مشہور ٹک ٹاکر کا شوہر کے ہاتھوں خوفناک انجام؛ گلا گھونٹ کر قتل کردیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
لاہور کے علاقے نواب ٹاؤن میں ایک دل دکھانے والا واقعہ پیش آیا ہے جہاں مقبول ٹک ٹاکر آیت مریم کو ان کے شوہر سعد نے گلا گھونٹ کر قتل کردیا۔
یہ المناک واقعہ گزشتہ دو روز قبل پیش آیا تھا، لیکن واردات کا پیر کو اس وقت انکشاف ہوا جب گھر سے تعفن کی بدبو آنے لگی۔
پولیس ریکارڈز کے مطابق آیت مریم کی یہ دوسری شادی تھی اور ان کا پہلے شوہر سے ایک بچہ بھی تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ قاتل شوہر سعد اور آیت مریم اکٹھے ٹک ٹاک ویڈیوز بھی بناتے تھے، جنہیں سعد کے ہی اکاؤنٹ سے پوسٹ کیا جاتا تھا۔
مقتولہ کی بہن نے پولیس کو بتایا کہ آیت مریم بار بار شکایت کرتی تھیں کہ ان کا شوہر انہیں مارنے پیٹنے اور قتل کی دھمکیاں دیتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ دھمکیاں آخرکار حقیقت بن گئیں۔
پولیس نے بتایا کہ جب وہ گھر پہنچی تو دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔ اندر جاکر انہیں آیت مریم کی سڑتی ہوئی لاش ملی۔ ملزم سعد کو گرفتار کرنے میں پولیس کو خاصی محنت کرنی پڑی، کیونکہ وہ فرار ہو گیا تھا اور اس کا فون بھی بند تھا۔ آخرکار، پولیس نے چھاپے مار کر اسے گرفتار کرلیا۔
ابتدائی تفتیش میں سعد نے قتل کا اعتراف کرلیا ہے۔ یہ کیس دفعہ 302 کے تحت درج کیا گیا ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آیت مریم
پڑھیں:
آبادی میں خوفناک اضافہ پاکستان کے سیاسی ایجنڈے سے غائب کیوں؟
جنوبی ایشیا میں بلند ترین شرح نموپاکستانی وزارتِ صحت کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ملک میں آبادی کی شرح نمو دو اعشاریہ چار فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں ہر ایک خاتون اوسطاً تین سے زائد بچوں کو جنم دے رہی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ صرف ایک چوتھائی خواتین ہی مانع حمل طریقوں سے فائدہ اٹھا پا رہی ہیں، جبکہ 17 فیصد خواتین ایسی بھی ہیں جو خاندانی منصوبہ بندی کی خواہش کے باوجود اس سہولت سے محروم ہیں۔
آبادی کو کنٹرول کرنے کا نظام مکمل ناکامیہ تشویش ماضی کی طرح اب صرف ماہرین تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا اعتراف سرکاری طور پر بھی سامنے آ رہا ہے۔ وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے حال ہی میں کہا تھا کہ ملک میں بے قابو حد تک آبادی کا بڑھنا قومی ترقی اور استحکام کے لیے سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے موجودہ فرسودہ نظام اور کمزور منصوبہ بندی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے میں ’’مکمل طور پر ناکام‘‘ ہو چکے ہیں۔
پاکستان کے لیے بہت زیادہ آبادی کا بوجھ کس حد تک قابل برداشت؟
عالمی یوم آبادی: پاکستان میں شرح آبادی’بڑا خطرہ‘
پبلک پالیسی کے ماہر عامر جہانگیر کہتے ہیں کہ آبادی میں تیزی سے اضافہ محض اعداد و شمار کا مسئلہ نہیں بلکہ اس کے ریاست کے تمام نظاموں پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں: ''اس کے منفی اثرات براہِ راست صحت، تعلیم، روزگار کی فراہمی اور خاص طور پر خواتین اور بچیوں کی زندگیوں پر بھی پڑ رہے ہیں۔
