بھارتی مہم جوئی اور دفاع وطن کا فریضہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
پاک فوج کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کسی ابہام میں نہ رہے، اگرکسی بھی نوعیت کی مہم جوئی کی تو فوری، بھرپور اور منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ پاکستان علاقائی امن کے لیے پرعزم ہے تاہم اپنی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے منگلا اسٹرائیک کور کے زیر انتظام تربیتی فوجی مشق’’ہیمر اسٹرائیک‘‘ کا مشاہدہ کیا۔ یہ انتہائی شدت کی فیلڈ ٹریننگ مشق ہے۔
بھارت کی حالیہ مہم جوئی نے ایک مرتبہ پھر جنوبی ایشیاء کے امن کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ مودی سرکار کی جنگجویانہ پالیسی، انتہا پسند ہندو توا سوچ اور جنگی ماحول بنانا نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، تاہم پاکستانی قوم اور افواج پاکستان ہمہ وقت دفاع وطن کے لیے تیار ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی دشمن نے جارحیت کی کوشش کی، اُسے منہ توڑ جواب دیا گیا۔پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کا بھارتی پروپیگنڈا بھی محض افواہ ہی ثابت ہوا ہے۔ ترکیہ اور چین پاکستان کے ساتھ فرنٹ لائن پر دکھائی دے رہے ہیں۔
عالم اسلام اور عرب دنیا کے عوام کے جذبات و احساسات اور دعائیں پاکستان کے ساتھ ہیں۔ پاکستان میں اس وقت جنگ کے حوالے سے خوف و ہراس کا ہلکا سا تاثر بھی نہیں پایا جاتا ۔ لائن آف کنٹرول پر سرحدی جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ وہاں سے سامنے آنے والے حیران کن مناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچے، بوڑھے، نوجوان سب ہی اپنی افواج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے تیار ہیں اور گولہ باری اور فائرنگ کے باوجود میدانوں، گھروں کی چھتوں اور کھیتوں اور کھلیانوں میں کھڑے ہوکر اپنی افواج کی بہادری کا مشاہدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
گولہ باری اور شدید فائرنگ کے باوجود بچے میدانوں میں پوری دلچسپی کے ساتھ کھیلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اعتماد، اطمینان اور بے خوفی ثابت کر رہی ہے کہ پاکستان جنگ کی صورت میں کیا کچھ کر گزرنے کے موڈ میں ہے اور بھارت کی کسی بھی غلطی کا خمیازہ اسے کس طرح بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی قیادت اور عوام کے ردعمل نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اور جنگ سے پہلے کا یہ ماحول بھارت میں خوف، اندیشوں اور داخلی اختلافات کا سبب بن گیا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں قیامِ پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک بھارتی جارحیت، بدنیتی اور توسیع پسندانہ عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ بھارت نے ابتدا ہی سے پاکستان کو کمزور کرنے، اس کے وجود کو غیر مستحکم کرنے اور اس کے نظریے کو چیلنج کرنے کی کوششیں کیں۔ یہ سلسلہ کبھی لائن آف کنٹرول پر گولہ باری کے ذریعے اور کبھی جعلی سرجیکل اسٹرائیکس یا جھوٹے بیانیے بنا کر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوششوں کی صورت میں جاری رہا۔ بھارتی مہم جوئی کی سب سے بڑی بنیاد مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی قبضہ اور وہاں کی آبادی کو زیرکرنا ہے۔
5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا اور لاکھوں فوجی تعینات کر کے وادی کو ایک قید خانہ بنا دیا۔ ہزاروں نوجوانوں کو قید کیا گیا، خواتین کو ہراساں کیا گیا اور انٹرنیٹ سمیت تمام ذرایع ابلاغ بند کر دیے گئے۔ یہ سب عالمی برادری کے سامنے ہو رہا ہے، لیکن معاشی مفادات کی خاطر بھارت کو کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھی ہے اور ان کے حقِ خودارادیت کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔
