امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ محض محصولات کے نفاذ اور جوابی کارروائیوں کا ایک سلسلہ نہیں ہے؛ یہ دو عالمی طاقتوں کے درمیان ایک وسیع تر اور گہری جدوجہد کی عکاسی کرتا ہے، جس کے مرکز میں اقتصادی بالادستی، مستقبل کی تکنیکی برتری، اور بین الاقوامی سطح پر اثر و رسوخ کی رسہ کشی ہے۔

اس تنازعے نے، جو کئی برسوں سے جاری ہے، نہ صرف ان دو اہم ممالک کے باہمی تجارتی تعلقات کو بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ عالمی سطح پر سپلائی چینز، بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں، اور کثیرالجہتی تجارتی نظام کے بنیادی ڈھانچے کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس کے اثرات دور رس اور کثیرالجہتی ہیں، جو عالمی معیشت کے ہر پہلو پر اپنی چھاپ چھوڑ رہے ہیں۔

اس تجارتی محاذ آرائی کا ایک اہم اور دلچسپ پہلو عالمی لگژری برانڈز کی بڑھتی ہوئی جانچ پڑتال ہے۔ حالیہ انکشافات نے ان پیچیدہ طریقوں پر روشنی ڈالی ہے جن کے تحت کئی معروف اور مہنگے لگژری برانڈز اپنی بیشتر مصنوعات چین میں تیار کرواتے ہیں، جہاں پیداواری لاگت نسبتاً کم ہوتی ہے، اور پھر انہیں مغربی ممالک کے بازاروں میں نمایاں طور پر زیادہ قیمتوں پر فروخت کرتے ہیں۔

اس صورتحال نے ان برانڈز کی طرف سے وصول کی جانے والی بھاری قیمتوں اور ان کی اصل پیداواری لاگت کے درمیان ایک واضح تضاد کو بے نقاب کیا ہے۔ اس سے نہ صرف صارفین کے درمیان ان برانڈز کی قدر و قیمت اور ان کی مبینہ اصلیت کے بارے میں سنگین سوالات پیدا ہوئے ہیں بلکہ عالمی تجارت میں شفافیت، صداقت، اور صارفین کے حقوق کے وسیع تر مسائل کو بھی اجاگر کیا ہے۔

تجارتی جنگ کا ایک اور اہم نتیجہ امریکی ڈالر کی بین الاقوامی قدر پر پڑنے والا دباؤ ہے۔ محصولات کے نفاذ اور جوابی کارروائیوں کے ایک طویل سلسلے کے بعد، بہت سے ممالک اب امریکی ڈالر پر اپنے روایتی انحصار کو کم کرنے کےلیے سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ اس مقصد کےلیے، وہ اپنی مقامی کرنسیوں میں دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے اور ڈالر کے متبادل بین الاقوامی ادائیگی کے نظاموں کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ رجحان عالمی مالیاتی نظام میں ایک بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں کئی دہائیوں سے قائم امریکی ڈالر کا غلبہ ممکنہ طور پر کم ہوسکتا ہے اور علاقائی یا دیگر متبادل کرنسیوں کا کردار بتدریج بڑھ سکتا ہے۔ اس تبدیلی کے عالمی تجارت، بین الاقوامی سرمایہ کاری کے بہاؤ، اور مختلف ممالک کی مالیاتی پالیسیوں پر دور رس اور گہرے اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔

مزید برآں، یہ تجارتی جنگ صنعتی دور اور موجودہ معلوماتی دور کے درمیان ایک واضح فرق کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ امریکا نے اپنی معیشت کو ایک ایسے ڈھانچے میں تبدیل کرلیا ہے جو بنیادی طور پر معلومات کی تخلیق، ڈیٹا کے تجزیے، اور مختلف خدمات کی فراہمی پر مبنی ہے۔ اس نئے اقتصادی تناظر میں، مینوفیکچرنگ کے شعبے کو اس کی سابقہ اہمیت دلانے پر زور دینا ایک پرانی اور شاید غیر موثر حکمت عملی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

بہت سے اقتصادی ماہرین کا استدلال ہے کہ امریکا کےلیے ایک غالب مینوفیکچرنگ طاقت کے طور پر اپنی تاریخی حیثیت پر واپس جانا اب انتہائی مشکل ہوگا، خاص طور پر ملک میں نسبتاً کم بے روزگاری کی شرح اور گھریلو پیداوار کی نسبتاً زیادہ لاگت کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ اس کے برعکس، چین نے گزشتہ چند دہائیوں میں اپنی مینوفیکچرنگ کی صلاحیتوں کو نمایاں طور پر مضبوط کیا ہے اور اب جدید ٹیکنالوجیز کے میدان میں ایک اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔

