Express News:
2025-11-03@14:53:08 GMT

27فروری 2019

اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT

یہ 14 فروری 2019کی بات ہے‘ مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں جموں سرینگر نیشنل ہائی وے پر لیتھاپورہ کے قریب انڈین فوج کے قافلے پر خود کش حملہ ہوا‘ اس حملے میں سی آئی بی ایف کے 40 جوان ہلاک ہو گئے‘ یہ حملہ عادل احمد ڈار نام کے ایک کشمیری نوجوان نے کیا تھا‘ بھارت نے فوری طور پر پاکستان پر الزام لگا دیا اور وہی صورت حال پیدا ہو گئی جو اس وقت سرحدوں پر دکھائی دے رہی ہے۔

 بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا یہ حملہ مولانا مسعود اظہرکے جیش محمد نے کیا‘ پاکستان نے فوری طور پر بھارت کو آزادانہ تحقیقات کی پیش کش کر دی لیکن نہ صرف یہ آفر مسترد کر دی گئی بلکہ فوری جواب کی دھمکی بھی دے دی گئی‘ وزیراعظم عمران خان نے اس کے بعد تقریر کی اور نریندر مودی کو وارننگ دی بھارت نے اگر کسی قسم کا مس ایڈونچر کیا تو ہم اس کا مکمل جواب دیں گے‘ پاکستان کا پیغام صاف تھا مگر بھارت اسے انڈرسٹینڈ نہ کر سکا لہٰذا اس نے پلوامہ واقعے کے 12 دن بعد 25 اور 26 فروری کی درمیانی رات بالاکوٹ پر سرجیکل اسٹرائیک کر دی‘ بھارت کے دوطیارے صبح ساڑھے تین بجے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے‘ سوا دو منٹ میں بالاکوٹ کے جنگلوں میں میزائل پھینکے اور واپس چلے گئے۔

 ان کا ٹارگٹ بالاکوٹ کا ایک مدرسہ تھا لیکن یہ خوف کی وجہ سے اسے نشانہ نہیں بنا سکے اور جنگل میں دو کوے مار کر واپس چلے گئے‘ ائیر چیف مارشل مجاہد انور خان اس وقت فضائیہ کے سربراہ تھے‘ انھوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو جگا کر اطلاع دی‘ آرمی چیف نے ائیرچیف سے پوچھا ’’کوئی نقصان تو نہیں ہوا؟‘‘ ائیر چیف نے جواب دیا ’’ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوا‘‘ آرمی چیف نے انھیں کہا ’’ہم صبح وزیراعظم کے ساتھ میٹنگ کے بعد ریسپانس کا فیصلہ کریں گے‘‘ ائیرچیف نے بعدازاں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات کو بھی جگا کر اطلاع کر دی۔

 چیئرمین نے وزیراعظم کو جگا کر بتایا اور وزیراعظم کا جواب بھی یہی تھا ’’ہم صبح میٹنگ میں فیصلہ کریں گے‘‘ بہرحال 26 فروری کی صبح میٹنگ ہوئی‘ اس میں دو آپشن ڈسکس ہوئے‘ بھارت کے ساتھ مکمل جنگ شروع کر دی جائے‘جنرل زبیر محمود حیات اس آپشن کے حامی تھے‘ دوسراآپشن بھارت میں داخل ہو کر بالاکوٹ کا جواب دے دیا جائے‘آرمی چیف اورا ئیرفورس چیف اس آپشن کے وکیل تھے‘ بہرحال طویل بحث کے بعد وزیراعظم نے دوسرے آپشن کی منظوری دے دی یوں 26 فروری کو آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ (Swift Retart) کی منصوبہ بندی شروع ہو گئی۔

پاکستان نے سوئفٹ ریٹارٹ کے ذریعے رات کی بجائے دن کے وقت اور ایک کے بدلے بھارت کے چھ مقامات کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا‘ اس زمانے کے ڈی جی ملٹری آپریشن اور ڈائریکٹر ملٹری آپریشن نے جی ایچ کیو میں یہ پلان بنایا (یہ دونوں آفیسرز اس وقت بھی فوج کا حصہ ہیں اور لیفٹیننٹ جنرل کی حیثیت سے اہم پوزیشنز پر تعینات ہیں) بہرحال قصہ مزید مختصر پاکستان ائیرفورس کے طیارے 27 فروری 2019 کی صبح جموں اور کشمیر کے دو سیکڑز پونچھ اور نوشہرہ کے راستے بھارتی ائیرفورس کے چھ اہم بیسز پر پہنچ گئے‘ یہ مقامات نادیا‘ لامہ جہانگیر‘ کری (راجوڑی سیکٹر) بھمبر کا علاقہ ہمی پورتھے۔

