔ بے ایمانی اور کرپشن ان کا وتیرہ اورکاروباری اصول رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کی معیشت اور اقتصادیات پر اپنے ان ہی اصولوں کے تحت حملہ کرکے قابض ہو بیٹھے ہیں اور اس میں ہم اس طرح جکڑ کر رہ گئے ہیں کہ چاہ کر بھی ہم اس سے جان نہیں چھڑا سکیں گے بلکہ اس کے کئی نقصانات بھی عوام اور ملک کو اٹھانے بھی پڑ رہے ہیں اور وطن عزیز کے حکمران اور سیاست دان فائدہ اٹھاتے ہوئے نظر آرہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی یہ لوگ یہ بات بھول بیٹھتے ہیں کہ اس واحد اور احد رب کی ’’لاٹھی‘‘ بے آواز پڑتی ہیں اور جب وہ رحیم احد رب ’’رسی کھینچتا‘‘ ہے تو انسان کتنے خسارے میں تب جاکر پتا چل جاتا ہے۔
آئی ایم ایف ہو یا عالمی بنک، یہ عالمی سطح کے بنک ہیں جو افراد سے نہیں ممالک سے ڈیل کرتے ہیں اور ممالک کو اس کے حکمران چلاتے ہیں وہی دست سوال دراز کرتے ہیں اور ان تمام ممالک کو جو قرضوں کے ضرورت مند ہوتے ہیں۔ انہیں یہ دونوں عالمی ادارے اپنی شرائط سے باندھے رکھنے کے لیے اپنی من مانی شرائط پر ہی قرضے فراہم کرتے ہیں اور اپنی شرائط منوانے کے لیے قرض خواہ ممالک کے سربراہان اور متعلقہ افراد کو وہ مطلوبہ رقوم کا تقریباً چالیس فیصد تک کک بیک یا کمیشن کے بطور ادا کرکے ان کے منہ کو خون لگا دیتے ہیں کہ یہی ان کا سنہری اور تجارتی اصول ہے۔ باقی ماندہ ساٹھ فیصد میں سے پندرہ سے بیس فیصد خود ان اداروں کے ان افراد کی کمیشن ہوتی ہے جو ان ممالک کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ باقی پینتالیس فیصد تک بچ رہ جانے والی رقم وہ بھی کئی قسطوں میں سخت ترین شرائط سے بندھی ہوتی ملتی رہتی ہے۔ اگر انہیں منظور ہوتا ہے ورنہ تو درمیان میں مزید کوئی شرائط لاگو ہوسکتی ہیں۔ جبکہ مقروض ملک کو نا صرف پوری سو فیصد رقم ادا کرنا ہوتی ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کا سود در سود بھی ادا کرنا ہوتا ہے اور یوں کوئی بھی مقروض ملک ان کے شکنجے میں ایسا جکڑتا ہے کہ بے بس قید پرندے کی مانند لیکن کسی اسلامی ملک اور خصوصاً پاکستان کے ساتھ ان عالمی اداروں کا خصوصی معاملہ ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کریلا بھی ہے اور نیم چڑھا بھی… کیونکہ پاکستان اوّل تو مسلمان ملک ہے اور ساتھ ہی اس نے اپنے طور اپنی قوت اور ارادے کو بروئے کار لاتے ہوئے جوہری قوت بھی حاصل کرلی ہے جو تمام غیر مسلم دنیا کی آنکھوں میں نا صرف کھٹک رہی ہے بلکہ ان کے حلق میں ہڈی بن کر اٹک بھی گئی ہے کیونکہ انہیں شدید خطرہ پاکستان اور پاکستانی قوم سے لاحق رہتا ہے کہ کہیں یہ کسی اور معاملے میں اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہو جائے اور کہیں عالمی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا اہل نہ ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اس کے تمام حواری اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ پاکستان کسی بھی طرح ان کے چُنگل سے نہ نکل پائے۔
اگر آج ایک فیصلہ کرلیں کہ ہم اپنے رب سے رجوع کریں گے، صرف اسی کے آگے ہاتھ پھیلائیں گے تو یہ تمام سازشیں عناصر اپنی موت آپ مر جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستانی قوم پر بڑا احسان اور فضل کیا ہوا ہے کہ اہلِ وطن کو ایسی سر زمین عطا فرمائی ہے جو ہر قسم کی نعمتوں سے مالا مال ہے ۔ یہ ہماری نا اہلی ہے کہ ہم اللہ کی ان نعمتوں کو ٹھکرا رہے ہیں۔ اگر ہم آج فیصلہ کرلیں کہ ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے تو دنیا کی کون سی طاقت ہوگی جو ہمارا راستہ روک سکے گی؟اس کے علاوہ اللہ نے ہمیں پانی اور زرخیز زمین جو سونا اگلتی ہے، عطا فرمائی ہے۔ ہمارے چار سُو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہی نعمتیں ہیں، اگر ہم ان ملنے والی نعمتوں سے خود فائدہ اٹھانا چاہیں تو کون ہےجو ہمیں روک پائے لیکن افسوس صد افسوس ہم نے تو خود کو یہودی تاجروں کے یہاں گروی رکھوا دیا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کہ پاکستان ہوتے ہیں ہے کہ ہم ہیں اور رہے ہیں اگر ہم ہیں کہ ہے اور
