UrduPoint:
2025-11-05@04:34:31 GMT

پاک بھارت کشیدگی: یورپی یونین کہاں کھڑی ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT

پاک بھارت کشیدگی: یورپی یونین کہاں کھڑی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 مئی 2025ء) یورپی یونین نے بھارت اور پاکستان سے ''فوجی تحمل‘‘ اور بات چیت کا مطالبہ کیا ہے، کیونکہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں اُس حملے کے بعد برصغیر میں کشیدگی بڑھ رہی ہے، جس میں دو درجن سے زائد سیاح ہلاک ہوئے تھے۔

بھارتی میڈیا رپورٹوں کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی نے بھارتی مسلح افواج کو ''جوابی کارروائی کے طریقے، اہداف اور وقت‘‘ کا خود فیصلہ کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

دوسری جانب پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کا حملہ 24 سے 36 گھنٹوں کے اندر متوقع ہے۔

یورپی یونین کی ترجمان انور العنونی نے برسلز میں روزانہ کی پریس کانفرنس کے دوران ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ای یو نے ہمیشہ اس صورتحال کے ایک ایسے پرامن حل کی ضرورت پر زور دیا ہے، جو بات چیت اور رابطہ کاری پر مبنی ہو۔

(جاری ہے)

دہشت گردانہ حملے کے بعد یہ خاص طور پر اہم ہے۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''تحمل کا مظاہرہ کرنا اور ایسی فوجی، سیاسی، معاشی، قانونی یا دیگر کارروائیوں سے گریز کرنا بہت ضروری ہے، جو علاقائی استحکام کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ای یو کو امید ہے کہ جنوبی ایشیا کے حریف ممالک کے درمیان رابطے کے چینلز کھلے رہیں گے۔

یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لاین نے کشمیر حملے کے دن ہی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اپنی تعزیت کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے لکھا تھا، ''پہلگام میں آج کے گھناؤنے دہشت گردانہ حملے نے بہت سی بے گناہ جانیں لے لیں۔ پھر بھی، میں جانتی ہوں کہ بھارت کا جذبہ ناقابل تسخیر ہے۔ آپ اس آزمائش میں مضبوطی سے مقابلہ کریں گے اور یورپ آپ کے ساتھ کھڑا ہو گا۔‘‘ یورپی یونین کی توجہ یوکرین پر مرکوز

فری یونیورسٹی برسلز (وی یو بی) کے سینٹر فار اسٹریٹجی میں ڈیفنس اینڈ سکیورٹی کے وزٹنگ فیلو ڈاکٹر کلاؤڈ راکسیٹس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بین الاقوامی کرداروں نے اب تک کشیدگی میں کمی کے حوالے سے رسمی سفارتی بیانات کے علاوہ کچھ نہیں کیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ نئی دہلی اور اسلام آباد میں فون خاموش ہیں۔

انہوں نے کہا، ''عوامی طور پر وہ زیادہ کچھ نہیں کر رہے لیکن پردے کے پیچھے امریکی، چینی اور حتیٰ کہ یورپی یونین کے عہدیداروں کی جانب سے بہت سی فون کالز ہو رہی ہوں گی تاکہ کشیدگی کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔‘‘

تاہم انہوں نے نشاندہی کی کہ یورپی یونین کا برصغیر میں اتنا بڑا کردار نہیں، جتنا امریکہ اور چین کا ہے اور اس وقت یورپی یونین دیگر مسائل، بشمول یوکرین کی جنگ میں مصروف ہے۔

انہوں نے کہا، ''ای یو کے لیے بنیادی بات یہ ہے کہ اس کی ترجیحات اب یوکرین اور غزہ میں ہیں۔ نہ صرف ای یو بلکہ بین الاقوامی برادری بھی اکثر ایک وقت میں ایک یا دو مسائل کو ہی سنبھال سکتے ہیں۔‘‘ یورپی یونین کا بھارت کے ساتھ حقیقت پسندانہ رویہ

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ٹرانس اٹلانٹک تعلقات متاثر ہو رہے ہیں اور ایک نیا عالمی نظام شکل پکڑ رہا ہے، بھارت اچانک برسلز کے لیے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔

