بالی ووڈ اداکار کی لاش برآمد، خاندان نے قتل کا شبہ ظاہر کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
مشہور ویب سیریز ’فیملی مین 3‘ سے مشہور ہونے والے بالی ووڈ کے اُبھرتے ہوئے اداکار روہت بسفور کی لاش برآمد ہوئی ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق روہت کی لاش آسام کے گربھانگا کے جنگلات میں ایک آبشار کے قریب ملی ہے جہاں وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ سیر کیلئے گئے تھے۔ روہت نے حال ہی میں مقبول ویب سیریز فیملی مین 3 میں اپنی شاندار اداکاری سے توجہ حاصل کی تھی۔
روہت کچھ عرصہ قبل گوہاٹی سے ممبئی منتقل ہوئے تھے تاکہ اداکاری کے میدان میں اپنی شناخت قائم کر سکیں۔ حادثے کے بعد جب انہیں نزدیکی اسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹرز نے انہیں مردہ قرار دے دیا۔ ان کی اچانک موت نے ان کے مداحوں اور فلمی حلقوں کو شدید صدمے میں مبتلا کر دیا ہے۔
View this post on InstagramA post shared by Viral Bhayani (@viralbhayani)
بھارتی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق، روہت کے اہل خانہ نے ان کی موت کو حادثہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ انہیں قتل کیا گیا ہے۔ اہل خانہ نے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ حقائق سامنے آ سکیں۔ پولیس نے واقعے کی ابتدائی تفتیش شروع کر دی ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سرینگر کے پہاڑی علاقے میں بھارتی فوج کا گجر قبائلیوں پر وحشیانہ تشدد
متاثرین میں سے ایک لیاقت نے جس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے، بتایا کہ اسے گھسیٹ کر کیمپ پر لے جایا گیا جہاں 40 سے زائد فوجیوں کے گھیرے میں اس سے پوچھ گچھ کی گئی۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز کی طرف سے معصوم کشمیریوں پر تشدد، مار پیٹ اور اجتماعی سزا کے بڑھتے ہوئے واقعات کے دوران سرینگر کے ایک پہاڑی علاقے میں بھارتی فوجیوں نے خانہ بدوش گجر قبائلیوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ ذرائع کے مطابق راجوری سے تعلق رکھنے والے محمد لیاقت، محمد اعظم، شوکت احمد اور عبدالقادر کو 50راشٹریہ رائفلز کے اہلکاروں نے سرینگر کے قریب پہاڑی علاقے ڈھگون میں ایک نئے قائم کردہ فوجی کیمپ میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ واقعہ ایک اعلیٰ فوجی افسر کی سربراہی میں پیش آیا اور تمام گجروں کو علاقے سے بے دخل کرنے کی دھمکیاں دیں۔ ”دی وائر” سے فون پر بات کرنے والے تین متاثرہ افراد نے بتایا کہ انہیں دو گروپوں میں تقسیم کر دیا گیا اور لاٹھیوں سے جانوروں کی طرح مارا پیٹا گیا۔ متاثرین کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج کے دو سپاہیوں نے ہمیں بازئوں سے پکڑ رکھا تھا جبکہ افسر بے رحمی سے پیٹ رہا تھا۔
متاثرین میں سے ایک لیاقت نے جس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے، بتایا کہ اسے گھسیٹ کر کیمپ پر لے جایا گیا جہاں 40 سے زائد فوجیوں کے گھیرے میں اس سے پوچھ گچھ کی گئی۔ میں نے ان سے کہا کہ میرا عسکریت پسندوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ تم پاکستان جائو۔ مار پیٹ کا نشانہ بننے والے محمد یوسف نے بتایا کہ اس نے فوجی اہلکار سے درخواست کی کہ لیاقت کو چھوڑ دو کیونکہ اگلے ہفتے اس کا آپریشن ہونے والا ہے لیکن افسر نے ان کی ایک نہ سنی اور اسے پیٹتا رہا۔ لیاقت نے بتایا کہ اب میری دوسری ٹانگ بھی ٹوٹ گئی ہے۔میں کھڑا ہو کر باتھ روم بھی نہیں جا سکتا۔ انہیں مجھے اس آزمائش میں ڈالنے کے بجائے گولی مار دینی چاہیے تھی۔
بدھل راجوری سے ایک قبائلی رہنما اور نیشنل کانفرنس کے رکن اسمبلی جاوید چودھری نے اس حملے کو انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور بھارتی فوجی افسران کے خلاف فوری ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ معصوم لوگوں کے خلاف اس طرح کے مظالم بند ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر قصور واروں کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو ہم بڑے پیمانے پر احتجاج کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ قبائلی گجر روایتی طور پر مویشیوں کو چرانے کے لئے ہر سال جموں خطے سے وادی کشمیر کا رخ کرتے ہیں۔ متاثرین نے بتایا کہ ہم نے انہیں فوجی کیمپ بنانے میں بھی مدد کی۔ محمد یوسف نے بتایا کہ ہم نے انہیں چائے پلائی اور ان کے کیمپ کے لیے لکڑیاں لے کر گئے۔ اب وہ ہمارے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کر رہے ہیں۔ بھارتی فوجیوں کی جانب سے گجر اور بکروال برادریوں کو نشانہ بنانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ یہ پرتشدد کارروائیاں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جاری جبر کی ایک مثال ہے جس سے مقامی آبادی میں خوف پھیل گیا ہے۔
دسمبر 2023ء میں پونچھ میں تین گجر افراد کو تشدد کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جبکہ کئی دیگر کو معذور کر دیا گیا۔ رواں سال نومبر میں کشتواڑ میں چار شہریوں کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی جانب سے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی اور علاقے کے فوجی محاصرے کے بعد سے اس طرح کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ جموں میں مقیم سیاسی تجزیہ کار ظفر چودھری نے کہا کہ گجروں میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے، انہیں لگتا ہے کہ انہیں خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے یا اس طرح نظرانداز کیا جا رہا ہے جیسے ان کی زندگیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دریں اثناء سرینگر میں پولیس کا کہنا ہے کہ وہ الزامات کی تصدیق کے لیے متاثرین تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم بھارتی فوج کے ترجمان نے میڈیا کے سوالات کا جواب دینے سے انکار کیا۔