Express News:
2025-04-28@04:39:09 GMT

جماعت اسلامی کی سیاست

اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT

8 فروری2024کو، جب پاکستان کے عوام نے جماعت اسلامی کی انتخابی سیاست کو مسترد کر دیا، اور اس کا کوئی امیدوار اپنے انتخابی نشان’ ترازو‘ پر منتخب ہو کے اسمبلی میں نہ پہنچ سکا ، تو یہ ایسی عبرتناک شکست تھی کہ جماعت کی تاریخ میں اس سے پہلے اس طرح کی کوئی مثال نہیں ہے۔

سراج الحق، جو اس وقت تک بطور امیر اپنی دوسری مدت پوری کر چکے تھے، وہ بھی اپنی سیٹ نہ بچا سکے، بلکہ اس کے فوراً بعد پارٹی الیکشن میں امارت بھی کھو بیٹھے ۔ ارکان جماعت نے ان کی جگہ کراچی کے حافظ نعیم الرحمن کو نیا امیر منتخب کر لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ 8فروری کو وہ بھی ہار چکے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ جماعت کی مجلس شوریٰ نے ارکان کی ’راہنمائی‘کے لیے جو تین نام تجویز کیے تھے، ان میں لیاقت بلوچ کے مقابلے میں ارکان کو بوجوہ حافظ صاحب نسبتاً بہتر محسوس ہوئے ہوں۔

بہرحال، وجوہات جو بھی ہوں، حافظ نعیم صاحب سے ’اہل جماعت‘ نے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ لیکن، وہ جو کہتے ہیں کہ ’کوئی امید بھر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی‘، نشیب کی طرف  جماعت کا سفر بدستور جاری ہے ، بلکہ شاید اس میں مزید تیزی آ چکی ہے۔ نوبت یہ آچکی ہے کہ جس طرح عوام 8 فروری2024ء کو جماعت سے لاتعلقی کا اعلان کر چکے ہیں، اسی طرح اب امیر جماعت بھی عوام سے بے نیازی کا اظہار فرما رہے ہیں، اور انھوں نے بھی اپنی جدوجہد ملک کے بجاے عالمی ’’طاغوتوں‘‘ سے نجات پر مرکوز کر دی ہے۔ موجودہ حکومت سے شایدکوئی خاص مسئلہ نہیں۔ جماعت کا ہدف اب امریکا اور اسرائیل ہے۔

پارلیمنٹ کے اندرجماعت اسلامی کی اہمیت شروع ہی سے بس واجبی سی ہے۔ 1947 کے بعد ابتدائی زمانہ میں، جب سیاست میں اس کو کسی دوسرے مذہبی گروہ کا براہ راست چیلنج درپیش نہیں تھا، تو اس نے بانی جماعت کے مخصوص مذہبی لڑیچر کی متوسط طبقہ میں مقبولیت اور اپنی تنظیم کے بل پر قومی سطح پرکچھ توجہ ضرور حاصل کرلی تھی؛ لیکن جیسے ہی مسلم لیگ کو کمزور پڑتے دیکھ کے ایک ایک کرکے باقی مذہبی گروہ بھی میدان میں کود پڑے، تو انتخابی سیاست میں جماعت کی پیشقدمی کے امکانات بہت محدود ہو گئے۔ مودودی صاحب تقریباً 30 برس تک جماعت کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔

1970کے انتخابات میں، وہ پوری قوم کو مغربی اور مشرقی پاکستان میں ’ اسلامی انقلاب‘ کی نوید سنا رہے تھے، اور ان کے صحافی دونوں حصوں میں جماعت کی غیر معمولی کامیابی کی پیشگوئی کر رہے تھے، لیکن نتائج سامنے آئے، تو اداروں کی بھرپور تائید کے باوجود جماعت مشرقی پاکستان سے تو ایک سیٹ بھی نہ لے سکی، جب کہ مغربی پاکستان سے بھی اس کے صرف چار ارکان کامیاب ہو پائے۔ اور، یوں جماعت کے انتخابی مستقبل کے حوالے سے وہ تمام خوشنما دلائل، جو مودودی صاحب نے 1957 میں اپنے طویل خطاب،’’ تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل‘‘ کے نام سے دیے تھے، غلط ثابت ہوئے۔ چنانچہ اس کے بعد وہ امارت سے دستبردار ہو گئے۔ تاہم، جاتے جاتے اپنی جگہ امارت کے لیے اپنے سیکریٹری میاں طفیل محمد کا نام تجویز کرگئے ، جن کو ارکان جماعت نے ایک رسمی انتخاب کے بعد نیا امیر منتخب کر لیا۔