پاکستان نہ صرف ایک ایٹمی طاقت ہے بلکہ اس کی مسلح افواج پیشہ ورانہ مہارت، جدید ٹیکنالوجی، جنگی حکمت عملی اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ پاک فوج نے نہ صرف سرحدوں کی حفاظت کی ہے بلکہ دہشت گردی کے خلاف اندرونی محاذ پر بھی بے مثال قربانیاں دے کر ملک کو امن کی راہ پر گامزن کیا ہے۔ ’’ ضرب عضب‘‘ اور ’’رد الفساد‘‘ جیسے آپریشنز اس کی واضح مثالیں ہیں۔ پاک فضائیہ نے 27 فروری 2019 کو جس بہادری سے دشمن کے جنگی طیارے کو گرایا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ افواجِ پاکستان ہمہ وقت الرٹ اور ہر ممکن چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
نریندر مودی کی حکومت نے پاکستان کے خلاف ایک جارحانہ اور متعصبانہ پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ بھارت جانتا ہے کہ وہ براہ راست جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا، اس لیے وہ پاکستان کے اندر عدم استحکام پھیلانے کے لیے ہائبرڈ وار، دہشت گردوں کی پشت پناہی، اور جعلی پروپیگنڈا کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ یہ جنگی ماحول بھارت کے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کی بھی ایک کوشش ہے۔ کسانوں کی تحریک، معاشی زوال، اقلیتوں پر مظالم اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ان سب کو چھپانے کے لیے بھارتی قیادت پاکستان دشمنی کا سہارا لے رہی ہے۔
پاکستان ایک ذمے دار ایٹمی ریاست ہے۔ اس کی مسلح افواج دنیا کی بہترین اور باصلاحیت افواج میں شمار کی جاتی ہیں۔ بری، بحری اور فضائی افواج ہمہ وقت چوکنا اور ہر جارحیت کا مؤثر جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی، تربیت یافتہ افسران اور اعلیٰ دفاعی حکمت عملی یہ سب مل کر دشمن کی کسی بھی مہم جوئی کو ناکام بنانے کے لیے کافی ہیں۔ آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد نے نہ صرف داخلی سلامتی کو بحال کیا بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کی عسکری مہارت کو تسلیم کروایا۔ 27 فروری کا واقعہ اس امر کا زندہ ثبوت ہے کہ پاکستانی افواج صرف دفاع کی نہیں بلکہ مؤثر حملے کی بھی صلاحیت رکھتی ہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ امن، بات چیت اور سفارتی حل کی حمایت کی ہے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ اگر جنگ مسلط کی گئی تو پاکستان اس کا بھرپور جواب دے گا جو کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت کے لیے بھی تباہ کن ہوگا۔ پاکستان امن کا خواہاں ضرور ہے، لیکن کمزور ہرگز نہیں۔ ہماری خود مختاری، سالمیت اور قومی وقار پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔ بھارت کو سمجھنا چاہیے کہ اگر اُس نے مہم جوئی کی راہ اختیار کی تو وہ اپنے ہی عوام کو تباہی کے دہانے پر لے جائے گا۔ پاکستان کی مسلح افواج، اس کی قیادت اور عوام سب ایک پیج پر ہیں۔ دشمن جان لے، ہم پرامن ضرور ہیں، مگر غافل نہیں۔ اگر جنگ مسلط کی گئی، تو دشمن کو وہ سبق سکھایا جائے گا جو آنے والی نسلوں کو یاد رہے گا۔
دنیا جانتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی بھی جھڑپ ایٹمی تصادم میں بدل سکتی ہے، مگر اس کے باوجود وہ بھارت کی عقل سے عاری حکومت کے جنگی جنون کو روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہی۔ کیا جنوبی ایشیا کے ڈیڑھ ارب انسانوں کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں؟ عالمی طاقتوں کی اس بے حسی سے بھارت کو شہ مل رہی ہے، اگر یہ رجحان جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب پوری دنیا ایک نئی عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہوگی اور اس بار تباہی صرف روایتی ہتھیاروں سے نہیں، بلکہ ایٹمی ہتھیاروں سے ہوگی۔
یہ وقت ہے کہ عالمی برادری محض بیانات سے آگے بڑھے۔ اقوام متحدہ کو فوری طور پر بھارت کے ان عزائم کا نوٹس لینا چاہیے اور دونوں ممالک کو میز پر لا کر پہلگام واقعے کی شفاف تحقیقات کا انتظام کرنا چاہیے۔ خطے کا امن صرف پاکستان کی ذمے داری نہیں۔ یہ ایک عالمی مفاد ہے اور اگر دنیا نے بروقت کردار ادا نہ کیا تو بھارت کی ایک اور حماقت تاریخ کو دوبارہ خون سے لکھنے پر مجبور کر دے گی۔