‘‘ آبادی بے قابو، اہداف بے اثرڈاکٹر صوفیہ یونس، ڈائریکٹر جنرل پاپولیشن وِنگ، کے مطابق وزارتِ صحت کی جانب سے خاندانی منصوبہ بندی کے 2025ء کے اہداف پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے ابھی تک قومی سطح کا کوئی سروے نہیں کیا گیا۔ انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ سال 2030ء تک آبادی میں اضافے کی شرح کو 1.1 فیصد تک محدود کرنا ایک مشکل ہدف ہو سکتا ہے۔
اسی طرح عامر جہانگیر کا کہنا تھا کہ جب صحت کا نظام پہلے ہی دباؤ کا شکار ہو اور صنفی پالیسی سازی کے لیے ٹھوس اور تازہ اعداد و شمار موجود نہ ہوں، تو ان اہداف تک پہنچنا ایک چیلنج سے کم نہیں۔
سیاسی ایجنڈے سے غائبسابق چیئرپرسن این سی ایس ڈبلیو نیلوفر بختیار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آبادی میں تیزی سے اضافے کا مسئلہ کبھی بھی حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں رہا۔
انہوں نے کہا کہ حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اس اہم مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں اور نہ ہی اپنے منشور میں شامل کرتی ہیں۔ ان کے مطابق، وسائل منتشر ہیں اور کوئی حکومت عملی اقدامات نہیں کر رہی۔ نیلوفر بختیار نے احتساب کے فقدان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برسوں سے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں، مگر کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں ہوئی: ''خواتین اور بچوں کو روزانہ مشکلات اور اموات کا سامنا ہوتا ہے، لیکن نہ کوئی ادارہ اور نہ ہی کوئی فرد ذمہ داری قبول کرتا ہے، سب کچھ صرف نوٹس لینے تک محدود ہے جبکہ عملی اقدامات کا شدید فقدان ہے۔‘‘ صورتحال انتہائی تشویشناکپاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی صورتحال تشویشناک ہے، جہاں ہر سال لاکھوں خواتین مجبوری میں اسقاط حمل کراتی ہیں، جبکہ مانع حمل سہولیات کی بھی صرف 65 فیصد طلب ہی پوری ہو رہی ہے۔ ماہر امراض نسواں، ڈاکٹر امِ حبیبہ کے مطابق، خاندانی منصوبہ بندی کے ناقص انتظامات اور خواتین کا محدود سماجی کردار پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی بلند شرح کے اہم اسباب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سہولیات کی کمی، مذہبی پابندیاں، اور اسقاط حمل سے متعلق منفی معاشرتی رویے خواتین کو غیر محفوظ طریقے اپنانے پر مجبور کرتے ہیں، جو ان کی صحت اور زندگی دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ مسئلہ صرف فنڈز تک محدودڈاکٹر رابعہ اسلم، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ جینڈر اسٹڈیز، قائداعظم یونیورسٹی کے مطابق، پاکستان میں پالیسی سازوں کے لیے آبادی کے مسئلے کی نشاندہی پہلے ہی کی جا چکی ہے، لیکن یہ معاملہ تاحال صرف علامتی بیانات تک محدود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ آگاہی کا نہیں بلکہ سیاسی عزم کی کمی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ زبانی دعووں سے ہٹ کر خواتین کی صحت، تعلیم اور انہیں بااختیار بنانے کو خاندانی منصوبہ بندی کا محور بنا کر مؤثر اصلاحات کی جائیں۔نیلوفر بختیار نے آبادی کے مسئلے پر ملکی اداروں کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ بعض تنظیمیں اسے صرف عالمی فنڈز کے حصول کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پاپولیشن کونسل کی مثال دی، جس کی برسوں سے موجودگی کے باوجود کوئی مؤثر کارکردگی سامنے نہیں آئی۔