میاں طفیل محمد نے انھی خطوط پر جماعت اسلامی کو آگے چلایا ، جن خطوط پر مودودی صاحب چلا رہے تھے۔ 1977 کے متنازعہ انتخابات کے بعد بھٹو صاحب کے خلاف احتجاجی تحریک کے زوروشور میں، جسے درپردہ اداروںکی حمایت حاصل تھی، جنرل ضیاء نے بھٹو کا تختہ الٹ کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ میاں صاحب نے نہ صرف اس ’انقلاب‘ کا دل و جان سے خیرمقدم کیا، بلکہ اسے استحکام اور دوام بخشنے کے لیے مارشل لاکابینہ کا حصہ بننے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہ کی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ جنرل ضیاء الحق ہی تھے، جنھوں نے جماعت پر بعدازاں سب سے کاری وار کیا، اور وہ اس طرح کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیموں اور یونینوں پر پابندی لگا دی۔

چونکہ جماعت کا لٹریچر عموماً انھی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم نوجوانوں پرکارگر ثابت ہوتا تھا، اوریہی نوجوان آگے چل کے جمعیت سے جماعت میں آتے تھے اور اس کو تقویت دیتے تھے؛ لہٰذا، طلبہ تنظیموں اور یونینوں پر پابندی کا سیدھا مطلب یہ تھا کہ جنرل ضیاء نے گویا جماعت کی لائف لائن ہی کاٹ دی ہے۔ اگرچہ طلبہ تنظیموں پر اس پابندی کے اثرات ظاہر ہونے میںکچھ وقت لگا، لیکن اپنی طلبہ نرسری کے خاتمہ کے بعد پھر جماعت نیچے سے نیچے ہی گئی۔1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں جماعت واحد پارٹی تھی، جس نے عملی طور پر اس میں ’’باجماعت‘‘ حصہ لیا تھا، اس کے باوجود چند سیٹوں کے سوا کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکی۔

میاںطفیل محمد کے بعد قاضی حسین احمد بڑے دھوم دھڑکے کے ساتھ آئے، اور لگ بھگ ۲۵برس تک امیر جماعت رہے ۔ انھوں نے جماعت کو ایک مقبول عوامی پارٹی بنانے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد، اسلامی فرنٹ اورمتحدہ مجلس عمل سمیت ہر حربہ اختیار کیا، لیکن 2013 میں جب امارت سے الگ ہوئے تو پارلیمنٹ میں جماعت کے جغرافیے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی تھی۔ ان کے بعد ناک کی سیدھ میں چلنے والے منورحسن آئے،لیکن وہ بھی جماعت کو کوئی واضح لائحہ عمل نہ دے سکے اور اپنے پانچ سال اسی گومگو کے عالم میں گزارکے جب رخصت ہوئے، تو پارلیمنٹ میں جماعت کی نمایندگی مزید سکڑ چکی تھی۔

وہ اپنے آپ کو ایک ہی کریڈٹ دیتے رہے کہ ان کی امارت میں جماعت نے ۱۹۷۰ء کے بعد پہلی بار اپنے انتخابی نشان ’ترازو‘ پر انتخابات میں حصہ لیاہے۔ سراج الحق ایک طرح سے منور حسن کو ہرا کے امیر جماعت منتخب ہوئے تھے، اور دس سال تک منصورہ پر ان کی امارت کا پرچم لہراتا رہا، لیکن سیاسی طور پر وہ بھی ’نیمے دروں نیمے بروں‘ پالیسی کا شکار رہے ۔ نتیجتاً، جماعت کو اس حال میں چھوڑ کر گئے کہ پارلیمنٹ میں آج جماعت کا نام و نشان تک نہیں بچا ہے، رہے نام اللہ کا ۔ بلوچستان کے ہدایت اللہ اپنے مقامی گروپ حق دو تحریک کی حمایت اور اس کے نشان پر آئے ہیں۔

