اسرائیل ریاست نہیں، فلسطین پر قابض صیہونی گروہ ہے، مولانا فضل الرحمان
اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT
لاہور میں دفاع فلسطین و دفاع پاکستان کانفرنس سے خطاب میں مقررین نے کہا کہ ہمارے پاس ٹینکس، فوجیں، میزائل اور ایٹم بم ہیں، یہ سب اگر ہم غزہ کے مسلمانوں کے دفاع کیلئے نہیں چلا سکتے، تو پھر اِن کا فائدہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا سپہ سالاروں سے پوچھتے ہیں کہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کیلئے کب نکلیں گے؟ اسلام ٹائمز۔ مجلس اتحاد اُمت کے زیراہتمام لاہور کے تاریخی مینار پاکستان گراونڈ میں منعقدہ دفاع فلسطین و دفاع پاکستان کانفرنس میں مختلف مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ مولانا علی محمد ابوتراب، علامہ راشد محمود سومرو، مولانا امجد علی خان، مولانا الیاس چنیوٹی، مولانا مفتی شاہد عبید، علامہ عبدالحق ثانی، علامہ ابتسام الہٰی ظہیر، سید محمد کفیل شاہ بخاری، علامہ ضیاء اللہ شاہ بخاری، شجاع الدین شیخ، قاری محمد یعقوب شیخ و دیگر شریک ہوئے۔ ہزاروں کی تعداد میں کارکنان ہاتھوں میں پارٹی پرچم اُٹھائے مینار پاکستان گروانڈ میں جمع ہوئے۔ مولانا فضل الرحمن، حافظ نعیم الرحمٰن، مفتی منیب الرحمن، مولانا احمد لدھیانوی، مولانا حنیف جالندھری و دیگر نے حکومت سے جہاد کیلئے راستہ دینے کا مطالبہ کیا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ پہلگام واقعہ کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کیا حیثیت ہے؟ اسلام اور مسلمان دشمن مودی، اسرائیل کیساتھ کھڑا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسرائیل جنگی مجرم ہے، فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، اسرائیل کوئی ریاست نہیں، فلسطین پر ناجائز قابض ایک صیہونی گروہ ہے، جس نے مسلمانوں کی زمین پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، فلسطین کی حمایت سے پاکستان کے وجود کا آغاز ہوا، ہم اس حمایت سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ مولانا فضل الرحمن نے جہاں فلسطینی مسلمانوں پر مظالم پر امریکہ، اسرائیل اور انڈیا کی بھرپور الفاظ میں مذمت کی، وہیں پاکستان میں اسرائیل کے ایجنڈے پر کام کرنیوالوں کو بھی جھنجھوڑا۔ انہوں نے مدارس کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہم نے بہت صبر کرلیا۔ مدارس کے حوالے سے پہلے سے بنائے گئے قانون پر ہی عملدرآمد کیا جائے، ورنہ ہم میدان جنگ میں ہوں گے۔
انہوں نے کہا ہم کشمیر، اسلام کی بقاء اور مدارس کے دفاع کی جنگ لڑیں گے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن بھی حکومتی پالیسیوں پر خوب تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ٹینکس، فوجیں، میزائل اور ایٹم بم ہیں، یہ سب اگر ہم غزہ کے مسلمانوں کے دفاع کیلئے نہیں چلا سکتے، تو پھر اِن کا فائدہ کیا ہے؟۔ انہوں نے کہا میں سپہ سالاروں سے پوچھتا ہوں کہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کیلئے کب نکلیں گے؟ اگر آپ بزدلی کی چادر اوڑھ کر سوتے رہو گے، تو اسرائیل صرف یہاں ہی نہیں رُکے گا، بلکہ اس کا گریٹر اسرائیل منصوبہ پورے عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ آج اگر ہم نے غزہ کے مسلمانوں کی حمایت کی تو دراصل یہ امت مسلمہ کی حمایت ہوگی۔ یہ عرب ملکوں کی حمایت ہوگی، ہمیں آج بطور امت سوچنا ہوگا، ہمیں عربی و عجمی کے حصار سے نکلنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آج استعماری قوتیں متحد ہو چکی ہیں، لیکن مسلمان منتشر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایٹمی طاقت اور اسلام کا قلعہ ہے، امت کے دفاع کیلئے پاکستان کا لیڈنگ رول ہے، جس کا پاکستان کو احساس کرنا ہوگا۔ مفتی منیب الرحمن، مولانا احمد لدھیانوی، مولانا عبدالغفور حیدری اور لیاقت بلوچ نے بھی غزہ کے مسلمانوں کا بھرپور انداز میں مقدمہ لڑا۔ انہوں نے بھارت کی جانب سے پہلگام واقعے کو مدعا بنا کر بھارت کی جانب سے پاکستان پر الزام لگانے کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ علماء نے شرکاء سے جہاد کیلئے رضامند ہونے کیلئے استفسار کیا گیا، تو کارکنان کی جانب سے اسرائیل مردہ باد کے شدید نعرے لگا کر جہاد کیلئے آمادگی دکھائی گئی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: غزہ کے مسلمانوں انہوں نے کہا جہاد کیلئے مولانا فضل کے دفاع کی نے کہا کہ کی حمایت
پڑھیں:
اسرائیل کے فلسطین پر حملے نسل کشی کی واضح مثال ہیں، طیب اردوان
انقرہ میں جرمن چانسلر فریڈرک مرز کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں ترک صدر نے اسرائیل کیجانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی، قحط اور غزہ میں حملوں سے لاعلمی پر جرمنی کو تنقید کا نشانہ بنایا، اردوان نے کہا کہ کیا جرمنی غزہ میں اسرائیلی نسل کشی نہیں دیکھ رہا۔؟ اسلام ٹائمز۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے جاری حملے نسل کشی کی واضح مثال ہیں۔ طیب اردوان نے انقرہ میں جرمن چانسلر فریڈرک مرز کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی، قحط اور غزہ میں حملوں سے لاعلمی پر جرمنی کو تنقید کا نشانہ بنایا، اردوان نے کہا کہ کیا جرمنی غزہ میں اسرائیلی نسل کشی نہیں دیکھ رہا۔؟ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، مگر حماس کے پاس کچھ بھی نہیں، جنگ بندی کی خلاف ورزیاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ ترکیہ، جرمنی اور دیگر ممالک کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے، غزہ میں قتل اور قحط روکنے کیلئے فوری سیاسی اور انسانی اقدامات ضروری ہیں۔