سبط الحسن ضیغم (1-4-1936ء تا 9-11-2011ء)
اشاعت کی تاریخ: 18th, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: لاہور میں سیمینار وغیرہ کرواتے رہتے تھے۔ ایک دن مقررین کے انتخاب پر بات ہو رہی تھی تو سبط الحسن ضیغم صاحب کا نام بھی زیر بحث آیا۔ میرے ذمے لگا کہ میں انہیں دعوت دوں اور ساتھ لے کر آؤں۔ میں نے بات کی تو کہنے لگے کہ میں تو پنجابی میں بات کروں گا۔ اس پر تو کسی کو اختلاف نہیں تھا۔ آپ نے اچھی تقریر کی۔ ایک فقرہ کہہ دیا کہ "ایران دے وچ ملاں شاہ نال بھڑ پئے۔" پروگرام کے بعد اس فقرے پر میری خوب کلاس لی گئی۔ ایک اور پروگرام میں آپ نے تجویز دی، جسے وہ بارہا دھرا چکے تھے کہ پنجابی زبان کو لازمی قرار دیا جائے، اگر پنجابی زبان تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے لگے تو کم از کم پچاس ہزار پنجابیوں کو ملازمت مل سکتی ہے اور پنجابی زبان کی ترویج ہوگی۔ تحریر: سید نثار علی ترمذی
زندگی میں ایسے لوگ ملتے ہیں کہ جنہیں زمانہ کے مد و جزر فراموش نہیں کرسکتے۔ سید سبط الحسن ضیغم ایسے ہی شخص تھے۔ ایک عرصے سے سوچ رہا تھا کہ ان کے بارے میں کچھ لکھوں تو اور بہت سی مصروفیات آڑے آجاتیں، مزید یہ کہ میرے ذاتی تاثرات و یاداشت کے علاؤہ کچھ اور معلومات درکار ہوتی ہیں، جو کسی کے بارے میں لکھنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں۔ چند روز قبل کتابی چہرے پر پرانی کتب برائے فروخت کے اشتہار دیکھتے ہوئے "پنجاب بدلتا تناظر" کا ٹائٹل نظر سے گزرا۔ مصنف کی جگہ سبط الحسن ضیغم نام لکھا ہوا تھا۔ یہ نام پڑھنے سے کیا کیا نہ یاد آیا۔ رات کا نا جانے کیا وقت تھا کہ میں نے وٹس ایپ پر کتاب کی دستیابی اور قیمت دریافت کی۔ کتاب فروش بھی شائد اسی انتظار میں تھا کہ اس نے ترنت جواب دیا کہ کتاب موجود ہے، مگر اس کی قیمت کل بتاؤں گا۔ دل کو سکون ملا کتاب تو مل جائے گی، اگر قیمت جیب کے مطابق ہوئی۔ بہت سی کتب قیمت اور جیب کے تناسب کی ضرب سے نہ لے سکا۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
اگلے دن جب قیمت کے بارے میں علم ہوا تو وہ میری توقع سے بھی کم تھی۔ فوراً پیسے بھیج دیئے۔ کتاب مل گئی۔ اس میں سید سبط الحسن ضیغم کے مختصر حالات زندگی درج تھے۔ کچھ نہ کچھ کاغذ کا پیٹ بھرئے گا۔
اسّی کی دہائی کی ابتداء تھی۔ میں ملازمت اور تعلیم کے لیے لاہور میں آیا تھا۔ نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں صرف کتاب بینی تھی۔ کتب لائبریری میں دستیاب تھیں۔ اس لیے لائیبریری سے وابستہ ہوگیا۔ پنجاب پبلک لائبریری کا 1981ء سے رکن ہوں۔ وہاں پڑھنے کے بعد دو کتب اجراء کروا کر گھر لے جاتا، جسے پڑھنے کے بعد اگلے دن واپس کر دیتا۔ لائبریری والے متعدد مرتبہ اظہار کرچکے تھے کہ آپ ان چند افراد میں سے ایک ہیں، جو کتب چوبیس گھنٹے میں واپس کرکے نئی ایشو کروا لیتے ہیں۔ انہی دنوں میرے دوست ظل حسنین علوی گریڈ سترہ میں لائبریرین تعینات ہوگئے۔ ان کے آنے سے لائیبریری بھی اپنی اپنی لگنے لگی۔ وہ مجھے "مرشد" کہہ کر بلاتے تھے۔ یوں پوری لائبریری کا عملہ مجھے مرشد کہہ کر بلانے لگ گیا۔ ظل حسنین کی عادت تھی کہ جب بھی اس کے پاس کوئی مہمان آتا تو وہ مجھے بلا کر تعارف کرواتے اور چائے وغیرہ پیش کرتے تو میں شریک چائے ہو جاتا۔
ایک دن جب میں گیا تو دیکھا کہ سفید شلوار قمیض پہنے، گیرو رنگ کی پگڑی پہنے کلین شیو شخص بیٹھا ہوا بلند آواز میں باتیں کر رہا ہے۔ مجھے دیکھتے ہی ظل نے مجھے کہا کہ مرشد! اناں نو ملو، اے ہیں سید سبط الحسن ضیغم شاہ صاحب، میں نے سلام کیا اور لگ رہا تھا کہ میرے بارے میں پہلے ہی بتایا جا چکا ہے۔ خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد پوچھنے لگے کہ کہاں سے "اجڑ" کر آئے ہو۔؟ میں نے بتایا کہ مشرقی پنجاب سے۔ کہنے لگے کہ تسیں پنجابی ہو تے بولدے کلرکاں والی زبان ہو۔ میں نے وضاحت کی، جو انہیں مطمئن نہ کرسکی۔ کہنے لگے کہ ہر ایک اپنی زبان کی حفاظت و ترویج کے لیے کوشاں ہے، مگر پنجابی اس حوالے سے سب سے زیادہ لاپروا ہیں۔ جیڑا پنجابی چار جماعتاں پڑھ لیندا ہے اور اپنی ماں بولی چھوڑ کے کلرکاں دی زبان اردو بولن لگ جاندا ہے۔ ان کی باتوں میں وزن تھا۔ بس ہم سے دوستی شروع ہوگئی۔ میڈیم پنجابی قرار پایا۔
آپ بالکل سادہ زیست تھے۔ شلوار قمیض اور پگڑی گرمی سردی زیب تن کرتے تھے۔ سردیوں میں کپاس کا بنا ہوا کھیس اوڑھ لیتے تھے، جسے ہمارے گاؤں میں"بھگل" کہتے تھے۔ ان دنوں آپ اسلام پورہ، لاہور میں رہائش پذیر تھے۔ صبح مسواک کرتے کرتے ناصر باغ آ جاتے تھے اور پھر سیر کرتے۔ آپ پنجابی زبان، کلچر اور تاریخ سے آگاہ شخص تھے۔ سکھوں سے دوستی تھی۔ جب سکھ یاتری پاکستان آتے تو آپ ان ساتھ ہی وقت گزارتے۔ شائد حکومت بھی ان کی خدمات حاصل کرتی ہوگی، تاکہ سکھوں سے تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ اس موقع پر منعقدہ پروگراموں میں بھی آپ کا خطاب ہوتا، تاکہ سکھوں کو ان کی تاریخ اور روایات سے آگاہی دی جا سکے۔ بقول شخصے آپ سکھ مذہب و تاریخ اور پنجابی زبان کے بارے سکھوں سے زیادہ علم رکھتے تھے۔ بہت سے سکھ رہنماء ان کے ذاتی دوست تھے۔ وہ جب لاہور آتے تو آپ سے شرف ملاقات حاصل کرتے۔ ایک مرتبہ کسی شبہ میں غائب کر دیئے گئے۔ جب ملے تو بتایا کہ کدھرے سیر سپاٹے تے لے گئے سن۔
جن سے دوستی و آشنائی ہو جائے تو ان کے کاموں سے دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔ یوں ان کے کالم متواتر سے پڑھتا رہتا تھا۔ آپ نے اعوان ٹاؤن میں اپنا گھر بنا لیا تھا، جو آخر میں تھا۔ ایک دن ہم دونوں ویگن سے اعوان ٹاؤن سٹاپ پر اترے اور پیدل چلتے ہوئے ان کے گھر تک گئے۔ میں نے پوچھا کہ اس کا ایڈریس کیا ہے تو کہنے لگے "جس توں پوچھیں گا اوہ توڑ چھوڑ جائے گا" اور واقعی ایسا ہوتا تھا۔ منصورہ لاہور کے ساتھ زینبیہ کمپلیکس کے بانی سید ارشاد علی شاہ مرحوم سے آشنائی ہوگئی اور پھر ملنا جلنا بڑھ گیا۔ زینبیہ کمپلیکس میں ایک لائبریری کی بلڈنگ ہے، جس کی کتب کے لیے علیحدہ فنڈ تو مخصوص نہ تھے، مگر لوگوں کو کتب کے دینے کے لیے ضرور کہا جاتا۔ میں نے اپنے والد بزرگوار سید صابر حسین ترمذی مرحوم کی جمع کردہ کتب اس لائبریری میں عطیہ کیں۔ ایک دن باتوں باتوں میں، میں نے سبط الحسن ضیغم کا تذکرہ کر دیا۔ بس شاہ صاحب تو پیچھے پڑ گئے کہ انہیں کمپلیکس کا فوری دورہ کرواو۔ میں نے رابطہ کیا تو بتایا کہ وہ پیکیجز میں ہوتے ہیں، اوتھے آجاو۔ میں وہاں پہنچ گیا۔
گیٹ سے فون کیا تو مجھے اندر بلا لیا۔ شائد آرٹ ڈیپارٹمنٹ تھا، وہاں پر شاہ صاحب سے ملا اور انہیں زینبیہ کمپلیکس کے دورے کی دعوت دی۔ میں نے ویسے پوچھا کہ یہاں کیا کام کرتے ہیں تو بتانے لگے کہ "قصیدہ بردہ شریف" کا پنجابی میں ترجمہ کو دیکھ رہا ہوں۔ ایک دن شاہ صاحب کو لے کر زینبیہ کمپلیکس پہنچا۔ ارشاد علی شاہ مرحوم نے اپنی رہائش پر "اللہ بادشاہ" لکھوایا ہوا تھا، جسے دیکھ کر سبط الحسن ضیغم بہت خوش ہوئے کہ اے اللہ اکبر دا پنجابی ترجمہ ہے۔ دونوں شاہ ملے تو بہت باتیں ہوئیں اور باتوں باتوں میں لائیبریری کے لیے کتب کا کہا گیا تو کہنے لگے میں نے اپنا کتب خانہ عجائب گھر کی لائیبریری کو وصیت کے تحت دے دیا ہے، ویسے لوکاں نوں اکھاں گا۔ ایک دن ارشاد علی شاہ اور بندہ ناچیز اعوان ٹاؤن ان رہائش گاہ پر گئے۔ بالکل سادہ سا ڈرائنگ روم اور چاٹی کی لسی سے تواضع کی۔ جب لائبریری دیکھنے پر اصرار کیا تو ایک درمیانے سے کمرے میں لے گئے، جس میں سیمنٹ کی شلفیں تھیں اور کتابیں تہ در تہ لگی ہوئیں تھیں۔ ایک نایاب قلمی نسخہ بھی دکھایا۔ میں نے بے تکلفی سے کہا کہ آپ ابھی حیات ہیں تو اپنی وصیت بدل دیں۔ کہنے لگے کہ اوتھے کتاباں زیادہ محفوظ ہیں اور واقعی شاہ صاحب کا فیصلہ درست تھا۔
لاہور میں سیمینار وغیرہ کرواتے رہتے تھے۔ ایک دن مقررین کے انتخاب پر بات ہو رہی تھی تو سبط الحسن ضیغم صاحب کا نام بھی زیر بحث آیا۔ میرے ذمے لگا کہ میں انہیں دعوت دوں اور ساتھ لے کر آؤں۔ میں نے بات کی تو کہنے لگے کہ میں تو پنجابی میں بات کروں گا۔ اس پر تو کسی کو اختلاف نہیں تھا۔ آپ نے اچھی تقریر کی۔ ایک فقرہ کہہ دیا کہ "ایران دے وچ ملاں شاہ نال بھڑ پئے۔" پروگرام کے بعد اس فقرے پر میری خوب کلاس لی گئی۔ ایک اور پروگرام میں آپ نے تجویز دی، جسے وہ بارہا دھرا چکے تھے کہ پنجابی زبان کو لازمی قرار دیا جائے، اگر پنجابی زبان تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے لگے تو کم از کم پچاس ہزار پنجابیوں کو ملازمت مل سکتی ہے اور پنجابی زبان کی ترویج ہوگی۔ پرویز مجید صاحب نے "پنجاب بدلتا تناظر" میں آپ کے حالات زندگی کے بارے میں لکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی سے ان کا تعلق غالباً مستقل رکن بننے تک نہیں پہنچا، البتہ اس کے قوی شواہد ہیں کہ اسلامی جمعیت طلبہ کی تاسیس میں ان کا کردار نمایاں رہا۔ ڈاکٹر اسرار احمد اور ارشاد احمد حقانی سے ان کے تعلقات اسی دور سے یادگار ہیں۔