یوریشیا گروپ کے جنوبی ایشیا پریکٹس ہیڈ اور انتا اسپین سینٹر آف انڈیا کے فیلو پرمیت پال چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارت کو برسلز سے کسی پریشانی کی توقع نہیں، چاہے وہ پہلگام حملے کے جواب میں کوئی بھی ردعمل دے۔ انہوں نے کہا، ''یورپی یونین کچھ نہیں کرے گی۔‘‘

انہوں نے وضاحت کی کہ اس معاملے میں کاروبار کو ترجیح دی جائے گی، ''جیسے جیسے امریکہ ای یو کے خلاف ہو رہا ہے، (ای یو کے رہنماؤں) نے محسوس کیا ہے کہ انہیں اپنے تجارتی تعلقات کو متنوع بنانے کی ضرورت ہے اور بھارت، جو ایک درمیانی سطح کی طاقت ہے، معاشی لحاظ سے جاپان کو پیچھے چھوڑنے کے لیے تیار ہے۔

‘‘

چوہدری نے اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے فان ڈیئر لاین کے رواں سال بھارت کے دورے اور سن 2025 کے آخر تک طویل عرصے سے زیر التواء ''آزاد تجارتی معاہدے‘‘ کو حتمی شکل دینے کے اعلان کی طرف توجہ دلائی۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ کشمیر ماضی میں بھارت اور یورپی یونین کے مابین تعلقات میں ایک تناؤ کا باعث رہا ہے لیکن اب یہ معاملہ ختم ہو چکا ہے کیونکہ ای یو نے کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں میں دلچسپی کم کر دی ہے اور ''زیادہ حقیقت پسندانہ موقف‘‘ اپنایا ہے، خاص طور پر، جب وہ چین سے سپلائی چینز کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور بھارت کو ایک ممکنہ متبادل کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

ڈاکٹر کلاؤڈ راکسیٹس کے مطابق یورپی یونین کے رکن ممالک بھی بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدوں کے حصول کے لیے سازگار پوزیشن لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''وہ بڑی تصویر دیکھ رہے ہیں، وہ بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ بڑے دفاعی معاہدوں کے خواہاں ہیں۔ فرانس کو دیکھیں، اس نے حال ہی میں بھارت کے ساتھ کچھ بڑے دفاعی معاہدے کیے ہیں۔

‘‘

تاہم پرمیت پال چوہدری نے مزید کہا کہ ای یو کی بھارت کے ساتھ تعلقات میں حالیہ پیش رفت کا ایک حصہ دہشت گردی کے مقابلے میں مشترکہ تجربات کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اس معاملے میں بھارت متاثرہ فریق ہے اور ابھی اپنے ہلاک شدگان کے غم میں ہے جبکہ بہت سے ای یو رہنماؤں نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں نے کہا کہ فرانس بھارت اور اس کے عوام کے ساتھ غم کی اس گھڑی میں مضبوطی سے کھڑا ہے۔ انہوں نے ایکس پر پوسٹ کیا، ''فرانس، اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر، جہاں کہیں بھی ضرورت ہو، دہشت گردی کے خلاف لڑائی جاری رکھے گا۔‘‘

ادارت: افسر اعوان

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بھارت کے ساتھ یورپی یونین کہ بھارت کہ ای یو حملے کے ہے اور کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

یورپی اداروں کے اہلکاروں کا حساس موبائل ڈیٹا فروخت کیے جانے کا انکشاف

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

یورپ کے متعدد میڈیا اداروں کی مشترکہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ بیلجیئم میں لاکھوں شہریوں اور حساس اداروں کے ملازمین کے موبائل فونز کی  لوکیشن اور ڈیٹا خفیہ طور پر جمع کرکے فروخت کیا جارہا ہے،  اس ڈیٹا میں یورپی یونین کے اداروں، نیٹو ہیڈکوارٹرز اور فوجی اڈوں کے ملازمین کے فونز بھی شامل ہیں۔