چین کو حاصل ایک اہم اسٹرٹیجک برتری نایاب زمینی معدنیات کے وسیع ذخائر پر اس کا مضبوط کنٹرول ہے۔ یہ خاص معدنیات بہت سی جدید صنعتوں کے لیے ناگزیر ہیں، جن میں جدید الیکٹرانکس کی تیاری، قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی ترقی، اور جدید دفاعی ٹیکنالوجیز کی تیاری شامل ہے۔ تجارتی جنگ کی صورت میں، چین ان نایاب زمینی معدنیات کی اپنی سپلائی کو ایک طاقتور اقتصادی ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے، جس سے ان اہم صنعتوں میں امریکا اور دیگر صنعتی ممالک کی ترقی اور مسابقتی صلاحیت بری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔

مجموعی طور پر، امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ ایک ایسے اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہے جو بلاشبہ عالمی اقتصادی نظام کو ایک نئی اور مختلف شکل دے گی۔ امریکی ڈالر پر عالمی انحصار میں بتدریج کمی، عالمی سپلائی چینز میں رونما ہونے والی بنیادی تبدیلیاں، اور تکنیکی بالادستی کے لیے بڑھتی ہوئی مسابقت وہ چند اہم اور واضح رجحانات ہیں جو اس جاری تنازعے کے نتیجے میں ابھر رہے ہیں۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ ہم ایک نئے عالمی اقتصادی نظام کی طرف بڑھ رہے ہوں، جس میں طاقت کے نئے مراکز ابھر رہے ہیں اور بین الاقوامی تجارت اور مالیات کے موجودہ قواعد و ضوابط کو نئے سرے سے طے کیا جا رہا ہے۔ 

یہ پیچیدہ صورتحال عالمی برادری کے لیے ایک اجتماعی چیلنج پیش کرتی ہے کہ وہ ان اہم تبدیلیوں کو پوری طرح سے سمجھے اور ایک زیادہ مستحکم، منصفانہ، اور خوشحال عالمی معیشت کو یقینی بنانے کے لیے باہمی طور پر مناسب اور دانشمندانہ اقدامات کرے۔ امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ ایک انتہائی پیچیدہ اور کثیر الجہتی مسئلہ ہے، اور اس کے عالمی اقتصادی نظام پر دور رس اور گہرے اثرات مرتب ہونے کا قوی امکان ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عالمی اقتصادی نظام امریکا اور چین بین الاقوامی امریکی ڈالر تجارتی جنگ کے درمیان رہے ہیں کیا ہے کے لیے

پڑھیں:

صیہونی ایجنڈا اور نیا عالمی نظام

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ز قلم:خدیجہ طیب

نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیلی افواج نے قطر میں حماس کے رہنماؤں کو اس لیے نشانہ بنایا کیونکہ وہاں انہیں “محفوظ پناہ گاہ” ملی ہوئی تھی۔

انہوں نے خبردار کیا:“میں قطر اور تمام اُن ممالک سے کہتا ہوں جو دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں: یا تو انہیں ملک بدر کریں یا انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا، تو ہم کریں گے۔”

یہ نیتن یاہو کے الفاظ ہیں: انصاف کا مطالبہ، اور سب سے حیران کن بات یہ کہ، خود اپنے زمانے کے سب سے بڑے دہشت گرد کی جانب سے کیا جا رہا ہے!

اسرائیل کا قطر میں دوحہ پر حالیہ حملہ دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے تھا کہ وہ اب صرف فلسطین کی سرزمین تک محدود نہیں رہا بلکہ جہاں چاہے اور جسے چاہے نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ کوئی عام کارروائی نہیں بلکہ ایک منظم پیغام تھا کہ جو بھی ہمارے راستے میں کھڑا ہوگا، اس کی سزا موت سے کم نہیں ہوگی۔ یہ حملہ اُس وقت کیا گیا جب حماس کی سیاسی قیادت دوحہ میں مذاکراتی اجلاس میں شریک تھی۔

قطر پر اسرائیلی حملہ کوئی عام واقعہ نہیں۔ یہ محض ایک ملک کے خلاف جارحیت نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے خلاف ایک کھلا اعلانِ جنگ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ حملہ اُس خطے میں ہوا جہاں امریکا کی مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی فوجی بیس العدید ایئر بیس(Al Udeid Air Base) موجود ہے۔ ٹرمپ کا انجان بننا اور اسرائیل کا آگے بڑھنا، یہ سب مل کر ایک بڑی تصویر دکھاتے ہیں کہ دنیا کو ایک نئے عالمی نظام(New World Order)کیطرف دھکیلا جا رہا ہے؟ جس میں طاقت صرف چند ہاتھوں میں ہو گی اور باقی دنیا غلامی کی زنجیروں میں جکڑی رہے گی۔

دنیا کے بیشتر طاقتور یہودی طبقات کا تعلق اشکنازی یہودیوں سے ہے۔ یہ وہ گروہ ہے جو زیادہ تر یورپ (خصوصاً مشرقی یورپ اور روس) سے تعلق رکھتا ہے اور موجودہ اسرائیلی ریاست میں سیاسی و فوجی غلبہ رکھتا ہے۔ صیہونی تحریک (Zionism) کی بنیاد رکھنے اور اسے عملی ریاست میں ڈھالنے کا سہرا بھی زیادہ تر انہی کے سر ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ اشکنازی یہودی دراصل چاہتے کیا ہیں؟

