امریکا اور چین کی تجارتی جنگ: عالمی اقتصادی نظام میں ایک بڑا تغیر
اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT
امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ محض محصولات کے نفاذ اور جوابی کارروائیوں کا ایک سلسلہ نہیں ہے؛ یہ دو عالمی طاقتوں کے درمیان ایک وسیع تر اور گہری جدوجہد کی عکاسی کرتا ہے، جس کے مرکز میں اقتصادی بالادستی، مستقبل کی تکنیکی برتری، اور بین الاقوامی سطح پر اثر و رسوخ کی رسہ کشی ہے۔
اس تنازعے نے، جو کئی برسوں سے جاری ہے، نہ صرف ان دو اہم ممالک کے باہمی تجارتی تعلقات کو بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ عالمی سطح پر سپلائی چینز، بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں، اور کثیرالجہتی تجارتی نظام کے بنیادی ڈھانچے کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس کے اثرات دور رس اور کثیرالجہتی ہیں، جو عالمی معیشت کے ہر پہلو پر اپنی چھاپ چھوڑ رہے ہیں۔
اس تجارتی محاذ آرائی کا ایک اہم اور دلچسپ پہلو عالمی لگژری برانڈز کی بڑھتی ہوئی جانچ پڑتال ہے۔ حالیہ انکشافات نے ان پیچیدہ طریقوں پر روشنی ڈالی ہے جن کے تحت کئی معروف اور مہنگے لگژری برانڈز اپنی بیشتر مصنوعات چین میں تیار کرواتے ہیں، جہاں پیداواری لاگت نسبتاً کم ہوتی ہے، اور پھر انہیں مغربی ممالک کے بازاروں میں نمایاں طور پر زیادہ قیمتوں پر فروخت کرتے ہیں۔
اس صورتحال نے ان برانڈز کی طرف سے وصول کی جانے والی بھاری قیمتوں اور ان کی اصل پیداواری لاگت کے درمیان ایک واضح تضاد کو بے نقاب کیا ہے۔ اس سے نہ صرف صارفین کے درمیان ان برانڈز کی قدر و قیمت اور ان کی مبینہ اصلیت کے بارے میں سنگین سوالات پیدا ہوئے ہیں بلکہ عالمی تجارت میں شفافیت، صداقت، اور صارفین کے حقوق کے وسیع تر مسائل کو بھی اجاگر کیا ہے۔
تجارتی جنگ کا ایک اور اہم نتیجہ امریکی ڈالر کی بین الاقوامی قدر پر پڑنے والا دباؤ ہے۔ محصولات کے نفاذ اور جوابی کارروائیوں کے ایک طویل سلسلے کے بعد، بہت سے ممالک اب امریکی ڈالر پر اپنے روایتی انحصار کو کم کرنے کےلیے سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ اس مقصد کےلیے، وہ اپنی مقامی کرنسیوں میں دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے اور ڈالر کے متبادل بین الاقوامی ادائیگی کے نظاموں کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ رجحان عالمی مالیاتی نظام میں ایک بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں کئی دہائیوں سے قائم امریکی ڈالر کا غلبہ ممکنہ طور پر کم ہوسکتا ہے اور علاقائی یا دیگر متبادل کرنسیوں کا کردار بتدریج بڑھ سکتا ہے۔ اس تبدیلی کے عالمی تجارت، بین الاقوامی سرمایہ کاری کے بہاؤ، اور مختلف ممالک کی مالیاتی پالیسیوں پر دور رس اور گہرے اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔
مزید برآں، یہ تجارتی جنگ صنعتی دور اور موجودہ معلوماتی دور کے درمیان ایک واضح فرق کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ امریکا نے اپنی معیشت کو ایک ایسے ڈھانچے میں تبدیل کرلیا ہے جو بنیادی طور پر معلومات کی تخلیق، ڈیٹا کے تجزیے، اور مختلف خدمات کی فراہمی پر مبنی ہے۔ اس نئے اقتصادی تناظر میں، مینوفیکچرنگ کے شعبے کو اس کی سابقہ اہمیت دلانے پر زور دینا ایک پرانی اور شاید غیر موثر حکمت عملی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
بہت سے اقتصادی ماہرین کا استدلال ہے کہ امریکا کےلیے ایک غالب مینوفیکچرنگ طاقت کے طور پر اپنی تاریخی حیثیت پر واپس جانا اب انتہائی مشکل ہوگا، خاص طور پر ملک میں نسبتاً کم بے روزگاری کی شرح اور گھریلو پیداوار کی نسبتاً زیادہ لاگت کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ اس کے برعکس، چین نے گزشتہ چند دہائیوں میں اپنی مینوفیکچرنگ کی صلاحیتوں کو نمایاں طور پر مضبوط کیا ہے اور اب جدید ٹیکنالوجیز کے میدان میں ایک اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔
چین کو حاصل ایک اہم اسٹرٹیجک برتری نایاب زمینی معدنیات کے وسیع ذخائر پر اس کا مضبوط کنٹرول ہے۔ یہ خاص معدنیات بہت سی جدید صنعتوں کے لیے ناگزیر ہیں، جن میں جدید الیکٹرانکس کی تیاری، قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی ترقی، اور جدید دفاعی ٹیکنالوجیز کی تیاری شامل ہے۔ تجارتی جنگ کی صورت میں، چین ان نایاب زمینی معدنیات کی اپنی سپلائی کو ایک طاقتور اقتصادی ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے، جس سے ان اہم صنعتوں میں امریکا اور دیگر صنعتی ممالک کی ترقی اور مسابقتی صلاحیت بری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔
مجموعی طور پر، امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ ایک ایسے اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہے جو بلاشبہ عالمی اقتصادی نظام کو ایک نئی اور مختلف شکل دے گی۔ امریکی ڈالر پر عالمی انحصار میں بتدریج کمی، عالمی سپلائی چینز میں رونما ہونے والی بنیادی تبدیلیاں، اور تکنیکی بالادستی کے لیے بڑھتی ہوئی مسابقت وہ چند اہم اور واضح رجحانات ہیں جو اس جاری تنازعے کے نتیجے میں ابھر رہے ہیں۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ ہم ایک نئے عالمی اقتصادی نظام کی طرف بڑھ رہے ہوں، جس میں طاقت کے نئے مراکز ابھر رہے ہیں اور بین الاقوامی تجارت اور مالیات کے موجودہ قواعد و ضوابط کو نئے سرے سے طے کیا جا رہا ہے۔
یہ پیچیدہ صورتحال عالمی برادری کے لیے ایک اجتماعی چیلنج پیش کرتی ہے کہ وہ ان اہم تبدیلیوں کو پوری طرح سے سمجھے اور ایک زیادہ مستحکم، منصفانہ، اور خوشحال عالمی معیشت کو یقینی بنانے کے لیے باہمی طور پر مناسب اور دانشمندانہ اقدامات کرے۔ امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ ایک انتہائی پیچیدہ اور کثیر الجہتی مسئلہ ہے، اور اس کے عالمی اقتصادی نظام پر دور رس اور گہرے اثرات مرتب ہونے کا قوی امکان ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عالمی اقتصادی نظام امریکا اور چین بین الاقوامی امریکی ڈالر تجارتی جنگ کے درمیان رہے ہیں کیا ہے کے لیے
پڑھیں:
چین اور امریکا کے درمیان لندن میں تجارتی معاہدہ طے پا گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن؛ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ لندن میں اعلیٰ حکام کے درمیان دو دن کی بات چیت کے بعد چین کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ صدر شی جن پنگ اورامریکی صدرکی طرف سے حتمی منظوری کے بعد امریکہ کو درکار نایاب دھاتیں مل سکیں گی جبکہ چینی طلبا امریکی کالجز میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گے۔
ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر ٹرمپ نے لکھا کہ ’چین کے ساتھ ہمارا معاہدہ طے پا گیا ہے جس کی حتمی منظوری انھوں نے اور چین کے صدر نے دینی ہے۔
میگنٹس اور دیگر کوئی بھی ضروری نایاب دھات، چین کی طرف سے فراہم کی جائے گی اور اسی طرح ہم چین کو وہ فراہم کریں گے جس پر اتفاق کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں کا رخ کرنے والے چینی طلبا اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے تعلقات بہترین ہیں اور اس وقت ’امریکہ کو کل 55 فیصد ٹیرف حاصل ہو رہا ہے جبکہ چین کو 10 فیصد مل رہا ہے۔
لندن میں ہونے والی میٹنگ کے ایجنڈے میں نایاب زمینی معدنیات کی چینی برآمدات جو کہ جدید ٹیکنالوجی کے لیے انتہائی اہم ہیں ان مذاکرات کا سرفہرست نکتہ تھا۔
مذاکرات کے بعد امریکی وزیر تجارت ہاورڈ لوٹنک نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں نایاب زمینی معدنیات اور میگنٹس پر پابندیوں کو حل کیا جانا چاہیے۔
ہاورڈ لوٹنک نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم جنیوا میں جن امور پر اتفاق رائے کر چکے ہیں اب اس کے نافذ کے ایک فریم ورک پر ہم پہنچ گئے ہیں۔‘
انھوں نےکہا کہ ایک بار جب دونوں ممالک کے صدور اس کی منظوری دے دیں گے تو ہم اس پر عمل درآمد شروع کر دیں گے۔
مذاکرات کا نیا دور گذشتہ ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ اور چین کے رہنما شی جن پنگ کے درمیان فون کال کے بعد ہوا جسے امریکی صدر نے ’بہت اچھی بات چیت‘ قرار دیا تھا۔
چین کے نائب وزیر تجارت لی چینگ گانگ نے کہا کہ ’دونوں ممالک نے اصولی طور پر 5 جون کو فون کال کے دوران دونوں سربراہان مملکت کے درمیان طے پانے والے اتفاق رائے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک فریم ورک تک پہنچ گئے تھے اور پھر جنیوا میں ہونے والے اجلاس میں اس پر اتفاق رائے ہوا۔