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق فرانسیسی اخبار Le Monde، بیلجیئن جریدے L’Echo، جرمن نشریاتی اداروں BR اور ARD، ویب سائٹ Netzpolitik.org اور BNR Nieuwsradio کی رپورٹ کے مطابق مختلف موبائل ایپلی کیشنز صارفین کی اجازت کے بغیر ان کا مقام (location data) اکٹھا کرتی ہیں، جسے بعد میں ڈیٹا بروکرز مارکیٹنگ اور دیگر مقاصد کے لیے فروخت کرتے ہیں  حالانکہ ان معلومات کو باضابطہ طور پر گمنام  یا anonymous قرار دیا جاتا ہے۔

تحقیق کے مطابق یہ ڈیٹا افراد کی نقل و حرکت کو انتہائی درست انداز میں ظاہر کرتا ہے، جن سے ان کے گھروں، دفاتر اور معمول کے مقامات کی نشاندہی ممکن ہوجاتی ہے۔ اس عمل سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو حساس یا دفاعی اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ موبائل سگنلز ناتو ہیڈکوارٹرز (Brussels)، SHAPE (Supreme Headquarters Allied Powers Europe – Mons)، بیلجیئن جوہری بجلی گھروں Doel اور Tihange، اور فوجی اڈوں Kleine-Brogel سمیت متعدد حساس مقامات پر پائے گئے  جہاں امریکی جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

ایک نیٹو ترجمان نے تسلیم کیا کہ  تھرڈ پارٹی ڈیٹا کلیکشن کے خطرات سے آگاہ ہیں اور  ان خطرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں،  صرف نیٹو مقامات پر ہی ایک ہزار سے زائد موبائل فونز کی موجودگی ریکارڈ کی گئی۔

بیلجیئن وزارت دفاع نے وضاحت کی کہ تمام حساس علاقوں میں موبائل فون کا استعمال ممنوع ہے، جبکہ نیوکلیئر پلانٹس کے آپریٹر Engie نے کہا کہ جوہری تنصیبات کے اندر صرف پیشہ ورانہ مقاصد کے لیے ہی ڈیوائسز استعمال کی جاسکتی ہیں۔

تحقیقی ٹیم نے یہ ڈیٹا اُن بروکرز سے خریدا جو مختلف ایپس سے معلومات اکٹھی کرکے فروخت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق صرف بیلجیئم سے متعلق لوکیشن ڈیٹا سالانہ 24 ہزار سے 60 ہزار ڈالر میں دستیاب ہے، جو روزانہ سات لاکھ موبائلز کی نگرانی پر مشتمل ہوتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر  گمنام  دکھایا جانے والا ڈیٹا بھی آسانی سے de-anonymize کیا جاسکتا ہے کیونکہ کسی شخص کے گھر اور دفتر جیسے صرف دو مقامات جان لینے سے اس کی 95 فیصد درست شناخت ممکن ہے۔

یورپی کمیشن نے اس انکشاف کو  انتہائی تشویشناک  قرار دیتے ہوئے کہا کہ نجی ڈیٹا کی اس غیر قانونی تجارت پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • یورپی اداروں کے اہلکاروں کا حساس موبائل ڈیٹا فروخت کیے جانے کا انکشاف
  • ایسے اقدام سے گریز کیا جائے جو کشیدگی کا باعث بنے، بیرسٹر گوہر نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کردی
  • ٹک ٹاک کا امریکا میں پہلا ایوارڈ شو، تقریب کب اور کہاں منعقد ہوگی؟
  • ای چالان: کراچی میں نافذ ٹریکس نظام کو کہاں تک توسیع دی جائے گی؟
  • پاک افغان کشیدگی اور ٹرمپ کا کردار
  • اقوام متحدہ، یورپی یونین، اوآئی سی سے کشمیری حریت رہنمائوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ
  • فاسٹ فیشن کے ماحولیاتی اثرات
  • پیکسار کمپنی کے ورکر کی غیرقانونی برطرفی قبول نہیں‘خالد خان
  • سمارٹ میٹرز لگوانے والوں کے لئے نئی پریشانی کھڑی
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے‘ کبھی تھا نہ کبھی ہوگا‘ پاکستانی مندوب