 ان لوکیشنز میں کرشنا گھاٹی میں بھارتی فوج کا 25 واں ڈویژن ہیڈکوارٹر بھی شامل تھا‘ ہیڈکوارٹر میں انڈین آرمی کا بڑا بارود خانہ اور سپلائی ڈپو تھا‘ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت اس وقت اس ہیڈکوارٹر میں تھا‘ اس نے 26 فروری کو سرجیکل آپریشن کی نگرانی اسی ہیڈکوارٹر سے کی تھی‘ یہ مقام پونچھ سے 24کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور کرشنا گھاٹی کہلاتا ہے‘ پاکستانی طیارے ٹارگٹس پر پہنچے‘ مقامات کو لاک کیا‘ ان کی تصویریں لیں اور پھر ان ٹارگٹس سے پانچ سو میٹر دور عمارتوں اور آبادی سے فاصلے پر میزائل داغ دیے‘ بھارت کے 6 مقامات پر خوف ناک دھماکے ہوئے‘ دھماکے کی آواز سن کر بھارتی آرمی چیف فوری طور پر بریگیڈ ہیڈکوارٹر سے دلی روانہ ہو گیا‘ پاکستانی طیارے اس کے بعد واپس مڑ گئے۔

 میں نے اس زمانے میں آپریشن کرنے والے کرداروں سے پوچھاتھا‘ ہم جب بھارت کے اہم ٹارگٹس کو ہٹ کر سکتے تھے تو پھر ہم نے پانچ سو میٹر دور حملہ کیوں کیا؟ اس کا جواب تھا بھارت نے بھی صرف ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی‘ ہم نے 27فروری کو انھیں پیغام دیا آپ لوگ ایک خلاف ورزی کریں گے‘ ہم آپ کو چھ کی شکل میں جواب دیں گے‘ دوسرا بالاکوٹ میں ان کا حملہ آبادی سے دور جنگل میں تھا‘ ہم ان کے اہم فوجی اور فضائی ٹارگٹس تک پہنچے‘ ان کی تصویریں لیں‘ انھیں یہ تصویریں بھجوائیں اور انھیں پھر یہ بتایا ہم آپ کے اہم ترین ٹارگٹس کو نشانہ بنا سکتے تھے لیکن ہم سردست پانچ سو میٹر دور صرف اپنی نشانی چھوڑ کر جا رہے ہیں‘ہمیں اگر اگلی مرتبہ آنا پڑا تو ہم رعایت نہیں کریں گے‘ تیسرا تم نے رات کو حملہ کیا تھا‘ ہم دن کے وقت حملہ کر رہے ہیں۔

 بہرحال قصہ مزید مختصر پاکستانی طیاروں کی واپسی پر بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے ان کا پیچھا شروع کر دیا‘ بھارتی طیارے جوں ہی پاکستانی حدود میں داخل ہوئے‘ پاکستانی ائیرفورس نے ان کے دو طیاروں کو نشانہ بنادیا‘ ایک طیارے کا ملبہ بھارتی سائیڈ پر گرا جب کہ دوسرا طیارہ مگ 21 پاکستانی حدود میں گرگیا‘ اس کا پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن تھا‘ بھارتی طیارے پر چارعدد سو (Su) 30 میزائل لوڈ تھے مگر ابھی نندن انھیں استعمال نہیں کر سکا‘ یہ میزائل آج بھی پاکستان کے پاس موجود ہیں‘ دوسرا مگ 21طیارہ انڈین حدود میں گرا جب کہ بھارت کا ایک ہیلی کاپٹر اپنے ہی میزائل کا نشانہ بن گیا اور اس میں سوار چھ افسر اور جوان ہلاک ہو گئے۔

یہ پاکستان کی بڑی کام یابی تھی‘ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اس کام یابی کے فوراً بعد امریکی سینٹ کام کے جنرل جوزف وٹل (Votel) کا پہلا فون آگیا‘ اس کا کہنا تھا ’’جنرل آپ لوگوں نے بڑے میچور طریقے سے بدلہ لیا‘ ہماری خواہش ہے یہ معاملہ اب اس سے آگے نہ بڑھے‘‘ آرمی چیف نے جواب دیا‘ یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔

 آپ کو بھارت کو روکنا ہو گا‘ یہ اگر مزید آگے بڑھے گا تو ہم نہیں رک سکیں گے‘ اسے بتایا گیا ہم ایک میزائل کا جواب دو میزائلوں سے دیں گے‘ اس شام پارلیمنٹ کی سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس تھا‘ آرمی چیف پارلیمنٹ کی طرف روانہ ہونے لگے تو انھیں فون پر بتایا گیا بھارت رات نو بجے پاکستان پر براہموس میزائلوں سے حملہ کرے گا‘ براہموس میڈیم رینج کروز میزائل ہے‘ بھارت نے یہ روس کی مدد سے بنایا تھا چناں چہ اس کا نام بھارتی دریا براہما پتر اور روسی دریا موسکا (Moska) کو ملا کر براہموس رکھا گیا‘ آرمی چیف نے فون پر ایس پی ڈی کے چیف کو آرڈر دیا آپ فوری طور پر انڈیا کے پانچ ائیربیس میزائلوں سے لاک کر دیں۔

 ان ائیر بیسز میں ہلواڑہ ائیربیس‘ پٹھان کوٹ ائیربیس‘ آدم پور ائیربیس‘ اونتی پورہ ائیربیس اور بھوج کا ارنالیا ائیربیس شامل تھا‘بھوج راجستھان میں رن آف کچھ کا علاقہ ہے‘ اس میں انڈین ائیرفورس کا بڑا ائیربیس موجود ہے‘ شام ساڑھے آٹھ بجے پارلیمنٹ کی سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا‘ یہ وہی اجلاس تھا جس میں پوری اپوزیشن میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو سمیت موجود تھی لیکن وزیراعظم عمران خان اس میں شریک نہیں ہوئے ‘ آرمی چیف نے کمیٹی کو بریفنگ دی اور فیصلہ ہوا پاکستان اپنے دفاع پر کوئی کمپرومائز نہیں کرے گا‘ اجلاس کے دوران سارا وقت آرمی چیف گھڑی دیکھتے رہے۔

 ان کا خیال تھا بھارت نے اگر براہموس میزائل داغ دیے تو پھر پاکستان کے پاس جواب کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہو گا اور یوں دو نیو کلیئر پاورز میں جنگ چھڑ جائے گی‘ پارلیمنٹ کی میٹنگ کے بعد امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا جنرل باجوہ کو فون آ گیا‘ اس نے اپنی کتاب میں لکھا‘ میں اس وقت ہنوئی میں تھا‘ مجھے بھارتی وزیر خارجہ سشمارسوراج نے فون کیا اور بتایا پاکستان نیوکلیئر جنگ کی تیاری کر رہا ہے‘ میں نے اس سے چند منٹ مانگے۔

 میرے ساتھ نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن تھا‘ میں نے اس کی مدد سے فوراً کام شروع کر دیا‘ میں نے پاکستانی آرمی چیف جنرل باجوہ کو فون کیا‘ اس نے مجھے بتایا ہم نہیں بلکہ بھارت ہم پر نیوکلیئر حملے کی تیاری کر رہا ہے‘ ہم بس اس کے جواب کی تیاری کر رہے ہیں‘ میں نے فوری طور پر دلی اور اسلام آباد میں اپنے لوگوں کو ایکٹو کیا اور انھوں نے رات بھر کی مشقت کے بعد دونوں ملکوں کو یقین دلایا تم میں سے کوئی نیوکلیئر جنگ کی تیاری نہیں کر رہا تم اپنے اپنے آرڈرز واپس لے لو یوں ایٹمی جنگ ٹل گئی ورنہ اس رات بہت بڑا حادثہ ہو سکتا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ کی مداخلت کے بعد پوری دنیا سے پاکستان کے دوستوں کے فون آنے لگے‘ سعودی عرب بھی مذاکرات میں شامل ہوگیا اور یو اے ای بھی‘ برطانوی ہائی کمشنر تھامس ڈریونے جی ایچ کیو میں جنرل باجوہ سے ملاقات کی‘ ان سب کا مطالبہ تھا آپ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو رہا کر دیں‘نریندر مودی کی بہت بے عزتی ہو چکی ہے‘ پائلٹ کی رہائی کے مذاکرات 27 فروری کی پوری رات چلتے رہے یہاں تک کہ پاکستان راضی ہو گیا‘ جنرل باجوہ نے 28 فروری کی صبح وزیراعظم عمران خان کو فون کیا اور انھیں بتایا ہم نے بالاکوٹ کا بدلہ لے لیا ہے‘ ہمارا ہاتھ اس وقت اوپر ہے‘ ہم بھارتی پائلٹ کو چھوڑ کر جنگی صورت حال سے نکل سکتے ہیں لہٰذا ہمیں اپنے دوستوں کا مطالبہ مان لینا چاہیے۔