 ان حالات میں ایک سال پہلے جب حافظ نعیم الرحمن نئے امیر ’منتخب‘ ہوئے، تو خیال یہ تھا کہ 8فروری کے نتائج پر وہ جماعت اسلامی کے اندر اور باہر ، وسیع پیمانے پر، غوروفکرکا آغازکریں گے، اور یہ جاننے اور سمجھنے کی سعی ضرور فرمائیں گے گے کہ آخر وہ کیا عوامل ہیں، جن کی بنا پر عوام جماعت کو بطور سیاسی اور انتخابی پارٹی قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ۸ فروری کے نتائج نے پارلیمنٹ میں جماعت کو عملی طور پر تحلیل کر دیا ہے۔ لیکن آفرین ہے اس پر کہ یہ نتائج بھی اکابرین جماعت کے اندرکوئی ہلچل پیدا کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔

حافظ نعیم الرحمن صاحب کے تیور بتا رہے ہیں کہ یہ سلسلہ آگے بھی اسی طرح زور و شور سے چلتا رہے گا۔ جماعت کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کی انتخابی سیاست دم توڑ چکی، ر علمی و فکری مشاغل میں اس کی نئی پود کو ویسے کوئی دلچسپی نہیں، جب کہ اس کے امراء اور دانشور، اپنے آوٹ آف ڈیٹ لٹریچر کو اپ ڈیٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، نہ اس پر آمادہ نظر آتے ہیں، جس کی انقلابی روح کب کی پرواز کر چکی، اور جس میں آج کی نسل کے لیے راہنمائی کا کوئی سامان موجود نہیں۔

 ’نظریاتی‘ جماعتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ بنتی تو یقیناً اعلیٰ و ارفع مقاصد کے حصول کے لیے ہیں، لیکن ایک خاص مدت گزرنے کے بعد وہ مقاصد ثانوی اہمیت اختیار کر جاتے ہیں، اور ان کے پیروکاروں کے لیے یہ جماعتیں بذاتہ اعلیٰ و ارفع مقاصد کا نعب البدل بن جاتی ہیں۔ سو، اہل جماعت کے لیے بھی اب ان کی بقا ہی شاید ان کی پہلی ترجیح ہے۔ ایسے میں پھر زیادہ غوروفکر کرنے کے بجاے احتجاجی سیاست ہی رہ جاتی ہے کہ اس طرح کی ایکٹویٹی میں اہل جماعت کو بطور کمیونٹی اپنی بقا کچھ نہ کچھ محفوظ نظر آتی ہے۔ لیکن، شاعر نے کہا تھا ؎

حافظاؔ ! گر معنے داری، بیار

ورنہ دعوی نیست غیرازقیل وقال

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پارلیمنٹ میں جماعت اسلامی حافظ نعیم جماعت کی جماعت کا جماعت کے جماعت کو کے بعد وہ بھی اور ان کے لیے اور اس اپنے ا

پڑھیں:

بھارت کا فالس فلیگ آپریشن ایکسپوز ہوگیا، پاکستان کشمیریوں کا مقدمہ لڑے : حافظ نعیم الرحمان

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ بھارت کا فالس فلیگ آپریشن ایکسپوز ہوگیا، بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ ختم نہیں کرسکتا،پاکستان کشمیریوں کا مقدمہ عالمی سطح پر لڑے۔

جماعت اسلامی کی کال پر غزہ کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ملک بھر میں آج شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جماعت اسلامی کی اپیل کی جانے والی ہڑتال کی اپیل کے نتیجے میں کراچی تا پشاور تمام چھوٹے بڑے کاروباری مراکز بند اور سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر رہی، جبکہ ملک بھر کے مختلف شہروں میں احتجاج بھی ریکارڈ کروایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کی اصولی مخالفت پر قائداعظم کی مہر بھی ثبت ہے، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان

جماعت اسلامی کی کال پر لاہور میں انارکلی اور ملحقہ مارکیٹیں بھی بند ہیں، شاہ عالم مارکیٹ، برانڈرتھ روڈ، ہال روڈ اور ملحقہ مارکیٹیں بھی بند رہیں گی، ریڈی میڈ گارمنٹس، سولر مارکیٹ بھی بند ہے جبکہ شہر کی مرکزی غلہ منڈی بھی مکمل طور پر بند ہے۔

ادھر پشاور میں قصہ خوانی، خیبر بازار، پیپل منڈی، صدر، ہشت نگری اور دیگر اہم کاروباری علاقوں میں دکانیں بند ہیں جبکہ تنظیم تاجران کے مطابق رامپورہ گیٹ میں احتجاجی کیمپ بھی لگایا گیا۔

