چین اور روس کے درمیان باہمی اعتماد میں تبدیلی نہیں آئی، چینی وزیر خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
ریوڈی جنیرو :چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے ریو ڈی جنیرو میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے ملاقات کی۔منگل کے روز وانگ ای نے کہا کہ حال ہی میں بین الاقوامی صورتحال میں بہت سی نئی تبدیلیاں آئی ہیں، لیکن چین اور روس کے درمیان باہمی اعتماد اور حمایت میں تبدیلی نہیں آئی ۔
انہوں نے کہا کہ برکس کے بانی ارکان کی حیثیت سے چین اور روس کو برکس فریم ورک میں ہم آہنگی اور تعاون کو مضبوط بنانا چاہئے، ترقی پذیر ممالک اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کے درمیان یکجہتی اور تعاون کو گہرا کرنا چاہئے اور برکس کے اثر و رسوخ کو مسلسل مضبوط کرنا چاہئے۔لاوروف نے کہا کہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے سامنے روس اور چین کے لئے قریبی رابطے برقرار رکھنا ضروری ہے۔انہوں نے یوکرین کے ساتھ بغیر پیشگی شرائط کے امن مذاکرات شروع کرنے پر روس کی آمادگی کا اعادہ کیا۔ وانگ ای نے امن مذاکرات کو فروغ دینے کے حوالے سے چین کے اصولی موقف کی وضاحت کی۔فریقین نے اقوام متحدہ، شنگھائی تعاون تنظیم اور جی 20 جیسے کثیر الجہتی فریم ورک کے تحت تعاون کو مضبوط بنانے پر اسٹریٹجک گفتگو کی اور ایران اور جزیرہ نما کوریا کے جوہری مسئلے پر تبادلہ خیال کیا۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
قطر پر حملہ؛ مسلم ملکوں کو بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے،اسحاق ڈار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے قطر پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم ملکوں کو بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
وزیراعظم، وزرا اور عسکری قیادت کی دوحا آمد کے پس منظر میں نائبِ وزیراعظم و وزیرِ خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے واضح اور مؤقف سے بھرپور پیغام دیا ہے کہ مسلم اُمّت کے سامنے اب محض اظہارِ غم و غصّہ کافی نہیں رہا۔ انہوں نے زور دیا کہ قطر پر یہ حملہ محض ایک ملک کی حدود کی خلاف ورزی نہیں، بلکہ ایک بین الاقوامی اصول، خودمختاری اور امن ثالثی کے عمل پر کھلا وار ہے۔
اسحاق ڈار نے اپنے انٹرویو میں واضح کیا کہ جب بڑے ممالک ثالثی اور امن مذاکرات میں حصہ لے رہے ہوتے ہیں تو ایسے حملے اس عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہیں اور مسلم امت کی حیثیت و وقار کے لیے خطرہ ہیں۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے صومالیہ اور الجزائر کے ساتھ مل کر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں فوری نوعیت کا اجلاس طلب کروایا اور جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کو بھی اس سلسلے میں متحرک کیا گیا، تاکہ عالمی فورمز پر اسرائیلی جارحیت کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔
انہوں نے کہا کہ محض قراردادیں اور بیانات کافی نہیں، اب ایک واضح، عملی لائحۂ عمل درکار ہے ۔ اقتصادی پابندیاں، قانونی چارہ جوئی، سفارتی محاذ پر یکسوئی اور اگر ضرورت پڑی تو علاقائی سیکورٹی کے مجموعی انتظامات تک کے آپشنز زیرِ غور لائے جائیں گے۔
اسحاق ڈار نے پاکستان کی دفاعی استعداد کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ہماری جوہری صلاحیت دفاعی ہے اور کبھی استعمال کا ارادہ نہیں رہا، مگر اگر کسی بھی طرح ہماری خودمختاری یا علاقائی امن کو خطرہ پہنچایا گیا تو ہم ہر ممکن قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ فوجی راستہ آخری انتخاب ہوگا، مگر اگر جارحیت رکنے کا نام نہ لیا تو عملی، مؤثر اور متحدہ جواب بھی لازم ہوگا۔
پاکستانی وزیرِ خارجہ نے نشاندہی کی کہ مسئلہ فلسطین صرف خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ دو ارب مسلمانوں کے سامنے اخلاقی اور سیاسی امتحان ہے۔ اگر مسلم ریاستیں اس مقام پر صرف تقاریر تک محدود رہیں گی تو عوام کی نظروں میں ان کی ساکھ مجروح ہوگی اور فلسطینیوں کی امیدیں پامال ہوں گی۔