پاکستان کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے اس وقت دنیا کے کئی ممالک پاک، بھارت تناؤ کے ماحول کو معمول کی سطح پر لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اقوامِ متحدہ، سعودی عرب اور امریکا سمیت کئی ممالک نے جنوبی ایشیا میں امن قائم رکھنے کے لیے دونوں ملکوں کی قیادت کو مصلحت اور نرمی سے کام لینے کی تلقین کی ہے۔ امن صرف دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں بلکہ پورے خطے اور عالمی سطح پر بھی ضروری ہے۔ اس لیے دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کریں۔ عالمی برادری کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ جنوبی ایشیا میں امن قائم ہو سکے۔
دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں اور جنگ کی صورت میں اس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ چین نے اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے تعمیری کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے اور دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششیں کی ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی ثالثی کی پیشکش کی ہے اور دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
عالمی برادری کی ذمے داری ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ عالمی طاقتیں جیسے چین، امریکا اور اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر لائیں اور مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دونوں ممالک کو عالمی برادری کے لیے تیار کرنے کے لیے پاکستان کی پاکستان کے بھارت کے بھارت کی کرنے کی ہے اور رہی ہے
پڑھیں:
بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
کرکٹ کی تاریخ میں ایک نہایت منفرد اور افسوسناک لمحہ اس وقت سامنے آیا جب ایشیا کپ کے ایک میچ کے بعد بھارتی کھلاڑیوں نے روایت سے ہٹ کر پاکستانی کھلاڑیوں سے مصافحہ کرنے سے گریز کیا۔ یہ واقعہ اس کھیل کی اصل روح پر ایک کاری ضرب ہے ، کیونکہ کرکٹ کو ہمیشہ "جنٹل مینز گیم” کہا جاتا رہا ہے ، جہاں نہ صرف کھیل کے اصول بلکہ باہمی احترام اور تعلقات کی نزاکت بھی اہم سمجھی جاتی ہے ۔ لیکن بھارت کے کھلاڑیوں کا یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتہا پسندی کی لہر نے وہاں کھیل کے میدانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ یہ محض ایک لمحاتی رویہ نہیں تھا بلکہ ایک سوچ اور بیانیہ کی عکاسی تھی جسے بھارتی میڈیا اور سیاستدان بڑی شدت کے ساتھ پروان چڑھا رہے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ ہمیشہ سے محض کھیل نہیں بلکہ ایک بڑے اعصابی معرکے کے طور پر دیکھی جاتی ہے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کا جوش و خروش اپنی جگہ، لیکن کھیل کے بعد کھلاڑیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ اور خوشگوار ملاقات ہمیشہ ہی ایک مثبت پیغام دیتی رہی ہے ۔ چاہے ماضی میں کتنے ہی کشیدہ حالات کیوں نہ رہے ہوں، کرکٹ نے دونوں ملکوں کے عوام کو قریب لانے کا ایک ذریعہ فراہم کیا ہے ۔ لیکن حالیہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں کھیل کی روایات بھی نفرت کی سیاست کے سامنے دم توڑ رہی ہیں۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے پہلے ہی بھارتی میڈیا نے ایک عجیب ہنگامہ برپا کیا۔ "گودی میڈیا”کہلانے والے بھارتی چینلز نے یہ بحث چھیڑ دی کہ بھارت کو پاکستان سے کھیلنا ہی کیوں چاہیے ؟ گویا کھیل کی دنیا میں بھی تعلقات کو دشمنی اور سیاست کی عینک سے دیکھنے کی عادت بن گئی ہے ۔ بھارتی میڈیا کا یہ کردار نہ صرف کھیل کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ بھارتی عوام کے ذہنوں میں بھی نفرت اور دوریاں بڑھا رہا ہے ۔ کرکٹ جیسے کھیل کو جنگ کا متبادل بنانے کی کوشش دراصل ایک خطرناک رجحان ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ کھیل ایک ایسا ذریعہ ہے جو دشمنی کے بادل چھانٹ کر امن کا پیغام دیتا ہے ، جب کہ جنگ تباہی اور بربادی لاتی ہے ۔ کھیل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کو قریب سے جان سکیں، تعلقات میں نرمی پیدا ہو اور اعتماد کی فضا قائم ہو۔ لیکن بھارت کی موجودہ انتہا پسندانہ روش نے اس فرق کو مٹا کر کھیل کو بھی نفرت کا اکھاڑا بنانے کی کوشش کی ہے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کی تاریخ شاندار لمحوں سے بھری ہوئی ہے ۔ 