راولپنڈی کے راجہ بازار، مری روڈ، صدر اور کمرشل مارکیٹ میں دکانیں بند ہیں جبکہ سڑکوں پر ٹریفک بھی نہ ہونے کے برابر ہے، ڈرگٹ اینڈ کیمسٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے بھی ہڑتال کی جا رہی ہے جس کے باعث بیشتر بازاروں میں میڈیکل سٹورز بھی بند ہیں۔

پاکپتن اور گردونواح میں تمام چھوٹے بڑے کاروباری مراکز بند ہیں۔

ملکہ کوہسار مری میں اہل غزہ سے یکجہتی کے لیے مکمل شٹر ڈاون ہڑتال ہے، جماعت اسلامی کی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال پر تمام کاروباری مراکز بند ہیں، مال روڈ، کینٹ مارکیٹ، بھوربن مارکیٹ، علیوٹ اور پھگواڑی سمیت تمام بازار اور سڑکوں پر ٹرانسپورٹ بھی کم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 26 اپریل کو پورے ملک میں ہڑتال ہوگی، حافظ نعیم الرحمان کا اعلان

کوئٹہ میں بھی فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے ہڑتال کی جا رہی ہے، شہر میں تمام اہم بازار اور کاروباری مراکز بند ہیں، مستونگ، قلات، خضدار اور پشین سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بھی شٹرڈاؤن ہڑتال کی جا رہی ہے۔

دوسری جانب کراچی میں کورنگی كراسنگ روڈ پر سیاسی جماعت کی جانب سے فلسطین کے حق میں دھرنا دیا جا رہا ہے جس کے باعث روڈ ٹریفک کے لیے بند ہے، مظاہرین کی جانب سے سڑکوں کو ٹائر جلا کر ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔

ٹریفک پولیس کا کہنا ہے کہ دھرنے کے باعث روڈ بند ہونے کی وجہ سے ٹریفک کو گودام چورنگی اور ناصر جمپ سے چمڑا چورنگی بھیجا جا رہا ہے۔

جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امیرجماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ آج ملک بھر میں اسرائیلی  مظالم کیخلاف  مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال ہے، اسرائیل غزہ میں قتل عام کررہاہ، فلسطینیوں کے قتل عام سے غزہ میں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔

حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ حماس کی بجائے اسرائیل کی حمایت  کی جا رہی ہے جو  افسوسناک ہے، آج کی کامیاب ہڑتال نے ثابت کیا ہے کہ وہ غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ ہے، پاکستانی قوم فلسطینی  عوام اور کشمیریوں  کے ساتھ  ہے ۔

امیرجماعت اسلامی نے کہا کہ بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے اور پانی بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے، بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر کھبی بھی عمل نہیں کیا، لاکھوں کشمیری شہید ہوچکے ہیں مگر ان کا کوئی ساتھ دینے  کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم سے ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں؟ حافظ نعیم الرحمان نے تفصیلات بتا دیں

انہوں نے کہا کہ بھارت کا فالس فلیگ آپریشن ایکسپوز ہو گیا، سندھ طاس معاہدہ بھارت یکطرفہ طورپر ختم نہیں کرسکتا کیوں کہ سندھ طاس معاہدے میں عالمی بینک ضامن ہے، پاکستان عالمی سطح پر کشمیریوں کامقدمہ لڑے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اسرائیل بھارت جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان غزہ ہڑتال

متعلقہ مضامین

  • صہیونیوں کا خواب گریٹر اسرائیل، مسلمان خاموش رہے تو کوئی محفوظ نہیں رہےگا، حافظ نعیم الرحمان
  • بھارت کا فالس فلیگ آپریشن ایکسپوز ہوگیا، پاکستان کشمیریوں کا مقدمہ لڑے : حافظ نعیم الرحمان
  • ہڑتال نے ثابت کر دیا پاکستانی قوم فلسطینیوں کے ساتھ ہے: حافظ نعیم الرحمٰن
  • مظلوم فلسطینیوں سے یکجہتی کیلئے ملک گیر ہڑتال، کراچی میں تجارتی مراکز بند
  • جماعت اسلامی کی غزہ کے مظلوم فلسطینیوں سے یکجہتی کیلئے ملک گیر ہڑتال
  • جماعتِ اسلامی کی اپیل پر پنجاب میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال
  • اہل غزہ سے اظہار یکجہتی: جماعت اسلامی کی اپیل پر ملک بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال
  • قیصر شریف کو جماعت اسلامی لاہور کا ڈپٹی سیکرٹری جنرل مقرر کر دیا گیا
  • جماعت اسلامی کاغزہ سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی مظالم کیخلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان