مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں 22 اپریل کو  نامعلوم افراد نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 27 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

بھارتی میڈیا کی جانب سے حملے کے فوراً بعد ہی پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا مہم شروع کی گئی اور ہندوستانی میڈیا اور بالخصوص ’را‘ سے جڑے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے حملے کے فوری بعد پاکستان کے خلاف زہر اُگلنا شروع کر دیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ پاک بھارت کشیدگی بڑھنے لگی اور گزشتہ رات وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللّٰہ تارڑ نے کہا ہے کہ مستند انٹیلیجنس اطلاعات ہیں کہ بھارت آئندہ 24 سے 36 گھنٹوں میں پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے، بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔

حکومت اور اپوزیشن یک زبان

اس موقع پر حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتیں بھی یک زبان ہو گئی ہیں اور اپوزیشن رہنماؤں نے اعلان کیا ہے کہ وہ افواج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور ضرورت پڑنے پر بھرپور جواب دیں گے۔

 قوم کو متحد ہونا ہوگا

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے کہا ہے کہ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بیرونی دشمن کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے سب سے پہلے قوم کو متحد ہونا ہوگا، اب وقت آگیا ہے کہ ان تمام کارروائیوں کو روکا جائے جن سے قوم تقسیم ہورہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کے خلاف ہم متحد ہیں، 2019 کے پلوامہ واقعہ کے بعد ایک بار پھر مودی سرکار پہلگام واقعہ کا الزام پاکستان پر عائد کررہی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ہم ایک پاکستانی قوم کے طور پر مضبوطی سے کھڑے ہیں اور جنگ کو ہوا دینے کے مودی کے عزائم کی مذمت کرتے ہیں۔ امن ہماری خواہش ہے لیکن اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔

بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس کسی بھی بھارتی مہم جوئی کا بھرپور جواب دینے کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں، جیسا کہ 2019 میں ہم نے بھرپور جواب دیا تھا۔

مودی کچھ کارڈز کھیلنا چاہتا ہے

 جمعیت علما اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اپنی سیاست میں کچھ مشکلات کا سامنا ہے اسی لیے وہ کچھ کارڈز کھیلنا چاہتا ہے، لیکن پہلگام واقعے کا الزام پاکستان پر لگانے کو دنیا نے تسلیم نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے اگر کوئی جارحیت کی تو قوم کا ہر فرد سپاہی بن کر لڑےگا۔ہم بھارت کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ہم سر جھکا کر بیٹھ جائیں گے، اگر انڈیا نے کوئی جارحیت کی تو قوم کا ہر فرد سپاہی کا کردار ادا کرےگا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ  ہم حکومت کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں گے اور سڑکوں پر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا مقدمہ اٹھائیں گے اور بھارت کے اس اقدام کا منہ توڑ جواب دیں گے۔

انہوں نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی سمیت دیگر اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے اقدامات نہ صرف غیر قانونی ہیں بلکہ انسانیت اور انسانی اقدار کے خلاف بھی ہے۔

پی ٹی آئی اپنی قوم اور پاک افواج کے ساتھ کھڑی ہے

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی اپنی قوم اور پاک افواج کے ساتھ متحد اور یک زبان ہو کر کھڑی ہے، مجھے امید ہے کہ حکومت پاکستان کے دفاع کے لیے بھارتی اقدامات کا ہر فورم پہ بھرپور جواب دے گی۔

دارالعلوم دیوبند میں ناشتہ

جمیعت علمائے اسلام (ف) سندھ کے رہنما مولانا راشد محمود سومرو نے کہا ہے کہ ضرورت پڑی تو عوام افواج پاکستان کے ہمراہ لڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کے لیے لڑنا پڑا تو فوج کیساتھ مل کر صرف سرحدوں کی چوکیداری نہیں کریں گے بلکہ دشمن کے ملک کے اندر گھس کر دارالعلوم دیوبند میں مسلمانوں کے ساتھ ناشتہ کریں گے۔

