ایران امریکہ مذاکرات کا معاہدے پر ختم ہونیکا امکان ہے، صیہونی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
غاصب صیہونی رژیم کے ایک اعلی اہلکار نے یروشلم پوسٹ کو بتایا ہے کہ تل ابیب، ایران و امریکہ کے ممکنہ معاہدے کی نوعیت کے واضح ہونیکا انتظار کر رہا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ اسکے اپنے مطالبات بھی پورے ہونگے یا نہیں! اسلام ٹائمز۔ انتہاء پسند امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ جاری مذاکرات کے بارے بارہا امید کے اظہار کے بعد اب غاصب صیہونی بھی ''گہری تشویش'' کا اظہار کرتے ہوئے اس معاہدے کو ''ممکن'' قرار دینے لگے ہیں۔ اس بارے غاصب صیہونی رژیم کے معروف اخبار یروشلم پوسٹ نے بھی آج ایک اعلی سطحی اسرائیلی اہلکار سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسرائیل کے اندر لگائے جانے والے اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن و تہران کے درمیان جاری مذاکرات ممکنہ طور پر کسی معاہدے پر ختم ہوں گے۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اعلی سطحی صیہونی اہلکار نے اسرائیلی اخبار کو بتایا کہ اسرائیل اس ممکنہ معاہدے کی نوعیت کے واضح ہونے کا منتظر ہے اور ابھی تک یہ بھی نہیں جانتا کہ اس (تل ابیب) کے اپنے مطالبات بھی پورے ہوں گے یا نہیں! یروشلم پوسٹ نے اس اہلکار سے نقل کرتے ہوئے مزید لکھا کہ ہم نہیں جانتے کہ کیا یہ معاہدہ یورینیم افزودگی کی سہولیات کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ضمانت دے گا یا یہ بھی گزشتہ معاہدے (JCPOA) کی طرح ہی ہو گا!!
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
یورینیم افزودگی روکیں گےنہ میزائل پروگرام پر مذاکرات کریں گے: ایران کا دوٹوک جواب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران : ایران نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ یورینیم کی افزودگی کو روکیں گے اور نہ ہی اپنے میزائل پروگرام پر کوئی مذاکرات کریں گے۔
ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیل نے کوئی نیا حملہ کیا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔
ایران انٹرنیشنل کے مطابق عباس عراقچی نے الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایران نے جون میں اسرائیل کے ساتھ ہونے والی جنگ کو مؤثر انداز میں سنبھالا اور اسے خطے میں پھیلنے سے روکا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کسی بھی نئی جارحیت کے لیے مکمل طور پر تیار ہے اور اگر لڑائی دوبارہ شروع ہوئی تو اسرائیل کو ایک اور شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عراقچی نے تصدیق کی کہ جنگ کے دوران ایرانی جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچا، تاہم یورینیم افزودگی کی ٹیکنالوجی محفوظ ہے اور جوہری مواد تاحال ان بمباری زدہ مراکز میں موجود ہے۔
ایرانی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ تہران مغربی دباؤ قبول نہیں کرے گا، البتہ وہ واشنگٹن کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے تاکہ اپنے جوہری پروگرام پر ایک منصفانہ معاہدہ طے کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ایران بین الاقوامی خدشات کا ازالہ کرنے کے لیے تیار ہے لیکن حملے کے بعد کسی قسم کی رعایت نہیں دے گا۔