پیر کو ملٹری کورٹس کیس کی حتمی سماعت ہونی ہے،، جج آئینی بینچ
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں ججز ٹرانسفر کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ پہلی جو سمری تیار ہوئی اس میں اندرون سندھ کا ذکر تھا، یہ انجانے میں کی گئی غلطی ہوسکتی ہے کہ اندرون سندھ کے بجائے سندھ لکھا گیا، کراچی کو تو اندرون سندھ سے الگ ہی لکھا جاتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی، وکیل منیر اے ملک نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم نے جواب الجواب دلائل جمع کرا دیے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 200 میں ججز کے ٹرانسفر کی مدت کا زکر نہیں ہے،
منیر اے ملک نے موقف اپنایا کہ ایک جج کا ٹرانسفر ایگزیکٹو عمل ہے، ایگزیکٹو ایکٹ پر جوڈیشل ریویو ہو سکتا ہے، ججز ٹرانسفر کے عمل میں صدر مملکت کو سمری کابینہ سے منظوری کے بغیر بجھوائی گئی، اس بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ مصطفیٰ ایمپکٹ کیس موجود ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ مصطفیٰ ایمپکٹ کیس میں رولز آف بزنس کے سیکشن 16 دو کو کالعدم قرار دیا گیا، رولز آف بزنس کے سیکشن 16 دو کا ججز ٹرانسفر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ رولز آف بزنس کے سیکشن 16 دو کا ججز ٹرانسفر سے کوئی تعلق نہیں ہے، منیر اے ملک نے استدلال کیا کہ وزارت قانون کی ججز ٹرانسفر کیلئے سمری میں بھی تضاد ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو سیکرٹری قانون نے لکھا کہ کوئی سندھ کا جج نہیں، چیف جسٹس پاکستان کو بھی لکھا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں سندھ سے کوئی جج نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ہائیکورٹ کی جج جسٹس ثمن رفعت کا تعلق سندھ سے ہے، جسٹس ثمن رفعت کا تعلق کراچی سے ہے۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ پہلی جو سمری تیار ہوئی اس میں اندرون سندھ کا ذکر تھا، یہ انجانے میں کی گئی غلطی ہوسکتی ہے کہ اندرون سندھ کے بجائے سندھ لکھا گیا، کراچی کو تو اندرون سندھ سے الگ ہی لکھا جاتا ہے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ سمری میں غلطیاں حکومت کی نااہلی اور غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہیں، دوران سماعت منیر اے ملک کا قاضی فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس کیس کا حوالہ دیا اور کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ نے کہا عدالتی امور سے متعلق صدر کو آزادانہ مائنڈ اپلائی کرنا چاہیے، ججز ٹرانسفر کی سمریوں سے عیاں ہوتا ہے صدر مملکت اور وزیراعظم نے ایک ہی دن منظوری دی۔
منیر اے ملک نے کہا کہ ججز ٹرانسفر کیلئے سمری عدلیہ کے زریعے نہیں بجھوائی گئی، ججز ٹرانسفر سے قبل عدلیہ میں مشاورت نہیں ہوئی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز ٹرانسفر کیلئے تین چیف جسٹس صاحبان نے رضامندی کا اظہار کیا، چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے بہت تفصیل کیساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیڈرل ازم پر بات کی۔
منیر اے ملک نے کہا کہ جب سمری بجھوائی گئی اس وقت حلف یا سینارٹی کا زکر نہیں تھا، سمری کی منظوری کے بعد نوٹیفیکیشن میں کہا گیا نئے حلف کی ضرورت نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ نوٹیفکیشن میں آرٹیکل 200 کا حوالہ دیا گیا، ججز کی آپس میں مشاورت ضرور ہوئی ہوگی، ججز ٹرانسفر کے نوٹیفکیشن میں آرٹیکل 200 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا حلف کا لکھا نہیں ہوا۔