1950-51ء میں انہوں نے طالب علمی کے زمانے کے خاتمے پر جماعت اسلامی کے زیر اثر "حافظ آباد" سے بطور اخباری نامہ نگار کا آغاز کیا۔ یہاں سے سول اینڈ ملٹری گزٹ، پاکستان ٹائمز اور روزنامہ "امروز" اور دیگر اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے رہے۔ گجرانوالہ سے ہفت روزہ "قومی دلیر" سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے۔ اسی دوران وہ عظیم کسان رہنماء "سید مطلبی فرید آبادی کی لگن اور جدوجہد سے متاثر ہو کر بائیں بازو کی جانب متوجہ ہوئے اور یہ ختم نہ ہونے والا سفر ان کے آخری سانس تک جاری رہا۔ یہیں وہ کیمونسٹ پارٹی کے افکار و نظریات کے قریب آئے، اگرچہ پابندی عائد ہونے کے بعد اس کی سرگرمیاں زیر زمین تھیں۔ آزاد پاکستان پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) جیسے مراحل سے گزر کر وہ مزدور کسان پارٹی کے بانیوں میں شامل ہو کر ممتاز اور نمایاں مقام پر سرفراز ہوئے۔ 1972ء میں ان کی لاہور منتقلی ان کی صحافی زندگی میں سب سے اہم موڑ تھی۔ اسی زمانہ میں بطور کالم نویس متعارف ہوئے۔ روزنامہ مساوات سے آغاز کے ساتھ ہی انہوں نے دوسرے قومی اخبارات کے لیے کالم نویسی کی ابتدا کی۔
روزنامہ "جنگ" کی اشاعت کے اولین زمانے میں اس سے بھی متعلق رہے اور کالموں کا معاوضہ نہ وصول ہونے پر اس سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اس کا گلہ ہمیشہ کرتے رہے، معقول معاوضہ تو درکنار ان کی محنت کی بنیادی ادائیگی سے بھی ادارہ جنگ ہمیشہ گریزاں رہا۔ پنجاب میں صحافت کے آغاز سے عہد جدید تک کے موجودہ رجحان میں ان کا شمار عہد وسط کے اخبار نویسوں میں کرسکتے ہیں۔ اخبار نویسی میں ان کی دو نمایاں ترجیحات رہیں: (ا) وقائع نگاری، (ب) تذکرہ نگاری۔ جی ہاں دونوں عنوانات سے اپنی صحافتی زندگی کی تعبیر تلاش کرتے تھے۔ پھر دہائیوں پر پھیلے ہوئے عرصے میں انہوں نے ان گنت موضوعات پر لکھا، لیکن اس کی تشریح انہوں نے خود انہی دو عنوانات سے کی۔ آپ ان سے اختلاف رائے رکھ سکتے تھے، لیکن ان کی رائے بدلنے پر قدرت نہیں رکھتے تھے۔ آپ کے ایک فرزند سید ابو طالب نقوی، جامعہ المنتظر لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ آج آپ کی برسی ہے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے، آمین ثم آمین۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: زینبیہ کمپلیکس سبط الحسن ضیغم کے بارے میں کہنے لگے کہ لاہور میں شاہ صاحب انہوں نے تھا کہ کے بعد ایک دن کے لیے سے بھی کہ میں ہے اور
پڑھیں:
مزدور رہنما پاشا احمد گل مرحوم کی یاد میں منعقدہ تقریب کے موقع پر EPWA کے چیئرمین اظفر شمیم، جنرل سیکرٹری علمدار رضا، متین خان، سینئر نائب صدر، ممبر ایگزیکٹو کمیٹی محمد اخلاق، احتشام الحسن، حسین زیدی، سلیم بھائی اور ایپوہ کے ممبران خصوصاً محمد جعفر، شہباز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default"> جسارت نیوز
گلزار