پڑھیں:
طالبان دہشت گردوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں، پاکستان اپنی سیکیورٹی خود یقینی بنائے گا، ڈی جی آئی ایس پی آر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
راولپنڈی: ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سلامتی و استحکام کی ذمہ داری اور ضمانت مسلح افواج ہیں اور یہ ضمانت کسی بیرونی دارالحکومت یا کابل کو نہیں دی جا سکتی، دہشت گردی، منشیات کی کشتکاری اور غیر ریاستی عناصر کے ساتھ مل کر کام کرنے والے گروپس کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی۔
سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے جنرل احمد شریف نے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا اور واضح کیا کہ ریاستی اداروں کا رویہ واضح ہے، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف آپریشنز جاری ہیں، ملک کی سکیورٹی کا نظم و نسق فوج کے کنٹرول اور ذمہ داری میں ہے اور اس ضمانت کا تقاضا کابل سے نہیں کیا جا سکتا۔
ڈرونز کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کا امریکا کے ساتھ کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے جس کے تحت ڈرونز پاکستان سے افغانستان جا رہے ہوں، اور وزارت اطلاعات نے بھی اس بارے میں وضاحتیں جاری کی ہیں، طالبان رجیم کی جانب سے ڈرون آپریشن کے حوالے سے کوئی باقاعدہ شکایت موصول نہیں ہوئی۔
جنرل نے استنبول میں طالبان کو واضح ہدایات دینے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کو قابو میں رکھنا اور ان کے خلاف کارروائی کرنا افغان فریق کی ذمہ داری ہے،جو عناصر ہمارے خلاف آپریشنوں کے دوران بھاگ کر افغانستان چلے گئے، انہیں واپس کر کے آئین و قانون کے مطابق نمٹایا جائے تو بہتر ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے علاقائی مسائل پر بھی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اصل مسئلہ دہشت گردی اور جرائم پیشہ عناصر کا مشترکہ گٹھ جوڑ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ منشیات کی کاشت اور اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی جنگجوؤں، وار لارڈز اور بعض افغان گروہوں کو منتقل ہوتی ہے، جس نے خطے میں بدامنی کو تقویت دی ہے۔
سرحدی امور پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان افغانستان سرحد تقریباً 2,600 کلومیٹر طویل ہے اور ہر 25 تا 40 کلو میٹر پر چوکیوں کی موجودگی کے باوجود پہاڑی اور دریا ئی علاقوں کی وجہ سے ہر جگہ چوکی قائم کرنا ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان سرحدی گارڈز بعض اوقات دہشت گردوں کو سرحد پار کروانے کے لیے فائرنگ میں معاونت کرتے ہیں، جس کا پاکستان جواب دیتا ہے۔
فوجی عہدوں کے قیام یا دیگر انتظامی امور کے بارے میں انہوں نے واضح کیا کہ اس نوعیت کے فیصلے حکومت کا اختیار ہیں، فوج نے وادی تیرہ میں براہِ راست آپریشن کا دعویٰ نہیں کیا اور اگر کوئی آپریشن ہوا تو اسے شفاف انداز میں بتایا جائے گا؛ تاہم انٹلی جنس بیسڈ کارروائیوں میں کافی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