تبصرہ نگار: بشیر واثق
قرآنی تعلیمات
مولف: نسیم طاہر،زر تعاون: 500 روپے،صفحات:336
ناشر:ادبستان، پاک ٹاور،کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور (03004140207)
قرآن مجید دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں علم کے جویا افراد قرآنی مضامین کو سمجھنے کیلئے تحقیق میں مشغول رہتے ہیں، کاش ایسا ہوتا کہ جس طرح اسے پڑھا اور حفظ کیا جاتا ہے اسی طرح اسے سمجھنے اور سمجھانے والوں کی بھی تعداد بھی کروڑوں میں ہوتی۔
محققین کا کہنا ہے کہ قرآن مجید ایسی کتاب ہے جس میں کائنات کا ہر موضوع زیر بحث لایا گیا ہے صرف دیکھنے اور کھوجنے والی آنکھ کی ضرورت ہے۔ اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں سے زیادہ آج کل غیر مسلم دانشور، سائنس دان اور محققین قرآن پر تحقیق میں لگے ہوئے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ ہم میں سے ہر فرد قرآن کی تلاوت صرف ثواب کی نیت سے نہ کرے بلکہ اسے سمجھنے اور سمجھانے کا بھی اہتمام کرے، اس کے لئے ضروری ہے کہ عربی زبان پر عبور ہو، ہر فرد کیونکہ اتنی محنت نہیں کر سکتا تو مسلم علماء نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ قرآن کے تراجم اور تفاسیر کر دی گئی ہیں تاکہ عام پڑھا لکھا مسلمان بھی قرآن سمجھ سکے ۔
زیر تبصرہ کتاب قرآن فہمی کے اسی سلسلے کی کڑی ہے تاہم اس کی سب سے بڑی خوبی اس کی آسان زبان اور مختصراً قرآن کے مضامین کا احاطہ ہے جس سے کوئی بھی مسلمان آسانی سے قرآن کے مضامین سے آگاہی حاصل کر کے اپنی اور دوسروں کی زندگی کو اسلام کے مطابق بنا سکتا ہے۔ عبدالمتین ملک کہتے ہیں ’’ اہل عرب کی خاص خوش نصیبی ہے کہ کلام الہیٰ عربی زبان میں نازل ہوا ۔ ان کے لئے قرآن سے براہ راست مستفیض ہونا آسان تر ہے اہل عجم کیلئے بہرحال ایک مشکل موجود رہتی ہے کہ ان کے لئے براہ راست استفادہ ممکن نہیں ۔ عربی زبان سیکھنے کے باوجود پورے نظم قرآنی کا احاطہ ایک مشکل کام ہے ۔
تراجم اور تفاسیر کے عظیم ذخائر موجود ہیں مگر عدیم الفرصتی کے باعث ایک عام مسلمان کے لئے ان خزانوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا ممکن نہیں ہوتا ۔ عام مسلمان کو اگر آسان فہم زبان میں قرآنی تعلیمات کی روح سے روشناس کروایا جائے تو لازم ہے کہ وہ کلام پاک سے قربت محسوس کریں اور قلبی تراوت کے ساتھ ساتھ ہدایت کلی سے بھی روشناس ہوں گے ۔
اسی غرض کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے دوست نسیم طاہر صاحب ایڈووکیٹ نے کلام اللہ کی پرمغز تعلیمات کو آسان فہم بنانے کے لئے کچھ کاوش فرمائی ، انھوں نے نماز تراویح کی ترتیب کے قریباً مطابق اٹھائیس ابواب ترتیب دیئے، ادارے نے کچھ ترامیم اور اضافہ کے بعد ان کو کتاب کی صورت قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہے۔‘‘ بہت مفید کتاب ہے خاص طور پر ان کے لئے جو وقت نہ ہونے کا رونا روتے ہیں وہ اس کتاب کو اپنے ساتھ رکھیں جب بھی فارغ وقت ملے تو قرآن فہمی کے لئے اس کا مطالعہ کریں ۔ نوجوان نسل کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
۔۔۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی !
آواز
ایم سرور صدیقی
وفاقی حکومت نے جناتی اندازکا نیا بجلی کا سلیب سسٹم جاری کردیاہے جوطلسم ِ ہوشربا سے کم نہیں ہے۔ سمجھ نہیں آتی اشرافیہ عوام کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہی ہے؟ شاید عوام کو چکر پہ چکر دینامقصودہے کہ عام آدمی سکھ کا سانس بھی نہ لے پائے ۔کہا یہ جارہاہے کہ بجلی ٹیرف کا پہلے جو 200 یونٹ والا رعایتی نظام تھا وہ ختم کر دیا گیا ہے۔ اب اسے بڑھا کر 300 یونٹ کر دیا گیا ہے لیکن اس میں اصل چالاکی چھپی ہے یعنی مرے کو مارے شاہ مدار۔بجلی ٹیرف کے پرانے نظام میںپہلے 100 یونٹس پر ریٹ 9 روپے فی یونٹ تھا ۔اس کے بعد کے یونٹس (100) پر ریٹ ہوتا تھا 13 روپے فی یونٹ اور اگر آپ کا بل 200 یونٹ سے اوپر چلا جاتا تو صارفین کو 34 روپے فی یونٹ کا اضافی ادا کرناپڑتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی شرط عائد تھی کہ اگر آپ 6 مہینے تک دوبارہ 200 یونٹ سے کم پر آ جائیں تو صارفین کے بجلی کاریٹ واپس 9 روپے فی یونٹ کے ریٹ پر آ جاتا تھا۔ مطلب اگر کوئی صارف کچھ مہینے زیادہ بجلی خرچ کر گیا تو اسے دوبارہ سستے ریٹ پر آنے کا موقع ملتا تھا۔ اب جناتی اندازکے نئے بجلی کے سلیب سسٹم میں 1 یونٹ سے لے کر 300 یونٹس تک کا ریٹ سیدھا 33 روپے فی یونٹ کر دیا گیا ہے(ہور چوپو)صاف صاف ظاہرہے اب کوئی سلیب سسٹم نہیں بچا کوئی 6 مہینے کی رعایت یا واپسی کا راستہ نہیں بچا ۔جو صارف پہلے تھوڑا احتیاط کر کے 200 یونٹ سے نیچے رہ کر بچ جاتا تھا۔ اب اس کو بھی وہی مہنگا ریٹ بھرنا پڑے گا ۔اس کا نتیجہ ہے کہ 300 یونٹ کے نام پر عوام کو ایک طرف سے ریلیف کا دھوکا دیا گیا ہے کہ 300 یونٹ تک رعایت ہے لیکن حقیقتاً اب سب صارفین کو یکساں مہنگی بجلی خریدنی پڑے گی پہلے تھوڑی بہت امید بچ جاتی تھی 6 مہینے بعد سستے ریٹ کی اب وہ امید بھی حکومت نے چھین لی ہے یہ تو سراسر عوام کے ساتھ زیادتی ہے، سنگین مذاق ہے، اور معاشی قتل کے مترادف ہے اس لئے حکمرانوںکا مطمح نظرہے کہ بھاری بل آنے والے پرجو کم وسائل، غریب اور مستحقین ہے وہ خودکشی کرتے ہیں تو کرتے پھریں ہمیں کوئی پرواہ نہیں ۔صارفین کو اب احتیاط بچت یا کم خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔واپڈا کے ” سیانوں” نے عوام کو ہر حال میں لوٹنے کا سسٹم بنا دیا گیا ہے ۔یہ پہلے سے بھی بڑا ظلم ہے ۔اس پر کون آواز اٹھائے گا کوئی نہیں جانتا ۔دوسری طرف بجلی بلوں کی تقسیم کا نیا نظام رائج کرتے ہوئے حکومت نے خسارے میں چلنے والے محکمہ پاکستان پوسٹ کو اہم ذمے داری سونپ دی گئی ملک بھر میں بجلی بلوں کی پرنٹنگ اور تقسیم کے حوالے سے اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، جس کے تحت تمام بجلی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کے بل اب پاکستان پوسٹ کے ذریعے تقسیم کیے جائیں گے۔ابتدائی مرحلے میں یہ نظام آزمائشی بنیادوں پر شروع کیا جائے گا۔ ہر ڈسکوز کے ایک سب ڈویژن میں پاکستان پوسٹ کا عملہ بجلی بل تقسیم کرے گا۔ پائلٹ پراجیکٹ کی کامیابی کی صورت میں اسے مرحلہ وار پورے ملک تک توسیع دی جائے گی۔ آئندہ چھ ماہ میں بلوں کی مکمل تقسیم کا نظام پاکستان پوسٹ کے حوالے کر دیا جائے گا، جبکہ حتمی مرحلے میں بجلی بلوں کی چھپائی کا عمل بھی پاکستان پوسٹ انجام دے گا۔ اس نئے نظام کے نفاذ کے سلسلے میں تمام ریجنل پوسٹ ماسٹر جنرلز کو ضروری ہدایات جاری کر دی گئی ہیں، تاکہ عملہ پیشگی تیاری کر سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں کے الیکٹرک کے ساتھ بھی بجلی بلوں کی تقسیم کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔یہ اقدام بلوں کی بروقت ترسیل، شفافیت اور لاگت میں کمی کے لئے حکومت کی ایک بڑی اصلاحاتی کوشش قرار دی جا رہی ہے۔بہرحال یہ تو انتظامی ترجیحات ہیں لیکن بجلی کے بلوںکے حوالے سے عوام کے ساتھ جو کچھ ہورہاہے پوری دنیا میں ایسا ناروا سلوک کوئی حکومت اپنے ہم وطنوں کے ساتھ نہیں کررہی شاید اسی بناء پرایک مہینے کے دوران نیا ریکارڈ قائم ہواہے۔ صرف مئی میں تقریباً 60 ہزار پاکستانی ملک چھوڑ گئے، بیرون ملک جانے والوں کی تعداد میں اپریل کے مقابلے میں 12.7 فیصد اضافہ، سال کے پہلے 5 مہینوں میں ملک چھوڑنے والوں کی تعداد 2 لاکھ 85 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ لاکھوںپاکستانی اپنا وطن چھوڑنے پرمجبور اس لئے ہورہے ہیں کہ بجلی کے بلوںمیں ایک درجن ٹیکسز دینے کے باوجودملک میں ان کا تحفظ، سیکیورٹی نہ ہونے کے برابرہے۔ صفائی کی صورت ِ حال ناگفتہ بہ ہے۔ گلی کوچوںمیں گندگی، اُبلتے گٹر وں نے الگ جینا عذاب بنارکھاہے ۔عام آدمی کے ساتھ ائیرپورٹ تھانوں اورکچہریوں میں جو سلوک ہوتاہے ،وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ یہی عام آدمی سرکاری دفاتر میں روز ذلیل ہوتاہے۔ سڑکوں پر ٹریفک وارڈن اتنی عزت ِ نفس مجروح کرتے ہیں کہ انسان سوچتاہے اتنا بے عزت ہونے کی بجائے خودکشی کرلے تو بہترہے ۔ یہی عوام (1) انکم ٹیکس (2) جنرل سیلز ٹیکس (3) کیپیٹل ویلیو ٹیکس (4) ویلیو ایڈڈ ٹیکس (5) سینٹرل سیلز ٹیکس (6) سروس ٹیکس (7) فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز (8) پیٹرول لیوی (9) ایکسائز ڈیوٹی (10) کسٹمز ڈیوٹی (11) اوکٹرائے ٹیکس (میونسپل ایریا میں سامان کے داخلے پر عائد ٹیکس) (12) ٹی ڈی ایس ٹیکس (ٹیکس ڈیڈکشن ایٹ سورس) (13) ایمپلائمنٹ اسٹیٹس انڈیکیٹر ٹیکس (ESI ٹیکس) (14) پراپرٹی ٹیکس (15) گورنمنٹ اسٹیمپ ڈیوٹی (16) آبیانہ (زرعی زمین کے پانی پر ٹیکس) (17) عشر (18) زکوٰة (بینکوں میں موجود رقم سے کٹوتی) (19) ڈھال ٹیکس (20) لوکل سیس (21) ہرقسم لائسنس کی فیس (22) دفاتر،ہسپتالوں اور کئی قسمکی پارکنگ فیس (23) کیپیٹل گینز ٹیکس (CGT) (24) واٹر ٹیکس (25) فلڈ ٹیکس (یا اللہ! معاف فرما) (26) پروفیشنل ٹیکس (27) روڈ ٹیکس (28) ٹول گیٹ فیس (29) سیکیورٹیز ٹرانزیکشن ٹیکس (STT) (30) ایجوکیشن سیس (31) ویلتھ ٹیکس (32) ٹرانزیئنٹ اوکیوپینسی ٹیکس (TOT) (33) کنجیشن لیوی لازمی کٹوتی (34) سپر ٹیکس (3 سے 4%) (35) ودہولڈنگ ٹیکسز (36) ایجوکیشن فیس (5%) کے علاوہ (a) بھاری تعلیمی فیسیں (b) اسکولوں میں عطیات (c) ہر چوراہے پر بھکاریوں کی جذباتی بلیک میلنگ کے عوض کیا ملتاہے بے عزتی، رسوائی اورہوکے اور کچیچیاں ۔لگتاہے عوام اشرافیہ کو ٹیکسز دینے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں شاید اقبال تو اس لئے کہا تھا
نہ کہیںجہاںمیں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی؟