سب سے پہلے ان کا مقصد ہے طاقت اور بالادستی۔ یہودی تاریخ میں صدیوں کی غلامی، بیدخلی اور جلاوطنی کے بعد اشکنازی یہودیوں نے یہ سوچ پختہ کر لی کہ انہیں ایسا نظام قائم کرنا ہے جس میں وہ دوسروں کے محتاج نہ رہیں بلکہ خود دوسروں کو اپنا محکوم بنائیں۔ اسی سوچ نے ’’ریاستِ اسرائیل‘‘ کو جنم دیا، لیکن یہ ان کا آخری ہدف نہیں۔

دوسرا مقصد ہے گریٹر اسرائیل کا قیام۔ اشکنازی یہودی اس نظریے پر یقین رکھتے ہیں کہ دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا علاقہ ان کا ’’وعدہ شدہ ملک‘‘ (promised land) ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطین محض پہلا قدم ہے، اصل خواب اس میں فلسطین کے ساتھ ساتھ اردن، شام، لبنان، عراق، مصر کے حصے، حتیٰ کہ سعودی عرب کے شمالی علاقے بھی شامل ہیں۔ اسی توسیع پسندی نے پورے خطے کو غیر محفوظ کر دیا ہے۔ یعنی فلسطین کے بعد بھی یہ رکے گا نہیں۔ یہ جنگ ہماری دہلیز تک آ کر ہی رہےگی۔

آج اگر قطر نشانہ ہے، تو کل کوئی اور ہوگا۔ کیا عرب دنیا یہ سمجھتی ہے کہ خاموش رہ کر وہ بچ جائے گی؟ تاریخ گواہ ہے کہ ظالم کی بھوک کبھی نہیں ختم ہوتی۔ اگر آج ہم نے آواز نہ اٹھائی، اگر آج ہم نے صفیں نہ باندھیں، تو آنے والے کل میں یہی آگ ہمیں بھی لپیٹ لے گی۔

امت کی سب سے بڑی کمزوری اتحاد کی کمی ہے۔ ایک طرف 2 ارب مسلمان ہیں، دوسری طرف 15 ملین اسرائیلی۔ لیکن طاقت کس کے پاس ہے؟ جس کے پاس اتحاد اور نظم ہے۔ قرآن ہمیں پہلے ہی خبردار کر چکا ہے: “اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور تفرقہ مت ڈالو” (آل عمران 103)۔  لیکن ہم نے رسی چھوڑ دی اور تفرقے کو گلے لگا لیا۔ یہی ہماری شکست کی اصل جڑ ہے۔

نیا عالمی نظام جسے صیہونی اشکنازی اور ان کے عالمی اتحادی ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے نام سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے:ایک ایسی دنیا جہاں طاقت اور دولت چند ہاتھوں میں ہو۔ فیصلے چند خفیہ ایجنڈے رکھنے والے گروہ کریں۔ قوموں کی آزادی محض دکھاوا ہو۔جس کے پاس زیادہ طاقت ہوگی، وہی بغیر کسی معاہدے کو توڑے، ظلم کرنے کا اختیار رکھے گا۔اور انسانوں کو ایک ایسے نظام میں جکڑ دیا جائے جہاں مزاحمت کا کوئی راستہ نہ بچے۔

اب نہیں تو کب؟

سوال یہی ہے — اب نہیں تو کب؟

اگر آج بھی امت نے غفلت برتی، اگر آج بھی حکمران ذاتی مفاد کے اسیر رہے، اگر عوام نے اپنی آواز بلند نہ کی، تو کل ہمارے پاس پچھتانے کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ آج قطر ہے، کل شاید پاکستان، ایران، یا کوئی اور عرب ملک۔

یہ وقت فیصلہ کن ہے۔ یا تو ہم بیدار ہوں، یا پھر تاریخ ہمیں مٹتے ہوئے دیکھے۔ا

متعلقہ مضامین

  • صیہونی ایجنڈا اور نیا عالمی نظام
  • ٹرمپ کا دورۂ لندن؛ برطانیہ اور امریکا کا کاروباری شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
  • چین اور امریکہ کے اقتصادی اور تجارتی مذاکرات کے نتائج مشکل سے حاصل ہوئے ہیں، چینی میڈیا
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات کا پہلا مرحلہ ناکام
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارت کے حوالے سے اہم مذاکرات ناکام
  • امریکا کی  ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں ، افراد اور کمپنیوں کی فہرست جاری
  • پاکستان اور ایران کا باہمی تجارتی حجم 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کے عزم کا اعادہ
  • ٹرمپ مودی بھائی بھائی
  • یورپ میں امریکا چین تجارتی ملاقات بہت کامیاب رہی، ڈونلڈ ٹرمپ