 عمران خان نے اتفاق کیا تاہم ان کا کہنا تھا ’’میں یہ اعلان شام چار بجے پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران کروں گا‘‘ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے عمران خان نے اعلان کے لیے چار بجے کا وقت کیوں طے کیاتھا؟ اس کی وجہ یہ تھی بھارت نے شام پانچ بجے پریس کانفرنس طے کر رکھی تھی‘ اس میں اس نے پاکستان پر مزید حملوں کا اعلان کرنا تھا‘پاکستان نے اپنے دوستوں کے ذریعے چار بجے کا پیغام دے دیا جس کے بعد ابھی نندن کو آرمی چیف کا یہ پیغام دیا گیا‘ تمہارے لیے دو خبریں ہیں۔

 ایک اچھی اور دوسری بری‘ تم پہلے بری خبر سننا چاہو گے یا اچھی‘ ابھی نندن نے پہلے اچھی خبر سننے کی خواہش ظاہر کی‘ اسے بتایا گیا تمہیں رہا کیا جا رہا ہے‘ اس نے اطمینان کا لمبا سانس لیا‘ اس کے بعد اسے یہ بری خبر سنائی گئی کہ ہم تمہاری بیوی کے ساتھ ابھی تمہاری بات کرانے لگے ہیں‘ یہ سن کر اس کی ہنسی نکل گئی‘ بعدازاں سعودی عرب کے ذریعے اس کی بیوی سے بات کرائی گئی‘فون سنتے وقت ابھی نندن کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور آنکھوں میں آنسو تھے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: آرمی چیف جنرل پارلیمنٹ کی فوری طور پر آرمی چیف نے جنرل باجوہ ابھی نندن فروری کی بھارت نے کی تیاری بھارت کے باجوہ کو نہیں ہو نہیں کر کریں گے کا جواب کے بعد

پڑھیں:

بھارت میں گرفتار ہونے والے سارے جاسوس پاکستانی چاکلیٹ کیوں کھاتے ہیں؟

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ اور وزیرِ مملکت برائے داخلہ امور طلال چوہدری نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ کس طرح غلطی سے بھارتی سمندری حدود میں داخل ہونے والے اعجاز ملاح کو بھارتی خفیہ ادارے نے پکڑ کر پاکستان میں جاسوسی کے اہداف دیے۔

وفاقی وزرا کے مطابق اعجاز ملاح کو پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیز نے گرفتار کرکے جب اس سے پوچھ گچھ کی تو انکشاف ہوا کہ وہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی وردیاں اپنے بھارتی ہینڈلر کے سپرد کرنے والا تھا اور اِس کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی، جن میں سب سے اہم زونگ کمپنی کے سم کارڈ تھے۔

یہ بھی پڑھیں: آپریشن سندور میں رسوائی کے بعد بھارت کی ایک اور سازش ناکام، جاسوسی کرنے والا ملاح گرفتار، اعتراف جرم کرلیا

وفاقی وزیر کے مطابق یہ اشیا حوالے کرنے کا مقصد پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کو بھی ملوث کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے کرنسی نوٹ، پاکستان کے سیگریٹ اور پاکستانی کی ماچسیں بھی حوالے کی جانی تھیں۔

اس ساری واردات کا مقصد بظاہر اِتنا خوفناک معلوم نہیں ہوتا لیکن دیکھا جائے تو ماضی میں بھارت نے مختلف واقعات میں پاکستان کی دراندازی ثابت کرنے کے لیے ایسی ہی چیزوں کا سہارا لیا۔

بھارتی حکومت کسی کو پاکستانی ایجنٹ ثابت کرنے کے لیے کبھی تو یہ کہتی ہے کہ فلاں سے پاکستانی کرنسی برآمد ہوئی، فلاں سے پاکستانی چاکلیٹ ریپر، پاکستانی بسکٹ یا پاکستانی سیگریٹ برآمد ہوئے۔ یہ بھارتی حکومت کی پرانی حکمتِ عملی ہے اور خاص کر ایک ایسے ماحول اور معاشرے میں جہاں فوجی کارروائیوں پر سوال اُٹھانا ملک دشمنی سمجھا جاتا ہو، ایسی چیزوں کو قبولیتِ عام ملتی ہے۔