1987ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان آئی تو جنرل ضیاء الحق نے "کرکٹ ڈپلومیسی” کے تحت راجیو گاندھی سے ملاقات کی، جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں وقتی بہتری پیدا کی۔ اسی طرح 2004ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو لاہور، کراچی اور راولپنڈی کے عوام نے بھارتی کھلاڑیوں کو بے مثال محبت دی۔ حتیٰ کہ شائقین نے بھارتی کھلاڑیوں کے لیے تالیاں بجائیں، ان کی کارکردگی کو سراہا اور دنیا کو دکھایا کہ کھیل کس طرح دشمنیوں کو مٹا سکتا ہے ۔ لیکن آج کا بھارت اپنی اسی تاریخ کو بھلا بیٹھا ہے اور کھیل کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا رہا ہے ۔
اصل مسئلہ بھارت کی اندرونی سیاست میں پنہاں ہے ۔ بھارتی حکمران جماعت نے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان دشمنی کو ایک بیانیہ بنا لیا ہے ۔ انتخابی مہمات ہوں یا روزمرہ کی سیاست، پاکستان کے خلاف زہر اگلنا بھارتی رہنماؤں کے لیے ایک آسان ہتھیار ہے ۔ اس بیانیے کو بھارتی میڈیا نے مزید ہوا دی ہے ۔ ہر میچ کو ایک جنگ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ہر پاکستانی کھلاڑی کو ایک دشمن کے طور پر دکھایا جاتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام کے ذہنوں میں یہ نفرت اس حد تک رچ بس گئی ہے کہ کھیل کے بعد ایک مصافحہ بھی انہیں گوارا نہیں ہوتا۔یہ رویہ صرف پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ہی نقصان نہیں پہنچا رہا بلکہ بھارت کے اپنے کھیل کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں کھیل کو امن اور دوستی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ، لیکن بھارتی کھلاڑیوں کا یہ طرزِ عمل دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ بھارت کھیل کو بھی اپنی انتہا پسندی کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر اس سے بھارت کی شبیہ متاثر ہو رہی ہے ، کیونکہ کرکٹ کے شائقین دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، وہ کھیل کے اندر دوستی اور عزت کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔
پاکستانی کھلاڑیوں نے ہمیشہ اپنی طرف سے کھیل کی اقدار کا احترام کیا ہے ۔ چاہے جیت ہو یا ہار، انہوں نے بھارتی کھلاڑیوں کے ساتھ مثبت رویہ اپنایا۔ لیکن بھارت کی جانب سے یہ سرد مہری اور غیر روایتی رویہ اس بات کا اظہار ہے کہ کھیل کو نفرت سے آلودہ کر دیا گیا ہے ۔ اس کا نقصان صرف پاکستان کو نہیں بلکہ خود بھارت کو بھی ہوگا، کیونکہ جب کھیل سے رواداری ختم ہو جاتی ہے تو اس کے بعد کھیل کا اصل حسن باقی نہیں رہتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے ؟ سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ کھیل کے میدانوں کو سیاست اور نفرت سے پاک رکھا جائے ۔ کرکٹ بورڈز کو چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کو کھیل کی اصل روح یعنی باہمی احترام اور رواداری کی تربیت دیں۔ بین الاقوامی ادارے مثلاً آئی سی سی اور اے سی سی اپنی ذمہ داری ادا کریں اور کھیل میں غیر اخلاقی رویوں کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ میڈیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کھیل کو سیاست کا میدان نہ بنایا جائے بلکہ اسے امن اور بھائی چارے کا ذریعہ بننے دیا جائے ۔ پاکستان اپنی کرکٹ ڈپلومیسی کو مزید فعال کرے اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ کھیل کو سیاست سے بالاتر سمجھنا چاہیے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کو یہ شعور دینا ہوگا کہ کھیل دشمنی نہیں بلکہ تعلقات بہتر بنانے کا ذریعہ ہے ۔آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ کھیل دلوں کو جوڑتا ہے ، جب کہ جنگ دلوں کو توڑتی ہے ۔ اگر بھارت واقعی ایک بڑی قوم بننا چاہتا ہے تو اسے کھیل کے میدانوں میں بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کے ساتھ کھیلنا کوئی کمزوری نہیں بلکہ ایک موقع ہے کہ دونوں قومیں قریب آئیں اور نفرت کی دیواریں توڑیں۔ کرکٹ کو نفرت کا نہیں بلکہ محبت اور امن کا ذریعہ بنانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