پوری قوم یکجا ہے

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ بھارت کے معاملے پر پوری قوم یکجا ہے، بھارت کا فالس فلیگ آپریشن ایکسپوز ہوگیا، بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ ختم نہیں کرسکتا،پاکستان کشمیریوں کا مقدمہ عالمی سطح پر لڑے۔

خودمختاری اور وقار پر کوئی سمجھوتا نہیں

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ  جب بھی پاکستان پر انگلی اٹھی، پیپلز پارٹی نے سب سے پہلے آواز بلند کی ہے۔ بھارت سن لے، پاکستان پہلے ہے، اور ہم سب ایک ہیں۔ سلامتی، خودمختاری اور وقار پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت شہید ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے ہمیشہ پاکستان کے مفاد کو مقدم رکھا۔

شیری رحمان نے بھارت کو ’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘ کی مثال سے یاد کرتے ہوئے کہا کہ پہلگام واقعے میں اپنی ناکامی چھپانے کے لیے بھارت نے بغیر ثبوت کے پاکستان پر الزام دھر دیا۔ پہلگام حملے کے وقت بھارت کے سیٹلائٹ اور سیکیورٹی ادارے کہاں تھے؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی بھرپور جواب نے کہا ہے کہ پاکستان پر پاکستان کے کہ بھارت بھارت کے کے خلاف کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی

ماہرِ امور خارجہ کا پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب میں کہنا تھا کہ حالیہ ایران، اسرائیل جنگ کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، تاہم ایران سے توانائی کے منصوبے جیسے پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور تاپی پائپ لائن عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہیں۔ ایران کیساتھ توانائی کے تعاون کے حوالے سے پاکستان کو واضح مشکلات کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ماہرخارجہ امور محمد مہدی نے کہا کہ مئی کے حالیہ واقعات نے جنوبی ایشیاء کی سلامتی کے تصورات کو ہلا کر رکھ دیا ہے، یہ تصور کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کا امکان معدوم ہوچکا ہے، اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور روایتی جنگ میں بالادستی کا تصور بھی اب ختم ہو چکا ہے، بھارت کی بی جے پی حکومت سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ نہیں۔ سائوتھ ایشین نیٹ ورک فار پبلک ایڈمنسٹریشن کے زیر اہتمام ''جنوبی ایشیائی ممالک اور بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی صورتحال'' کے موضوع پر پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محمد مہدی نے کہا کہ 1998 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کے جوابی دھماکوں کے نتیجے میں دونوں ممالک نے امن کی اہمیت کو سمجھا تھا، مگر مئی کے واقعات نے ثابت کیا کہ خطے کی دو ایٹمی طاقتوں کے مابین کشیدگی کسی بھی وقت بڑھ سکتی ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے موجودہ تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے سارک اور دیگر علاقائی ڈائیلاگ کے امکانات مفقود ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیاء میں بیروزگاری اور معاشی عدم استحکام کا مسئلہ سنگین ہوچکا ہے، بنگلا دیش میں طلباء کی تحریک اسی صورتحال کا نتیجہ ہے، جب نوجوانوں کو روزگار کے مواقع نہیں ملتے تو ان کے ردعمل کے طور پر اس قسم کی تحریکیں ابھرتی ہیں۔ انہوں نے امریکہ میں صدر ٹرمپ کی کامیابی کو اس تناظر میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے امریکہ میں بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کو حل کیا جو ان کی سیاسی کامیابی کی وجہ بنی۔ محمد مہدی نے کہا کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بیروزگاری کا بحران تو ہر جگہ موجود ہے، مگر ہر ملک اپنے اپنے طریقے سے اس کا سامنا کر رہا ہے، بنگلا دیش میں طلباء کی بے چینی اور تحریک اسی صورت حال کا آئینہ دار ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ اگرچہ بنگلا دیش کی تعلیمی سطح خطے کے کچھ دیگر ممالک سے بہتر سمجھی جاتی ہے مگر وہاں کے معاشی مسائل نے عوام کو احتجاج پر مجبور کیا۔ دوسری جانب افغانستان، سری لنکا اور مالدیپ جیسے ممالک میں مختلف نوعیت کے مسائل ہیں، جہاں بے روزگاری کی نوعیت اور شدت مختلف ہے، اس لیے ان ممالک میں بنگلا دیش جیسے حالات کا پیدا ہونا کم امکان ہے۔ انہوں نے ایران اور پاکستان کے تعلقات پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ حالیہ ایران، اسرائیل جنگ کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، تاہم ایران سے توانائی کے منصوبے جیسے پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور تاپی پائپ لائن عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہیں۔ ایران کیساتھ توانائی کے تعاون کے حوالے سے پاکستان کو واضح مشکلات کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔
 