منیر اے نے کہا کہ ججز ٹرانسفر کی وجوہات میں لکھا گیا پنجاب میں متناسب نمائندگی کے اصول کو سامنے رکھ کر ایسا کیا جا رہا ہے، کہا گیا پنجاب سے صرف ایک جج اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامر فاروق، جسٹس بابر ستار اور جسٹس اعجاز اسحاق پنجاب کے ڈومیسائل سے ہیں، طے شدہ منصوبے کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ پر قبضے کیلئے ججز ٹرانسفر کیے گئے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کل چھٹی ہے، پرسوں کچھ ججز دستیاب نہیں ہیں، پیر کے روز ملٹری کورٹس کیس کی حتمی سماعت ہونی ہے، منگل کے روز بھی کچھ بنچز ہیں۔
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر کیخلاف کیس کی سماعت 7 مئی ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی، آئندہ سماعت پر بھی پانچ ججز کے وکیل منیر اے ملک دلائل جاری رکھیں گے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے اسلام ا باد ہائی کورٹ ججز ٹرانسفر کی منیر اے ملک نے سپریم کورٹ نے کہا کہ چیف جسٹس لکھا گیا کورٹ میں کیس کی
پڑھیں:
کیس بینچ میں مقرر نہ ہونے کے باوجود جسٹس بابر ستار نے کیس سماعت کی، نیا تنازع کھڑا ہوگیا
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس بابر ستار کا عبوری آرڈر قائم مقام چیف جسٹس کے ڈویژن بنچ سے معطل ہونے پر نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
جسٹس بابر ستار کی ہدایت کے باوجود کیس اُن کے بنچ میں مقرر نہ ہو سکا، تاہم آرڈر معطل ہونے کے باوجود جسٹس بابر ستار نے کیس سماعت کی اور 8 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ بھی جاری کردیا۔
جسٹس بابر ستار کے جاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 26 مارچ کا کیس مقرر کرنے کا آرڈر ڈویژن بینچ میں چیلنج ہی نہیں ہوا تو معطل کیسے ہو سکتا ہے؟ 12 اور 26 مارچ کے آرڈرز عبوری تھے اور کیس کا حتمی فیصلہ ابھی آنا باقی ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے پاس زیرسماعت کیس میں انتظامی سائیڈ پر مداخلت کا کوئی اختیار نہیں، ڈپٹی رجسٹرار آئی ٹی بتائیں کس کے کہنے پر جوڈیشل آرڈرز ویب سائٹ سے ہٹائے؟
تحریری حکمنامے میں جواب طلب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عدالتی ہدایت کے باوجود کیس مقرر نہ کرنے پر ڈپٹی رجسٹرار کے خلاف کیوں نہ کارروائی کی جائے؟
ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو طلب کرنے پر انہوں نے نوٹ پیش کیا کہ آرڈر ڈویژن بینچ نے معطل کر دیا، ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل نے کیس کاز لسٹ میں شامل نہ کر کے بادی النظر میں عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی۔
حکم نامے کے مطابق ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل نے ہدایات کے باوجود بھی کیس سپلیمنٹری کازلسٹ میں بھی شامل نہیں کیا، ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل نے جواز دیا کہ ڈویژن بینچ کی ہدایت کے مطابق کیس مقرر نہیں کیا جا سکتا، بظاہر ڈویژن بینچ کی درست طور پر معاونت نہیں کی گئی کہ یہ عبوری آرڈر ہے۔
جسٹس بابر ستار نے حکم نامے میں لکھا کہ لا ریفارمز آرڈیننس کے تحت سنگل بینچ کے حتمی فیصلے کے خلاف ہی انٹراکورٹ اپیل دائر کی جا سکتی ہے، ریکارڈ طلب کر کے یا کسی ڈائریکشن کے ذریعے آئینی عدالت کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنا ناقابلِ تصور ہے۔
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ کیس 7 مئی کو آئندہ سماعت کے لیے مقرر کیا جاتا ہے، رجسٹرار آفس کیس کازلسٹ میں شامل کرے، کیس کازلسٹ میں شامل نہیں بھی کیا جاتا تو بھی 7 مئی کو سماعت کی جائے گی، آرڈر کی کاپی تمام فریقین کو بھیجی جائے تاکہ وہ آئندہ سماعت پر اپنی حاضری یقینی بنائیں۔
بعد ازاں عدالت نے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل اور ڈپٹی رجسٹرار آئی ٹی کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
یاد رہے کہ جسٹس بابر ستار نے ڈی جی امیگریشن اینڈ پاسپورٹ اور ڈائریکٹر نیب کو توہینِ عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کیا تھا، قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے جسٹس بابر ستار کا آرڈر معطل کر دیا تھا۔
Post Views: 1