بھارت نے پاکستانی مصنوعات کی بنیاد پر کب کب پاکستانی پر دراندازی کے الزامات لگائے؟

بھارت یہ طریقہ واردات 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بھی استعمال کر چکا ہے جب یہ دعوے کیے گئے کہ پاکستانی اہلکار بھارتی علاقے میں گھس کر جاسوسی کر رہے تھے اور ثبوت کے طور پر اکثر پاکستانی سیگریٹس، مصالحے، بسکٹ اور چائے کے پیکٹس دکھائے جاتے تھے۔

1999 کی کارگل جنگ میں بھارتی میڈیا نے متعدد جگہوں پر دعویٰ کیاکہ پاکستانی فوجی بھارتی علاقوں میں گھسے ہوئے تھے۔ ثبوت کے طور پر وہی پاکستانی بسکٹ، چائے کے ریپر اور اردو میں لکھے ہوئے ادویات کے لیبل پیش کیے گئے۔ بھارتی دفاعی ماہرین نے بعد میں تسلیم بھی کیا کہ یہ غیر سنجیدہ اور کمزور شواہد تھے۔

2008 میں بھارتی فوج کی پریس کانفرنسوں میں کئی بار پاکستانی بسکٹ، کڑک چائے کے ریپر یا سگریٹ پیک دکھائے گئے اور ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ بھارت میں دراندازی کے لیے لوگ پاکستان سے آئے تھے۔

2013 میں دہلی پولیس نے ایک نوجوان کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا جس کے پاس سے پاکستانی 100 روپے کا نوٹ اور راولپنڈی کی بنی ہوئی چاکلیٹ برآمد ہوئی۔ بعد میں پتا چلا گرفتار شدہ نوجوان ذہنی مریض تھا۔

2016 اڑی حملہ میں بھارتی حکومت نے دعوٰی کیاکہ مارے گئے حملہ آوروں کی پاس سے پاکستانی چاکلیٹس اور بسکٹ برآمد ہوئے ہیں، اس بات کو خود بھارتی میڈیا نے بعد میں مزاحیہ الزام قرار دیا۔

2017 میں بھارت نے دعوٰی کیاکہ پاکستان کا جاسوسی نیٹ ورک پکڑا گیا ہے، اور ثبوت کے طور پر پان پراڈکٹس اور چاکلیٹ ریپر پیش کیے گئے۔

2019 پلوامہ واقعے میں پاکستانی دراندازی شامل کرنے لیے پاکستانی بسکٹ اور چائے کے خالی پیکٹ ثبوت کے طور پر پیش کیے گئے۔

2021 میں بھارتی حکومت نے ایک مقامی چراوہے کو اِس بنیاد پر جاسوس قرار دے دیا کہ اس کے پاس پاکستانی بسکٹ اور اوڑھنے والی چادر تھی، بعد میں وہ شخص بھارتی شہری ہی نکلا۔

21 اگست 2022 کو بھارتی فوج نے الزام لگایا کہ اس نے جموں و کشمیر کے راجوری ضلع میں لائن آف کنٹرول پر دراندازی کی کوشش ناکام بنائی ہے اور مبینہ طور پر گرفتار پاکستانی عسکریت پسند سے پاکستانی کرنسی برآمد ہوئی ہے۔ بھارتی فوج نے اسے پاکستان کی حمایت سے دراندازی کا ثبوت قرار دیا۔

22 اپریل 2025 کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشتگردوں نے سیاحوں پر حملہ کیا، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ بھارتی فورسز نے 28 جولائی 2025 کو آپریشن مہادیو میں 3 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔

بھارتی حکومت کے مطابق ان دہشتگردوں سے مبینہ طور پر پاکستان کی بنی ہوئی چاکلیٹس کی ریپنگز برآمد ہوئیں جو کراچی میں کینڈی لینڈ اور چاکو میکس کی بنی ہوئی تھیں۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ یہ ثبوت پاکستان سے دراندازی کا اشارہ دیتے ہیں، اور دہشتگرد پاکستانی شہری تھے۔

جاسوسوں کی گرفتاری کی اب کئی خبریں سننے کو ملیں گی، بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون

دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کا نیٹ ورک اِس وقت بہت زیادہ وسیع ہوگیا ہے۔ یہ نیٹ ورک آج گلف ممالک، کینیڈا، امریکا اور یورپ تک پھیلا ہوا ہے۔

انہوں نے کہاکہ کلبھوشن یادیو ایک ثبوت ہے کہ کس طرح سے اس نے اپنی شناخت چھپا کر ایران میں کاروبار بنایا اور پاکستان میں جاسوسی کے لیے آتا جاتا رہا۔

بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے بتایا کہ غریب مچھیروں کو پکڑ کر اُن کو بلیک میل کرکے اُن سے پاکستان کی جاسوسی کروانا بھارتی خفیہ اداروں کا پرانا وطیرہ ہے، اور موٹر لانچز ہی کے ذریعے سے زیادہ تر پیسوں کی غیر قانونی ترسیل، جیسا کہ حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستانی خفیہ ادارے بہت متحرک ہیں، اب اِس طرح کی بہت سی خبریں دیکھنے سننے کو ملیں گی۔ اس سے قبل کراچی، لاہور اور اِسلام آباد سے اِس طرح کے کئی جاسوس پکڑے جا چُکے ہیں۔

بھارت جامع مسائل کے حل کی طرف قدم نہیں اٹھاتا، ایئر مارشل (ر) اعجاز ملک

ایئر مارشل (ر) اعجاز ملک نے گزشتہ ماہ میڈیا کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان اور ہمسایہ بھارت کے تعلقات کبھی بہتر نہیں ہو سکتے کیونکہ بھارت پاکستان کے ساتھ جامع مسائل حل کرنے کی طرف قدم نہیں اٹھاتا۔

انہوں نے کہاکہ ان تنازعات میں کشمیر، انڈس واٹر ٹریٹی اور بھارتی ریاستی سرپرستی میں سرحد پار دہشتگردی شامل ہیں۔ ہماری مسلح افواج ہمیشہ قومی خودمختاری اور پاکستان کی سالمیت کا دفاع کرتی ہیں اور ہر چیلنج کے سامنے کھڑی ہے۔

بھارت نے ’را‘ کی فنڈنگ بڑھا کر دائرہ کار وسیع کردیا، دھیرج پرمیشا

برطانوی یونیورسٹی آف ہِل میں کریمنالوجی کے پروفیسر بھارتی نژاد دھیرج پرمیشا نے بھارتی اخبار کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور مشیر قومی سلامتی اجیت دوول نے بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کو فنڈنگ بڑھا کر اُس کے دائرہ کار میں اِضافہ کر دیا ہے جو اِس سے پہلے کانگریس کے دور میں نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان بھارت کشیدگی: ہندوستان کو کیا کیا نقصانات اٹھانے پڑ سکتے ہیں؟

’بھارت کے پاس اِس طرح سے وسیع نیٹ ورک 1980 کی دہائی میں تھا۔ خفیہ نیٹ ورک کی وسعت کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی کے اہداف بڑھ گئے ہیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews بھارتی جاسوسی پاک بھارت جنگ پاکستان بھارت تعلقات خفیہ ادارے متحرک گرفتاریاں معرکہ حق وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • ایسے شواہد موجود ہیں کہ بھارت اس بار سمندر کے راستے سے کوئی کارروائی کرسکتا ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • کراچی پر حملے کی خبر جھوٹی تھی، جعلی خبریں ہمیں بھی حقیقت لگنے لگیں، بھارتی آرمی چیف کا بیان
  • بھارتی خفیہ ایجنسی کیلئے جاسوسی کے الزام میں گرفتار مچھیرے کے اہم انکشافات
  • تاجکستان سے بھارتی فوج کی بے دخلی، آینی ایئربیس کا قبضہ کھونے پر بھارت میں ہنگامہ کیوں؟
  • بھارت میں گرفتار ہونے والے سارے جاسوس پاکستانی چاکلیٹ کیوں کھاتے ہیں؟
  • امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقیقت یا فسانہ
  • ’را‘ ایجنٹ کی گرفتاری: بھارت کی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم ناکام
  • دو ہزار سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد، بھارتی حکومت کو سانپ سونگھ گیا
  • بھارت نے اعجاز ملاح کو کونسا ٹاسک دے کر پاکستان بھیجا؟ وزیر اطلاعات کا اہم بیان
  • خطے میں کسی نے بدمعاشی ثابت کی تو پاکستان بھرپور جواب دے گا: ملک احمد خان