محمد مہدی نے کہا کہ ایران کا بھارت کیساتھ تعلقات میں بھی سردمہری آئی ہے، خاص طور پر جب بھارت نے ایران کیساتھ تعلقات میں تذبذب کا مظاہرہ کیا تو ایران نے بھارت کے رویے کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا۔ ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں ایک اہم تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ محمد مہدی نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار علاقائی تعاون کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات، بالخصوص مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتے۔ خطے کی بیوروکریسی اور حکومتی سطح پر اصلاحات تب تک ممکن نہیں جب تک جنوبی ایشیاء کے ممالک ایک دوسرے کیساتھ امن و تعاون کے راستے پر نہیں چلتے، اگر یہ ممالک ایک دوسرے کیساتھ بڑھتے ہوئے تنازعات اور محاذ آرائی کی بجائے ایک دوسرے کیساتھ اقتصادی اور سیاسی تعاون کی سمت میں قدم بڑھائیں تو خطے میں ترقی اور استحکام ممکن ہو سکتا ہے۔
 
محمد مہدی نے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک کو اپنے اندرونی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خطے کی عوام کے درمیان بے چینی اور تناؤ کو کم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک گڈ گورننس، شفاف میرٹ اور بہتر معاشی ماڈلز پر عمل نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس خطے میں پائیدار امن اور ترقی کا خواب دیکھنا محض ایک خام خیالی بن کر رہ جائے گا۔ ڈاکٹر میزان الرحمان سیکرٹری پبلک ایڈمنسٹریشن و  جنوبی ایشیائی نیٹ ورک سیکرٹری حکومت بنگلہ دیش نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی اور سیاسی چیلنجوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، موسمیاتی تبدیلی، توانائی، اورغربت کے خاتمے جیسے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر رابعہ اختر، ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز نے کہا کہ مئی 2025 کا بحران صرف ایک فلیش پوائنٹ نہیں تھا، بلکہ یہ اس بات کا مظہر تھا کہ پلوامہ بالاکوٹ 2019 کے بعد سے پاکستان کی کرائسس گورننس کی صلاحیت کتنی بڑھی ہے۔ 2019 میں، ہم ردعمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ 2025 میں، ہم تیار تھے۔ اس موقع پر پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر امجد مگسی اور بنگلہ دیش کی حکومت کے ریٹائرڈ سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر شریف العالم نے بھی خطاب کیا۔

متعلقہ مضامین

  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  • ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کو ٹکا سا جواب دیدیا
  • ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
  • خطے میں کسی نے بدمعاشی ثابت کی تو پاکستان بھرپور جواب دے گا: ملک احمد خان
  • افغانستان سے کشیدگی نہیں،دراندازی بند کی جائے، دفتر خارجہ
  • افغانستان کے ساتھ مؤثر مکینزم تشکیل دینے پر اتفاق ہوگیا ہے، وزیر مملکت طلال چوہدری
  • طالبان رجیم کو پاکستان میں امن کی ضمانت دینا ہو گی، وزیر دفاع: مزید کشیدگی نہیں چاہتے، دفتر خارجہ
  • بلدیہ عظمیٰ کاکونسل اجلاس‘12قراردادیں کثرت رائے سے منظور
  • افغان سرزمین سے دراندازی بند کی جائے، کشیدگی نہیں چاہتے: ترجمان دفترِ خارجہ
  • پاکستان افغانستان کے ساتھ مزید کشیدگی نہیں چاہتا، ترجمان دفتر خارجہ